قانون سے بالا تر حکمرانی کے نقصانات
7 ستمبر 2025تاریخ میں استبدادی حکومت ایسے سیاسی نظام کو کہتے ہیں، جس کا سربراہ بے انتہا با اختیار اور قانون سے بالا تر ہو۔ اس کی مثال ہمیں بادشاہوں اور آمرانہ حکومتوں میں ملتی ہیں، جن میں عوام سیاسی پابندیوں کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی آزادی سے محروم ہوتی ہے۔
قدیم تاریخ میں بادشاہت بے انتہا طاقتور اور با اختیار ہوا کرتی تھی۔ بادشاہ خود کو برتر اور باعظمت بنانے کے لیے کبھی خود کو آسمانی دیوتا کی اولاد کہتا تھا۔ کبھی خود کو دیوتا بنا دیتا تھا۔ مسلمان بادشاہ اپنے لیے ظل الہٰی کا خطاب اختیار کرتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ رعایا ان کی وفادار رہے۔ ان کی مخالفت کرنے والے کو ریاست کا دشمن اور غدار قرار دیا جاتا تھا۔مقصد یہ ہوتا تھا کہ ان کے خلاف کوئی بغاوت نہ کرے اور ان کے ہر ظلم کو برداشت کرے۔
لوگ اپنی محنت و مشقت کی کمائی کو ٹیکسوں کی شکل میں انہیں دے کر ان کی شان و شوکت کو بڑھاتے ہیں اور خود مفلسی اور بے بسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ پھر ایک وقت آتا ہے جب عوام ان کی روحانی قوت سے بغاوت کرتے ہیں اور ان کی طاقت کو ختم کر دیتے ہیں۔ جیسے رومی سلطنت کا خاتمہ جرمن قبائل نے کیا۔ ساسانی سلطنت کو عربوں نے فتح کیا۔ باز نطینی سلطنت کو ترکوں نے شکست دی۔ عباسی سلطنت کا خاتمہ منگولوں نے کیا۔ جب مذکورہ بالا بغاوتیں ہوئیں تو ان کے دیوی دیوتا ان کی حفاظت نہیں کر سکے۔
استبدادی حکومتوں میں خوشامدانہ کلچر کا فروغ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی کام کے لیے کوئی ضابطہ یا قانون تو نہیں ہوتا۔ اس لیے استبدادی قووتوں کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے کام کرائیں اور اپنی مقبولیت میں اضافہ کریں۔ مورخ بادشاہوں کے عدل و انصاف کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کی فیاضی اور سخاوت کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ خوش آمد ایک ایسا آرٹ بن جاتی ہے کہ جو سننے والے کو بھی پسند آتا ہے۔
مورخ باز اوقات حکمران کی خوشامد میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ جس پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً اکبر کے مورخ ابو الفضل نے اکبر کے بارے میں اس کے بچپن ہی سے کرامتیں منسوب کر دی تھیں۔ خوشامد کا ایک طریقہ جو شاعروں نے اختیار کیا وہ قصیدے کی ایک صنف تھی۔ یہ تعریف اس وقت مذاق بن جاتی ہے، جب حکمران زوال کا شکار ہو۔ مثلاً جب مغل بادشاہ بے اختیار تھے تو شاعر انہیں رستم و سہراب سے ملا رہے تھے۔ جب وہ انصاف کرنے کے قابل نہ تھے، شاعر انہیں نو شیرواں عادل کہہ رہے تھے۔ جو اپنی مالی حالت سے خود اپنا گزارا نہیں کر پاتا تھا اس کی فیاضی اور سخاوت کے قصے بیان کرتے تھے، جو جنگوں میں فتح یاب نہیں ہوتا تھا اسے فاتحہ عالم کہہ کر پکارتے تھے۔ خوش آمد کے اس کلچر نے لوگوں کی خودداری اور عزت کا خاتمہ کر دیا تھا۔
استبدادی حکومت کی ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس میں رشوت کا فروغ ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب حکمران اور امرا کے پاس تمام اختیارات ہوں تو کامیابی کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا کہ رشوت دے کر کام کروائے جائیں۔ مغل شہنشاہ کے زمانے میں یورپی تاجر ہندوستان آتے تھے اور اپنے مال پر کسٹم ڈیوٹی معاف کرانے کے لیے امرا کو رشوت دے دیا کرتے تھے۔ شاہ جہاں کے عہد میں نور جہاں کا خاندان بڑا با اثر ہو گیا تھا۔ تاجروں کے سیاحت ناموں سے پتہ چلتا ہے کہ نور جہاں کے بھائی آصف خاہ کو بڑی رشوتیں دی جاتی تھیں۔ ان میں پرتگالی، انگریز اور فرانسیسی تاجر شامل تھے۔ ایک مغل مورخ نے لکھا ہے کہ نور جہاں کے والد میرزا غیاث بیگ، جو اعتماد الدولہ کے نام سے مشہور تھے، رشوت لینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ نور جہاں کی فیملی کے اراکین سندھ کے علاقے سہون سے سندھ پر حکومت کرتے تھے۔ تاریخ شاہ جہانی کے مصنف یوسف میرک نے لکھا ہے کہ یہ رعایا پر بے انتہا ظلم کرتے تھے۔ ٹیکس کی وصولی میں ان کا کردار ظالمانہ تھا۔ اگرچہ امرا کی زیادتیوں کا علم حکمران کو ہو جاتا تھا مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی تھی۔
استبدادی حکومت کے لیے امتحان کا وقت اس وقت آتا تھا جب بیرونی حملہ آور اس کی سلطنت کے مال و دولت کو لوٹنے آتے تھے اور وہ ان کا دفاع نہیں کر سکتا تھا۔ مغل بادشاہ احمد شاہ کے عہد میں ہندوستان پر اٹھارہویں صدی میں جب نادر شاہ حملہ آور ہوا تو مغل بادشاہ نے سمجھوتہ کر کے مغل سلطنت کا صدیوں پرانا خزانہ اس کے حوالے کر دیا اور جب نادر شاہ ابدالی نے حملے کر کے ہندوستان کی لوٹ کھسوٹ کی تو اس کو بھی روکنے والا کوئی نہیں تھا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ حملہ آور کیوں کامیاب ہوئے۔ اس کی وجہ ہندوستانی معاشرے کی طبقاتی ساخت تھی۔ استبدادی حکومت میں تمام مراعات امرا کے طبقے کو تمام ملتی تھیں مگر عوام بنیادتی ضرورتوں سے محروم رہتے تھے۔ اس صورت میں ان کے لیے ملکی اور غیر ملکی حکمرانوں کا فرق ختم ہو جاتا تھا۔ کسی بھی ریاست کا دفاع صرف حکمراں اور فوج سے نہیں ہوتا ہے۔ اس کے لیے عوامی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وہ سبق ہے جو تاریخ ہمیں بتاتی ہے۔