فیجی کے ڈوبتے جزائر
سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح نے جنوبی بحرالکاہل کے سینکڑوں گاؤں کے رہائشیوں کو بلند علاقوں یا دوسرے جزیروں پر منتقل ہونے پر مجبور کر دیا ہے۔ مقامی افراد کے لیے یہ ایک تکلیف دہ قدم ہے۔
سیلابی ریلا
فیجی کے جزیرے سیریا پر، پانی رکاوٹوں کو توڑ کر گاؤں میں داخل ہو گیا تھا۔ کچھ گھروں کے درمیان لکڑی کے تختوں کے ذریعے عارضی راستے بنائے گئے۔ کھارے پانی سے باغات اور فصلوں کو شدید نقصان پہنچا۔
مستقبل کو محفوظ بنانا
ایک مقامی خاتون سیروا نامی گاؤں میں تین بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔ یہاں ان کی تین سالہ بیٹی ان کی گود میں ہے۔ اس خاتون کا کہنا ہے کہ سیلاب، کٹاؤ اور شدید موسمی حالات کے پیش نظر، سیروا گاؤں کی اگلی نسل کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے فیجی کے مرکزی جزیرے پر منتقل ہونا ہو گا۔
امکانات کی کمی
سیروا گاؤں آٹھ سالہ رتوکالی مدناوا آج کل غوطہ خوری نہیں کر رہیں۔ گاؤں کے بزرگ اس بارے میں پریشان ہیں کہ کیا مصنوعی طریقے سمندر کو مزید دیہاتوں اور قبرستانوں کو نگلنے سے روکا جا سکتا ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ تمام دستیاب آپشنز ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
کوئی راستہ نہیں
ایک بزرگ مقامی رہائشی اور ان کا پوتا فیجی کے ایک جزیرے پر ماہی گیری کے سفر کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس گاؤں کے بزرگوں کا ہمیشہ یہ خیال تھا کہ وہ یہاں اپنی پیاری زمین پر ہی ہلاک ہوں گے، جہاں ان کے آباؤ اجداد دفن ہیں۔ لیکن جب کمیونٹی کے پاس اپنے علاقے کو بچانے کے راستے ختم ہو جائیں گے، تو یہاں مقیم 80 دیہاتیوں کو اپنی زمین چھوڑ کر کہیں اور منتقل ہونا پڑے گا۔
غیر موثر روکاوٹیں
فیجی کی اقتصادی امور کی وزارت کے ساتھ منسلک موسمیاتی تبدیلی کے ماہر شیونال کمار نے کہا کہ بند بنانا، درخت لگانا اور نکاسی آب کو بہتر بنانا اب اس گاؤں کو بچانے کے لیے کافی نہیں ہے۔
آلودگی کا سبب بنے والی ریاستیں ادائیگیاں ادا کرنے سے انکاری
اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق کانفرنسوں میں صنعتی ممالک کی طرف سے جو فنڈز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ آبادکاری کے لیے نہیں بلکہ بند کی تعمیر، درختوں کو اگانے وغیرہ جیسے اقدامات کے لیے دیے جاتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں آنے والی اقوام، جیسے کہ فیجی کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کا مسئلہ پیدا کرنے والے ممالک کو معاوضے کی ادائیگیوں میں کنجوسی نہیں کرنی چاہیے۔
مایوس دیہاتی
اگست کے اوائل میں COP26 کے صدر آلوک شرما نے دارالحکومت سووا میں کہا تھا کہ وہ موسمیاتی تبدیلی سے براہ راست متاثر دیہاتیوں کی مایوسی کو سمجھتے ہیں، ’’آپ کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے نتائج سے نمٹنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ یہ گیسیں بڑے پیمانے پر سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ممالک کی طرف سے پیدا کی جاتیں ہیں، جو خود یہاں سے بہت دور ہیں۔ یہ آپ کا پیدا کردہ بحران نہیں ہے۔"
مشکل فیصلہ
وینادوگولوا نامی اس گاؤں کے بچوں کو اب اپنے گھروں کے سامنے گھٹنوں گھٹنوں پانی میں کھڑا نہیں ہونا پڑتا بلکہ اب وہ خشک پاؤں کے ساتھ اپنے نئے گھروں کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کا نیا گاؤں پرانے گاؤں سے 1.5 کلومیٹر دور ہے۔ 63 سالہ راماتو کا کہنا ہے کہ بزرگوں کو راضی کرنے میں کچھ وقت لگا، لیکن گاؤں والوں نے آخر کار ماہرین کی بات مان لی۔ نئے گاؤں کا نام کنانی ہے۔