’فوجی کارروائی کو غزہ شہر کے مزید اندر تک وسعت دے رہے ہیں‘
وقت اشاعت 7 ستمبر 2025آخری اپ ڈیٹ 7 ستمبر 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- فوجی کارروائی کو غزہ شہر کے ’مزید اندر تک وسعت‘ دے رہے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم
- فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے ’یک طرفہ‘ اقدامات ہو سکتے ہیں، اسرائیل کا انتباہ
- یمن سے داغے گئے ایک ڈرون نے رامون ایئر پورٹ کو نشانہ بنایا، اسرائیل
- روس کو ’مناسب جواب‘ دیا جائے گا، یوکرین
- اسرائیل غزہ میں اپنی فوجی مہم بند کرے، ڈنمارک
- دنیا کے 25 ممالک ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتے ہیں، گروسی کا انتباہ
- جاپان کے وزیراعظم شیگیرو ایشیبا مستعفی ہو گئے
- لندن میں فلسطین ایکشن گروپ کے حق میں مظاہرے کے دوران 400 سے زائد افراد گرفتار
- یروشلم میں دسیوں ہزار افراد کا غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ
- روس کا یوکرین پر اب تک کا سب سے بڑا فضائی حملہ
- بحیرہ احمر میں زیر سمندر کیبلز کاٹ دی گئیں، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں انٹرنیٹ سروس متاثر
- پاکستان کے سیلاب زدہ جنوبی پنجاب میں کشتی الٹنے سے پانچ افراد ہلاک
فوجی کارروائی کو غزہ شہر کے ’مزید اندر تک وسعت‘ دے رہے ہیں، اسرائیلی وزیر اعظم
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے اتوار کو کہا کہ فوج غزہ شہر اور اس کے اطراف میں اپنا حملہ ’’گہرا‘‘ کر رہی ہے تاکہ فلسطینی عسکری گروپ حماس پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔
چند روز قبل اسرائیل نے غزہ شہر میں دو بلند و بالا عمارتوں کو منہدم کر دیا تھا کیونکہ فوج نے اس علاقے میں اپنی کارروائیاں تیز کر دیں۔ اس کا مقصد فلسطینی علاقے کے سب سے بڑے شہری مرکز پر قبضہ کرنا ہے۔
نیتن یاہو نے کابینہ کے اجلاس کے آغاز پر وزراء سے کہا، ’’ہم غزہ شہر کے مضافات اور خود غزہ شہر کے اندر اپنی کارروائی کو گہرا کر رہے ہیں۔‘‘
نیتن یاہو نے کہا، ’’ہم دہشت گردی کے ڈھانچے کو تباہ کر رہے ہیں، ہم شناخت شدہ دہشت گردی کے ٹاورز کو منہدم کر رہے ہیں۔‘‘ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ حالیہ حملوں میں منہدم کی گئیں دو بلند و بالا عمارتیں اسرائیلی فوج کی ’’نگرانی‘‘ کے لیے استعمال کی جا رہی تھیں۔ حماس نے اس الزام کو مسترد کر دیا ہے۔
ان اسرائیلی کارروائیوں نے علاقے میں رہنے والے فلسطینیوں کے لیے پہلے سے سنگین انسانی حالات کے مزید خراب ہونے کے خدشات کو ہوا دی ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل نے ’’غزہ میں شہری آبادی کے لیے ایک اور انسانی زون قائم کیا ہے تاکہ وہ محفوظ علاقے میں منتقل ہو سکیں۔‘‘
ہفتے کو اسرائیلی طیاروں نے غزہ شہر کے مغربی محلوں پر ہزاروں پمفلٹ گرائے، جن میں رہائشیوں سے انخلا کا کہا گیا تھا۔ نیتن یاہو نے کہا کہ تقریباً ایک لاکھ رہائشی غزہ شہر سے نکل چکے ہیں۔ انہوں نے حماس پر الزام لگایا کہ وہ انخلا کو روکنے کی کوشش اور شہریوں کو ’’انسانی ڈھال‘‘ کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔
غزہ شہر میں رہنے والے مصطفیٰ الجمل نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ وہ وہاں سے نکلنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ جن جنوبی علاقوں میں رہائشیوں کو انخلا کے لیے کہا گیا ہے، وہاں بار بار بمباری ہو رہی ہے حالانکہ اسے ’’محفوظ زون‘‘ قرار دیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا، ’’ہم کہاں جائیں؟ ہمارے پاس نہ پیسہ ہے، نہ خیمہ، نہ گھر، نہ کھانا۔‘‘
فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے ’یک طرفہ‘ اقدامات ہو سکتے ہیں، اسرائیل کا انتباہ
اتوار کو اسرائیل کے وزیر خارجہ نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حالیہ بین الاقوامی کوششوں کو ’’غلطی‘‘ قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اس سے غیر متعینہ یک طرفہ ردعمل ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ اسرائیل مقبوضہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو ضم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
فرانس اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے اس ماہ اقوام متحدہ کی 80ویں جنرل اسمبلی کے موقع پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ فرانس اور اسرائیل کے تعلقات اُس وقت سے خاص طور پر کشیدہ ہیں، جب سے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا اور جولائی میں سعودی عرب کے ساتھ مل کر اقوام متحدہ میں دو ریاستی حل پر ایک کانفرنس کی میزبانی کی۔
برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے بھی گزشتہ ماہ کہا تھا کہ اگر اسرائیل جنگ بندی پر راضی نہ ہوا تو برطانیہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سعار نے کہا، ’’فرانس اور برطانیہ جیسے ممالک، جنہوں نے نام نہاد (فلسطینی ریاست کو) تسلیم کرنے کی حمایت کی ہے، انہوں نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ان منصوبوں پر عمل درآمد سے ’’امن تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا۔ یہ خطے کو غیر مستحکم کرے گا۔ یہ اسرائیل کو بھی یک طرفہ فیصلے کرنے پر مجبور کرے گا۔‘‘
سعار کے ریمارکس ایک ایسے وقت سامنے آئے ہیں، جب اسرائیل نے مغربی کنارے میں نئی بستیوں کی تعمیر کی منظوری دی ہے۔ ان میں یروشلم کے مشرق میں ایک بڑا منصوبہ ای-ون بھی شامل ہے، جس کے بارے میں بین الاقوامی برادری نے خبردار کیا ہے کہ یہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کی عملداری کو خطرے میں ڈالتا ہے۔
مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں تمام اسرائیلی بستیاں بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی سمجھی جاتی ہیں۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہ بیزالیل سموٹریچ نے کہا ہے کہ ای-ون منصوبہ فلسطینی ریاست کے خیال کو ’’دفن‘‘ کر دے گا۔
بدھ کو انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے کے بڑے حصوں کو ضم کرنے کا منصوبہ ’’ہماری چھوٹی سی زمین کو تقسیم کرنے اور اس کے مرکز میں ایک دہشت گرد ریاست قائم کرنے کے خیال کو ہمیشہ کے لیے ایجنڈے سے ہٹا دے گا۔‘‘
غزہ میں جنگ جاری ہونے کے باوجود مغربی کنارے میں بھی تشدد پھیل چکا ہے۔
رام اللہ میں فلسطینی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر 2023 کے بعد سے مغربی کنارے میں کم از کم 973 فلسطینی اسرائیلی فورسز یا آباد کاروں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔
سرکاری اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق اسی عرصے میں کم از کم 36 اسرائیلی، بشمول فوجی، بھی ہلاک ہوئے۔
یمن سے داغے گئے ایک ڈرون نے رامون ایئر پورٹ کو نشانہ بنایا، اسرائیل
اسرائیل کی ایئرپورٹس اتھارٹی نے اتوار کو بتایا کہ یمن سے داغا گیا ایک ڈرون بحیرہ احمر کے قریب واقع شہر ایلات کے رامون ایئرپورٹ پر گرا۔ اتھارٹی نے کہا کہ ایئرپورٹ پر پروازوں کی آمد ر رفت کو روک دیا گیا ہے اور جلد از جلد معمول کے آپریشنز بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس واقعے کی جانچ کی جا رہی ہے لیکن اس کے اثرات کے بارے میں تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ یہ ابھی تک واضح نہیں کہ آیا اس ڈرون کو فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا۔
ایلات کے قریب واقع یہ ایئرپورٹ، جو اردن اور مصر کی سرحد پر ہے، زیادہ تر ملکی پروازوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
اس سے چند گھنٹے قبل اسرائیلی فوج نے بتایا تھا کہ اس نے یمن سے داغے گئے تین ڈرونز کو روک لیا ہے۔ چند روز پہلے حوثی باغیوں نے گزشتہ ماہ اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے وزیراعظم کے قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
اسرائیلی فوج نے ایک بیان میں کہا، ’’کچھ دیر قبل اسرائیلی فضائیہ (آئی اے ایف) نے یمن سے آنے والے تین ڈرونز (یو اے وی) کو روک لیا گیا۔‘‘ بیان کے مطابق دو ڈرونز کو اسرائیلی فضائی حدود میں داخل ہونے سے پہلے ہی تباہ کر دیا گیا جبکہ تیسرے ڈرون کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں دی گئی تھیں۔
روس کو ’مناسب جواب‘ دیا جائے گا، یوکرین
یوکرینی صدر ولوودیمیر زیلنسکی نے اتوار کو کہا کہ روس کے یوکرین پر سب سے بڑے فضائی حملے کے بعد انہوں نے فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں سے بات چیت کی ہے۔ زیلنسکی نے ٹیلیگرام ایپ پر کہا، ’’ہم نے اپنی سفارتی کوششوں، اگلے اقدامات اور شراکت داروں سے رابطوں کو مربوط کیا ہے تاکہ مناسب ردعمل کو یقینی بنایا جا سکے۔‘‘
یوکرین کی فضائیہ کے مطابق روس نے ہفتہ کی رات سے اتوار کی صبح تک کم از کم 805 ڈرونز اور 13 میزائل داغے، جو اس جنگ کا سب سے بڑا فضائی حملہ تھا۔
روس یوکرین میں شہریوں کو نشانہ بنانے سے انکار کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس حملے میں ’’یوکرین کے فوجی و صنعتی کمپلیکس اور ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر‘‘ کو نشانہ بنایا۔
دریں اثنا برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے بھی یوکرین کے خلاف روس کے فضائی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
اسٹارمر نے ایک بیان میں کہا، ’’میں کییف اور یوکرین بھر میں رات کے وحشیانہ حملوں سے شدید صدمے میں ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’یہ بزدلانہ حملے دکھاتے ہیں کہ پوٹن سمجھتے ہیں کہ وہ بلا خوف و خطر ہر عمل کر سکتے ہیں۔ وہ امن کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔‘‘
اسرائیل غزہ میں اپنی فوجی مہم بند کرے، ڈنمارک
ڈنمارک کے وزیر خارجہ لارس لوکے راسموسن نے یروشلم میں اپنے اسرائیلی ہم منصب کے ساتھ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنی فوجی مہم بند کرنے اور ’’راستہ بدلنے‘‘ کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم انسانی (صورتحال) کے بارے میں انتہائی فکر مند ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔
راسموسن نے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ بات چیت میں اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی کہ غزہ کے زخمی باشندوں کو اسرائیلی زیر قبضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں طبی امداد فراہم کی جائے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ گیدون سعار نے کہا کہ اسرائیل کو سکیورٹی خدشات کا سامنا ہے اور سوال کیا کہ کوپن ہیگن حکومت زخمیوں کو ڈنمارک میں طبی امداد فراہم کیوں نہیں کرتی؟
حالیہ ہفتوں میں بہت سے فلسطینی غزہ شہر سے فرار ہو چکے ہیں لیکن کچھ نے جنگ شروع ہونے کے بعد سے کئی بار بے گھر ہونے کے باوجود وہاں سے نکلنے سے انکار کر دیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ہفتے کو خبردار کیا کہ غزہ سٹی کے شہری جنوب کی طرف چلے جائیں، جہاں پہلے سے لاکھوں فلسطینی ساحلی علاقوں میں خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران جنگ کو جلد ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا، نے جمعے کو کہا کہ واشنگٹن حماس کے ساتھ ’’بہت گہرے‘‘ مذاکرات میں مصروف ہے۔
دنیا کے 25 ممالک ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتے ہیں، گروسی کا انتباہ
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی نے خبردار کیا ہے کہ دنیا میں 20 سے 25 ممالک ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو سکتے ہیں۔
اطالوی روزنامے لا ریپبلیکا میں اتوار کو شائع ہونے والی ایک خصوصی رپورٹ کے مطابق گروسی نے کہا کہ آج کی دنیا میں ایک ایٹمی تنازعے کا خطرہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ گروسی نے اشارہ دیا کہ کسی وقت 20 سے 25 ممالک ایٹمی ہتھیار رکھ سکتے ہیں، حالانکہ انہوں نے اس تناظر میں وقت کا تعین نہیں کیا۔ ماہرین کے مطابق دنیا میں فی الحال نو ایٹمی طاقتیں ہیں۔
آئی اے ای اے کے سربراہ نے کہا، ’’ایٹمی ہتھیاروں کی تخفیف یا ایٹمی ہتھیاروں کے کنٹرول شدہ خاتمے کا عمل رک چکا ہے اور جو ممالک ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں، وہ مزید ہتھیار بنا رہے ہیں، جن میں چین بھی شامل ہے۔‘‘
گروسی نے کہا کہ وہ اس بات سے پریشان ہیں کہ کئی ممالک کے رہنماؤں نے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کے ارادے کا اعلان کیا ہے۔ جب ان سے ممالک کے نام پوچھے گئے تو گروسی نے کہا: ’’آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر کے طور پر میں یہ نہیں بتا سکتا۔ یہ ایشیا اور خلیج فارس کے اہم ممالک ہیں۔ 20 سے 25 ایٹمی طاقتوں والی دنیا غیر متوقع اور خطرناک ہے۔‘‘
اسٹاک ہولم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) اور انٹرنیشنل کیمپین ٹو ایبولش نیوکلیئر ویپنز (آئی سی اے این) کی رپورٹ کے مطابق نو ایٹمی طاقتوں میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان شامل ہیں یعنی امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین۔ اس کے علاوہ بھارت، پاکستان، شمالی کوریا اور اسرائیل کے پاس بھی ایٹمی ہتھیار ہیں۔
اندازاً یہ ممالک مجموعی طور پر تقریباً 12 ہزار ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں، جن میں سے تقریباً 10 سے زائد روس اور امریکہ کے پاس ہیں۔
جاپان کے وزیراعظم شیگیرو ایشیبا مستعفی ہو گئے
جاپانی وزیراعظم شیگیرو ایشیبا نے ایک سال سے بھی کم عرصے تک اپنے عہدے پر رہنے کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔
ایشیبا کو اپنی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کے اندر بڑھتی ہوئی تنقید اور مستعفی ہونے کے مطالبات کا سامنا تھا کیونکہ پارٹی نے پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت کھو دی تھی۔ اتوار کے روز انہوں نے کہا کہ وہ نئے پارٹی لیڈر کے انتخاب تک اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے رہیں گے۔
ایشیبا کے سیاسی اتحاد نے جولائی میں پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں اپنی اکثریت کھو دی تھی، جبکہ اس سے قبل اکتوبر میں زیادہ بااختیار ایوان زیریں میں بھی ان کی اکثریت ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد سے ایشیبا کا اتحاد اقلیتی حکومت کے طور پر کام کر رہا ہے۔
لندن میں فلسطین ایکشن گروپ کے حق میں مظاہرےکے دوران 400 سے زائد افراد گرفتار
لندن پولیس کے مطابق فلسطین ایکشن گروپ کے حق میں ایک مظاہرےکے دوران 400 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ فلسطین ایکشن گروپ کو برطانیہ میں دہشت گردی کے قوانین کے تحت کالعدم قرار دیا جا چکا ہے۔
ہفتے کو کئی سو افراد نے برطانیہ کی پارلیمنٹ کے سامنے مظاہرہ کیا، جن میں سے کچھ نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے، جن پر لکھا تھا: ’’میں نسل کشی کی مخالفت کرتا ہوں۔ میں فلسطین ایکشن کی حمایت کرتا ہوں۔‘‘
دارالحکومت کی میٹروپولیٹن پولیس فورس (میٹ) نے لوگوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ ممنوعہ گروپ کی واضح حمایت کرنے والے کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے میں ہچکچاہٹ نہیں کرے گی۔
میٹ نے ہفتہ کی رات دیر گئے ایک بیان میں کہا، ’’مظاہرےکے سلسلے میں 425 سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا۔ زیادہ تر افراد کو ایک ممنوعہ تنظیم کی حمایت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔‘‘
ایک برطانوی شہری پولی سمتھ نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مظاہرے میں موجود لوگ ’’دہشت گرد نہیں ہیں اور اس پابندی کو ہٹانا چاہیے۔‘‘
62 سالہ نائجل، جو ایک ری سائیکلنگ کمپنی کے سی ای او ہیں اور جنہوں نے اپنا پورا نام بتانے سے انکار کیا، نے کہا کہ جولائی میں عائد کردہ حکومتی پابندی ’’بالکل نامناسب‘‘ ہے۔ انہوں نے گرفتاری سے قبل اے ایف پی کو بتایا، ’’حکومت کو مظاہرین کو روکنے کی کوشش کرنے کے بجائے نسل کشی کو روکنے پر زیادہ وقت صرف کرنا چاہیے۔‘‘ اس دوران مظاہرین نے پولیس کے خلاف ’’شرم کرو!‘‘ کے نعرے لگائے۔
فلسطین ایکشن پر 2000ء کے دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی عائد کی گئی تھی، جس کی وجہ رائل ایئر فورس بیس سمیت دیگر مقامات پر تخریب کاری کے واقعات تھے، جن سے تقریباً سات ملین پاؤنڈ (10 ملین ڈالر) کا نقصان ہوا۔ اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور گرین پیس سمیت ناقدین نے اس پابندی کو قانونی حد سے تجاوز اور آزادی رائے کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔
ہفتہ کے مظاہرے سے قبل 800 سے زائد افراد کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا تھا، جن میں سے 138 پر اس تنظیم کی حمایت یا اس کی حوصلہ افزائی کے الزامات عائد کیے گئے۔ زیادہ تر کو چھ ماہ قید کی سزا ہو سکتی ہے لیکن مظاہروں کے منتظمین کو مجرم قرار دیے جانے پر 14 سال تک کی سزا ہو سکتی ہے۔
ہفتے کو ایک الگ پرو فلسطینی مظاہرے میں لندن کے دیگر حصوں میں تقریباً 20 ہزار افراد نے سڑکوں پر احتجاج کیا تاہم ان مظاہروں میں ’’بہت کم گرفتاریاں‘‘ ہوئیں۔
یروشلم میں دسیوں ہزار افراد کا غزہ جنگ کے خاتمے کا مطالبہ
یروشلم میں اب تک کے سب سے بڑے مظاہروں میں سے ایک میں دسیوں ہزار افراد نے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کی رہائش گاہ کے باہر جمع ہو کر غزہ میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے افراد کے خاندانوں کی نمائندگی کرنے والے فورم نے ہفتے کی شام نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر ایک مذاکراتی ٹیم بھیجیں تاکہ جنگ کے خاتمے اور تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے بات چیت کی جائے۔
فورم کے مطابق حماس کے ثالثوں کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی تجویز پر اسرائیل کی طرف سے تین ہفتوں تک کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ اس فورم نے نیتن یاہو کی حکومت سے موجودہ تجویز کو قبول کرنے اور تمام یرغمالیوں کی واپسی کے لیے معاہدے پر مذاکرات شروع کرنے کی اپیل کی۔ تجویز میں 60 روزہ جنگ بندی شامل ہے اور اس دوران ابتدائی طور پر 10 زندہ یرغمالیوں کا فلسطینی قیدیوں کے بدلے تبادلہ کیا جائے گا۔
دوسری جانب حماس نے بین الاقوامی ثالثوں کی طرف سے پیش کردہ جنگ بندی کے تجویز پر اپنے اتفاق کو دہرایا ہے۔ حماس نے ایک الگ بیان میں کہا کہ وہ ’’ایسی کسی بھی تجویز‘‘ کے لیے تیار ہے، جو مستقل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیل کی مکمل انخلا، انسانی امداد کی ترسیل اور ثالثی مذاکرات کے ذریعے یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کا باعث بنے۔
تاہم نیتن یاہو ایک جامع معاہدے پر زور دے رہے ہیں، جس میں تمام یرغمالیوں کو ایک ساتھ رہا کیا جائے۔ اسرائیلی حکام کے مطابق غزہ میں موجود 48 یرغمالیوں میں سے صرف 20 زندہ ہیں۔ نیتن یاہو حماس کے ہتھیار ڈالنے اور غیر مسلح ہونے پر بھی زور دے رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسرائیل غزہ پر سکیورٹی کنٹرول برقرار رکھے۔
اسرائیلی نشریاتی ادارے کان کے مطابق ثالثی کرنے والے ممالک امریکہ، قطر اور مصر چند دنوں میں ایک نئی تجویز پیش کرنے جا رہے ہیں، جو تمام یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے لیے معاہدے کو یقینی بنائے گی۔
روس کا یوکرین پر اب تک کا سب سے بڑا فضائی حملہ
روس نے اتوار کی صبح یوکرین پر اب تک کا سب سے بڑا فضائی حملہ کیا، جس میں کم از کم دو افراد ہلاک اور دارالحکومت کییف میں ایک اہم حکومتی عمارت کو آگ لگ گئی۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یوکرینی وزراء کی کابینہ کی عمارت کی چھت پر شعلے اور دارالحکومت کے اوپر دھوئیں کے بادل دیکھے گئے۔ یوکرینی ایمرجنسی سروسز کے مطابق ڈرون حملوں نے دارالحکومت کییف میں کئی بلند و بالا عمارتوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
روس نے یوکرین پر اپنے ساڑھے تین سالہ حملے کو روکنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا اور جنگ ختم کرنے کے لیے سخت شرائط عائد کی ہیں۔ یوکرینی کابینہ کے وزراء کی عمارت، جو کییف کے قلب میں واقع ایک وسیع حکومتی کمپلیکس ہے، پر یہ جنگ کا پہلا حملہ تھا۔
نیوز ایجنسیوں کے مطابق ہیلی کاپٹر عمارت کی چھت پر پانی گرا رہے تھے، جبکہ ایمرجنسی سروسز جائے وقوعہ پر پہنچیں۔ پولیس نے عمارت کے ارد گرد کے علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ وزیراعظم یولیا سویریدینکو نے ٹیلیگرام پر کہا، ’’دشمن کے حملے سے چھت اور بالائی منزلیں متاثر ہوئیں۔ ریسکیو اہلکار آگ بجھانے میں مصروف ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ہم عمارتوں کی بحالی کریں گے لیکن ہم کھوئی ہوئی جانیں واپس نہیں لا سکتے۔ دشمن ہر روز ہمارے لوگوں کو پورے ملک میں دہشت زدہ اور قتل کرتا ہے۔‘‘
یوکرین کی فضائیہ کے مطابق روس نے ہفتہ کی رات سے اتوار کی صبح تک کم از کم 805 ڈرونز اور 13 میزائل داغے، جو اس جنگ کا سب سے بڑا حملہ تھا۔
بحیرہ احمر میں زیر سمندر کیبلز کاٹ دی گئیں، ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں انٹرنیٹ سروس متاثر
اتوار کو بحیرہ احمر میں زیر سمندر کیبلز کاٹے جانے سے ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے کچھ حصوں میں انٹرنیٹ سروس متاثر ہوئی۔ اس واقعے کی وجہ فوری طور پر واضح نہیں ہو سکی۔ یمن کے حوثی باغیوں کی بحیرہ احمر میں مہم کے دوران کیبلز کو نشانہ بنائے جانے کے خدشات رہے ہیں تاہم حوثیوں نے ماضی میں کیبلز پر حملے کی تردید کی ہے۔
مائیکروسافٹ نے اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا کہ مشرق وسطیٰ میں ’’بحیرہ احمر میں زیر سمندر فائبر کیبلز کاٹے جانے سے انٹرنیٹ کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔‘‘ اس کمپنی نے فوری طور پر مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔
نیٹ بلاکس نامی ادارہ، جو انٹرنیٹ رسائی کی نگرانی کرتا ہے، نے کہا کہ ’’بحیرہ احمر میں زیر سمندر کیبلز کے ایک سلسلے کے نقصان سے متعدد ممالک میں انٹرنیٹ کنیکٹیویٹی متاثر ہوئی، جن میں بھارت اور پاکستان شامل ہیں۔‘‘ اس نے سعودی عرب کے شہر جدہ کے قریب SMW4 اور IMEWE کیبل سسٹمز کو متاثر ہونے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔
سعودی عرب نے اس خلل کو فوری طور پر تسلیم نہیں کیا اور وہاں کے حکام نے تبصرے کے لیے درخواست کا جواب بھی نہیں دیا۔ متحدہ عرب امارات میں کے صارفین نے انٹرنیٹ کی سست رفتار کی شکایت کی ہے۔
پاکستان کے سیلاب زدہ جنوبی پنجاب میں کشتی الٹنے سے پانچ افراد ہلاک
پاکستان کے سیلاب زدہ جنوبی پنجاب میں انخلا کے لیے جانے والی ایک کشتی کے الٹنے سے کم از کم پانچ افراد ہلاک ہو گئے۔ پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کے مطابق یہ واقعہ ہفتے کے روز پیش آیا اور ایک درجن سے زائد افراد کو بچا لیا گیا۔
ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے بتایا کہ ضلع ملتان میں تیز لہروں کی وجہ سے کشتی الٹ گئی لیکن زیادہ تر مسافروں کو بچا لیا گیا۔ اس سے قبل دن میں ریلیف کمشنر نبیل جاوید نے بتایا کہ راوی، ستلج اور چناب کے سیلاب سے 4,100 سے زائد دیہات متاثر ہوئے، جس سے 20 لاکھ سے زیادہ لوگ اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
حکام نے 423 ریلیف کیمپ، 512 طبی سہولیات اور 432 ویٹرنری پوسٹس قائم کی ہیں تاکہ لوگوں اور مویشیوں کی حفاظت کی جا سکے، جبکہ 15 لاکھ سے زائد جانوروں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ نبیل جاوید نے مزید کہا کہ سیلاب کے پانی سے کم از کم 50 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔