فوجی کی رہائی کے لیے طالبان سے مذاکرات نہیں کر رہے، وائٹ ہاؤس
19 فروری 2014وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے منگل کو ایک بیان میں کہا: ’’ہم طالبان کے ساتھ فعال بات چیت کا حصہ نہیں ہیں۔‘‘
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ امریکی حکومت سارجنٹ بَو بیرگ ڈاہل کی رہائی کے لیے گوآنتانامو بے کے حراستی کیمپ کے قیدیوں کا تبادلہ کرنے کے لیے طالبان سے بات چیت کی بحالی چاہتی ہے۔ یہ امریکی فوجی 2009ء سے طالبان کی حراست میں ہے اور خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسے پاکستان یا افغانستان میں کہیں قید کر رکھا ہے۔
کارنی نے افغانستان کی سربراہی میں طالبان کے ساتھ مصالحتی عمل میں معاونت کی امریکی کوششوں کی تفصیلات پر گفتگو کرنے سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا: ’’ہم طالبان کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت نہیں کر رہے، کوئی فعال مذکرات نہیں ہو رہے، لیکن اگر مذاکرات بحال کرنے پڑے تو ہم یقینی طور پر سارجنٹ بیرگ ڈاہل کی قسمت پر بات کرنا چاہیں گے۔‘‘
انہوں نے صدر باراک اوباما کے اس عزم کو بھی دہرایا کہ ان کی انتظامیہ اس وقت تک کسی قیدی کو منتقل نہیں کرے گی جب تک اس قیدی کی جانب سے درپیش خطرہ انتہائی کم نہیں ہو جاتا اور ایسا صرف انسانی ہمدردی کی امریکی پالیسی کی بنیاد پر ہی کیا جائے گا۔
بیرگ ڈاہل اور گوآنتانامو بے کے حراستی کیمپ میں قید طالبان کمانڈروں کے تبادلے کی تجویز گزشتہ برس سامنے آئی تھی۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں دو نامعلوم افراد کا حوالہ دیا ہے جو اس فیصلے سے آگاہ ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ وائٹ ہاؤس، محکمہ دفاع، محکمہ خارجہ اور دیگر ایجنسیوں کے اعلیٰ حکام نے گزشتہ مہینوں کے دوران بیرگ ڈاہل کی رہائی کے لیے طالبان کے پانچ قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ تجویز دراصل دو برس قبل پیش کی گئی تھی تاہم طالبان مذاکراتی عمل سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ ماضی میں طالبان نے قیدیوں کو دھیرے دھیرے رہا کرنے کی امریکی تجویز ردّ کر دی تھی جس کا مقصد اس بات کا یقین کرنا تھا کہ آیا ثالث ان کو شدت پسندی کی جانب واپس جانے سے روک پاتے ہیں یا نہیں۔
جب کارنی سے پوچھا گیا کہ کیا اغوا کاروں کے ساتھ مذاکرات کی مثال قائم ہونے کا خدشہ پایا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ واشنگٹن انتظامیہ بیرگ ڈاہل کے بارے میں گہری تشویش رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم سمجھتے ہیں کہ جس قدر جلدی ممکن ہو اسے لوٹ آنا چاہیے۔‘‘