فرانسیسی عدالت کا فیصلہ: مسلمانوں پر دباؤ میں اضافہ یقینی
2 دسمبر 2013پیرس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق اس عدالتی فیصلے کے ساتھ ملک میں مختلف نسلی گروپوں کے باہمی تعلقات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ وہ فرانسیسی مسلم خواتین جو اپنے عقیدے کی وجہ سے اپنے سروں پر اسکارف پہنتی ہیں، پیرس کی ایک اپیل کورٹ کے نومبر کے آخر میں سنائے جانے والے فیصلے کے باعث اپنی مذہبی آزادی کو محدود ہوتا محسوس کر سکتی ہیں۔
اس فیصلے میں عدالت نے چھوٹے بچوں کی ایک پرائیویٹ نرسری کی انتظامیہ کے فیصلے کو درست قرار دیا تھا۔ اس کنڈر گارڈن کی انتظامیہ نے اپنی ایک مسلم سٹاف ممبر کو اس لیے نوکری سے نکال دیا تھا کہ اس نے کام کے دوران اپنے حجاب پہنے رکھنے پر اصرار کیا تھا۔
اس بارے میں ایک ذیلی عدالت نے اس سال مارچ میں سنایا جانے والا اپنا فیصلہ متعلقہ مسلم خاتون کے حق میں سنایا تھا۔ بعد میں اس فیصلے پر ملک میں وسیع تر سیاسی بحث شروع ہو گئی تھی۔ اب اس مقدمے میں پیرس کی اپیل کورٹ نے پہلے سنائے گئے فیصلے کو منسوخ کرتے ہوئے کہا ہے کہ کنڈرگارڈن کی طرف سے متعلقہ خاتون کی برطرفی کا فیصلہ درست تھا۔
اس مقدمے میں بنیادی سوال اس بارے میں تھا کہ فرانس میں سرکاری اسکولوں اور عوامی اداروں پر مذہبی علامات کے استعمال یا ان کی نمائش کے خلاف سخت پابندی کا قانون تو لاگو ہوتا ہے لیکن آیا اس سخت قانون کا اطلاق کسی پرائیویٹ کنڈر گارڈن پر بھی ہونا چاہیے یا نہیں۔
اس معاملے میں متعلقہ مسلمان خاتون اور اس کے سابقہ آجر نجی ادارے کے درمیان قانونی جنگ ابھی جاری رہنے کا امکان ہے لیکن ماہرین کے مطابق یہ بات اپنی جگہ پریشان کن ہے کہ اس فیصلے کی روشنی میں اب نجی شعبے کے آجرین اپنے ملازمین کو اس بات کا پابند بنا سکیں گے کہ انہیں خود کو مذہبی طور پر غیر جانبدار رہنے کے اصول پر عمل کرتے ہوئے کس طرح کا لباس پہننا چاہیے۔
فرانس میں CNRS نامی قومی تحقیقی مرکز کے ایک ماہر فرانک فیُوگوسی کا کہنا ہے کہ اپیل کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پہلے سے موجود ایک حتمی لکیر عبور کر لی گئی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اس سے پہلے مذہبی طور پر غیر جانبدار رہنے کے بنیادی قانون کا اطلاق صرف پبلک سیکٹر کے ملازمین پر ہوتا تھا۔‘‘
فرانس میں اسی مقدمے کی کارروائی کے پس منظر میں ستمبر میں ایک نیا چارٹر بھی منظور کر لیا گیا تھا، جسے ’اسکولوں میں سیکولرازم کے منشور‘ کا نام دیا گیا تھا۔ فرانسیسی مسلمانوں کی کونسل کے سربراہ دلیل بوبکر کا کہنا ہے کہ یہ چارٹر ایک ایسے وقت پر اور اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ فرانس میں رہنے والے تقریباﹰ پانچ ملین مسلمان یہ محسوس کر سکتے ہیں کہ اس منشور کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس چارٹر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اِس کا مقصد اُس بنیادی اصول کے لیے بہتر ماحول پیدا کرنا ہے کہ فرانس میں مذہب اور ریاست کو ہر حال میں ایک دوسرے سے علیحدہ رکھا جانا چاہیے۔
فرانس میں مذہب اور سکیولرازم کے بارے میں تعلیم دینے والے ایک ماہر ژاں بوبیرو Jean Bauberot کے مطابق اپیل کورٹ نے ایک پرائیویٹ نرسری کی مسلمان ملازمہ کے اسکارف پہننے سے متعلق جو فیصلہ سنایا ہے، اس نے ایک ’خطرناک قانونی مثال‘ قائم کر دی ہے۔
پیرس کی اپیل کورٹ نے جس مسلم خاتون کی ملازمت سے برطرفی کے مقدمے میں اپنا فیصلہ سنایا ہے، اس کا نام فاطمہ عفیف ہے۔ فاطمہ کو سن 2008ء میں نوکری سے نکالا گیا تھا۔ یہ قانونی تنازعہ فرانس میں طویل عرصے سے ذرائع ابلاغ کی سرخیوں کا موضوع بنا ہوا ہے۔