فرانس میں بھی ٹیلی فون اور ای میلز کی جاسوسی، اخبار کا دعویٰ
5 جولائی 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی اخبار کے اس دعوے پر حکومتی اہلکاروں نے تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے کہ فرانسیسی خفیہ ادارے ایک سپر کمپیوٹر پر کمیونیکیشن ڈیٹا محفوظ کرتے ہیں۔
حال ہی میں امریکی حکومت کی جانب سے ’’پرزم‘‘ نامی پروگرام کے منظر عام پر آنے کے بعد تمام دنیا میں حکومتوں اور خفیہ اداروں کی جانب سے ٹیلی فون اور کمپیوٹر ڈیٹا کی نگرانی کے سیاسی اور اخلاقی پہلوؤں پر مباحثے جاری ہیں۔ امریکی حکومت کو اس حوالے سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اب فرانسیسی اخبار ’’لے موند‘‘ نے ایک رپورٹ میں دعویٰ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’فرانس کے خفیہ اداروں کا ڈی جی ایس ای نظام فرانس سے خارج ہونے والے تمام الیکٹرومیگنیٹک سگنل جمع کرتا ہے، اور ساتھ ہی فرانس اور دیگر ممالک کے درمیان کمیونیکیشن ڈیٹا بھی محفوظ کر لیتا ہے۔‘‘ اخبار کا دعویٰ ہے کہ ’’ہماری تمام کمیونیکیشن کی جاسوسی ہو رہی ہے۔‘‘
دعوے کے مطابق ٹیلی فون پر کی جانے والی بات چیت، ای میلز، ایس ایم ایس، فیس بک اور ٹوئیٹر پر موجود مواد ’’کئی برسوں‘‘ تک سپر کمپیوٹر پر محفوظ رہتا ہے، جسے دیگر سکیورٹی ادارے بھی دیکھ سکتے ہیں۔
'بے بنیاد الزام‘
فرانسیسی رکن پارلیمان ژاں ژاک کا کہنا ہے کہ اخباری رپورٹ حقیقت کے بالکل قریب نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فرانسیسی عوام کی کمیونیکیشن ایک قانون کے تحت جمع کی جانے کے بعد فوراً تلف کر دی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے، ’’فرانس کے عوام قانون کے دائرے سے ہٹ کر کسی بھی جاسوسی کے پروگرام کا نشانہ نہیں بن رہے۔‘‘
خیال رہے کہ امریکا کے نگرانی کی غرض سے جاسوسی کے پروگرام کے منظر عام پر آنے کے بعد امریکی عہدیداروں نے اسے امریکی عوام کے تحفظ کے لیے ایک ضروری عمل قرار دیا تھا۔ فرانس کی جانب سے اس پروگرام پر تنقید کی گئی تھی۔ بدھ کے روز فرانس کے صدر فرانسوا اولانڈ نے دھمکی دی تھی کہ امریکا کی جانب سے یورپی یونین کے دفاتر اور سفارت خانوں کی جاسوسی کی اخباری خبروں کے درست ثابت ہونے پر فرانس امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات تک منقطع کر سکتا ہے۔