غزہ پٹی میں ہلاکتوں کی تعداد اب اٹھاون ہزار سے متجاوز
وقت اشاعت 13 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 13 جولائی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- جنگ بندی مذاکرات تعطل کا شکار
- اسرائیلی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش، غزہ کے لیے امدادی کشتی سیسلی سے روانہ
- برطانیہ میں فلسطین ایکشن پر پابندی کے خلاف مظاہروں میں 70 سے زائد افراد گرفتار
- ایرانی صدر بارہ روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی حملے میں بال بال بچ گئے
- اسرائیل کا نیا مواصلاتی سیٹلائٹ اسپیس ایکس کے ذریعے خلا میں روانہ
- اسرائیلی فضائی حملوں میں کم ازکم ستائیس فلسطینی ہلاکا
- ایران کی جوہری مذاکرات کی بحالی کے لیے امریکی حملوں کے خاتمے کی شرط
غزہ پٹی میں ہلاکتوں کی تعداد اب اٹھاون ہزار سے متجاوز
غزہ میں حکام کے مطابق اتوار کے روز کیے گئے تازہ اسرائیلی حملوں میں آٹھ بچوں سمیت کم از کم 43 افراد مارے گئے۔
غزہ میں حکام کے مطابق اتوار کے روز کیے گئے تازہ اسرائیلی حملوں میں آٹھ بچوں سمیت کم از کم 43 افراد مارے گئے۔ دوسری جانب جنگ بندی کے لیے قطر میں منعقدہ مذکرات بدستور تعطل کا شکار ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ آج تیرہ جولائی بروز اتوار اس ساحلی پٹی میں گزشتہ اکیس ماہ سے جاری اسرائیلی حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد اب اٹھاون ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس سے قبل اتوار کے روز ہی
غزہ میں سول ڈیفنس ایجنسی کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں 43 فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں ایک مارکیٹ اور پانی کی تقسیم کے ایک مرکز پر کیے گئے حملوں کے متاثرین بھی شامل ہیں۔
سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود باسل کے مطابق تازہ اسرائیلی حملوں میں کم از کم 43 افراد میں سے 11 افراد غزہ سٹی کی ایک مارکیٹ پر حملے میں مارے گئے۔ ترجمان کے مطابق نصیرات مہاجر کیمپ میں پینے کے پانی کے مرکز پر ڈرون حملے میں 10 افراد ہلاک ہوئے، جن میں آٹھ بچے شامل تھے۔
نصیرات میں ہی ایک اور عمارت پر حملے کے بعد مقامی رہائشی خالد ریان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’ہم دو زور دار دھماکوں کی آواز سے جاگے۔ ہمارا پڑوسی اور اس کے بچے ملبے تلے دبے ہوئے تھے۔‘‘
ایک اور رہائشی محمود الشامی نے فریقین سے مطالبہ کیا کہ وہ جنگ کے خاتمے کے لیے کوئی راستہ نکالیں۔ ’’ہمارے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ تاریخ انسانیت میں کبھی نہیں ہوا۔ بس بہت ہو چکا۔‘‘
جنوبی غزہ میں المواصی میں بے گھر فلسطینیوں کے خیمے پر کیے گئے فضائی حملے میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی فوج نے ان حملوں پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فضائیہ نے غزہ بھر میں’’150 سے زائد دہشت گردی کے اہداف‘‘ کو نشانہ بنایا، جن میں جنگجو، اسلحہ ذخیرہ کرنے کے مقامات، اینٹی ٹینک اور اسنائپر پوزیشنز شامل تھیں۔
غزہ میں میڈیا پر پابندیوں اور کئی علاقوں تک رسائی نہ ہونے کے باعث اے ایف پی آزادانہ طور پر جانی نقصان اور دیگر تفصیلات کی تصدیق نہیں کر سکا۔
یہ جنگ سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد شروع ہوئی تھی، جس میں 1,219 افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس دن یرغمال بنائے گئے 251 افراد میں سے 49 تاحال غزہ میں موجود ہیں، جن میں 27 کے بارے میں اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک کم از کم 58,026 فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔ اقوام متحدہ ان اعداد و شمار کو قابلِ اعتماد قرار دیتی ہے۔
جنگ بندی مذاکرات تعطل کا شکار
ادھر اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے جاری مذاکرات کسی پیش رفت کے بغیر تعطل کا شکار ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی نمائندہ ٹیمیں ایک ہفتے سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں 21 ماہ سے جاری جنگ کو عارضی طور پر روکنے کے لیے مذاکرات کر رہی ہیں، تاہم ہفتے کے روز دونوں فریقوں نے ایک دوسرے پر معاہدہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا۔
حماس غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا کا مطالبہ کر رہی ہے جبکہ ایک فلسطینی ذرائع کے مطابق اسرائیل نے ایسی تجویز دی ہے جس کے تحت وہ غزہ کے 40 فیصد سے زائد علاقے میں اپنی افواج تعینات رکھے گا۔
ذرائع نے الزام عائد کیا کہ اسرائیل لاکھوں فلسطینیوں کو جنوبی غزہ میں دھکیل کر بعد میں مصر یا دیگر ممالک میں زبردستی منتقل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ اسرائیل نے مذاکرات میں ’’لچکدار رویہ‘‘ اپنایا ہے، مگر حماس اپنی سخت پوزیشن پر قائم ہے، جو معاہدے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے عندیہ دیا ہے کہ اگر عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہو جائے تو وہ دیرپا امن کے لیے بات چیت پر آمادہ ہیں، لیکن شرط یہ رکھی ہے کہ حماس اپنے ہتھیار ڈالے۔
اسرائیلی ناکہ بندی توڑنے کی کوشش، غزہ کے لیے امدادی کشتی سیسلی سے روانہ
غزہ کے لیے امداد اور فلسطین کے حامی کارکنوں کو لے جانے والی ایک کشتی اتوار کے روز اٹلی کے جزیرے سیسلی سے روانہ ہو گئی۔ اس کشتی کی روانگی اس امدادی کشتی کی غزہ میں داخلے کی کوششوں کے ایک ماہ بعد ہوئی ہے، جس کے عملے کو اسرائیلی فوج نے روک کر واپس بھیج دیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق ’’ہندالہ‘‘ نامی یہ کشتی، جسے فریڈم فلوٹیلا کولیشن چلا رہی ہے، سیراکیوز کی بندرگاہ سے مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے روانہ ہوئی۔ کشتی میں تقریباً 15 کارکن سوار ہیں۔
بندرگاہ پر درجنوں افراد نے فلسطینی جھنڈے لہراتے اور کفیہ پہنے مظاہرہ کیا اور ’’فری فلسطین‘‘ کے نعرے لگا کر کشتی کی روانگی کا خیرمقدم کیا۔
یہ سابق نارویجن ماہی گیری کشتی طبی امداد، خوراک، بچوں کے لیے سامان اور ادویات سے لدی ہوئی ہے، اور تقریباً 1,800 کلومیٹر (1,120 میل) کا سفر طے کرتے ہوئے بحیرہ روم کے ذریعے ایک ہفتے میں غزہ کے ساحل تک پہنچنے کی امید رکھتی ہے۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے مارچ کے اوائل میں غزہ پر مکمل امدادی ناکہ بندی عائد کر دی تھی، جس میں صرف مئی کے آخر میں جزوی طور پر نرمی کی گئی۔ کشتی اپنا اگلا پڑاؤ جنوب مشرقی اٹلی کے شہر گلیپولی میں کرے گی، جہاں فرانس کی بائیں بازو کی جماعت فرانس اَنباؤڈ کے دو ارکان کشتی میں شامل ہوں گے۔
یہ اقدام اس سے چھے ہفتے بعد سامنے آیا ہے جب مدلین نامی ایک اور امدادی کشتی اٹلی سے روانہ ہوئی تھی، جس میں ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ سمیت کئی دیگر افراد سوار تھے۔ اسرائیلی حکام نے اُس کشتی کو غزہ کے ساحل سے تقریباً 185 کلومیٹر مغرب میں روک لیا تھا۔
فرانس اَنباؤڈ کی رکن گیبریل کتھالا، جو 18 جولائی کو کشتی میں سوار ہوں گی، کا کہنا تھا، ’’یہ مشن غزہ کے بچوں کے لیے ہے، تاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھیجی جانے والی امداد کی ناکہ بندی اور نسل کشی پر چھائی ہوئی خاموشی کو توڑا جا سکے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’میں امید کرتی ہوں کہ ہم غزہ تک پہنچیں گے، اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو یہ ایک اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔‘‘
برطانیہ میں فلسطین ایکشن پر پابندی کے خلاف مظاہروں میں 70 سے زائد افراد گرفتار
برطانوی حکومت کی جانب سے "فلسطین ایکشن" گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے خلاف ہفتے کے روز ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے دوران 70 سے زائد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس گروپ پر پابندی حالیہ دنوں میں ایک رائل ایئر فورس کے اڈے پر دراندازی اور توڑ پھوڑ کے واقعے کے بعد عائد کی گئی تھی۔
لندن میں میٹروپولیٹن پولیس نے بتایا کہ ہفتے کی شام تک 42 افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں سے زیادہ تر پر کسی ممنوعہ تنظیم کی حمایت کا الزام ہے۔ اس میں نعرے لگانا، مخصوص لباس پہننا یا جھنڈے، بینرز اور لوگوز جیسے نشانات دکھانا شامل ہے۔ ایک فرد کو عام حملے کے الزام میں بھی گرفتار کیا گیا۔
گریٹر مانچسٹر پولیس کے مطابق مانچسٹر میں مزید 16 افراد کو حراست میں لیا گیا، جبکہ ساؤتھ ویلز پولیس نے کارڈف میں 13 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی۔
لندن میں مسلسل دوسرے ہفتے مظاہرین نے فلسطین ایکشن کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔ اس گروپ پر پابندی کے بعد اس کی حمایت کرنا بھی فوجداری جرم بن چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسی نوعیت کے مظاہرے میں 29 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔
برطانوی حکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں "فلسطین ایکشن" کو انسداد دہشت گردی ایکٹ 2000 کے تحت ممنوعہ تنظیم قرار دیا۔ اب اس گروپ کی رکنیت یا اس کی حمایت میں کسی بھی قسم کی سرگرمی میں ملوث ہونا قابل سزا جرم ہے، جس کی سزا 14 سال تک قید ہو سکتی ہے۔
اس قانون کے تحت پہلے ہی 81 تنظیموں پر پابندی عائد ہے، جن میں عسکریت پسند گروپ حماس اور القاعدہ بھی شامل ہیں۔
ایرانی صدر بارہ روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی حملے میں بال بال بچ گئے
ایرانی صدر مسعود پزشکیان اسرائیل کے ساتھ حالیہ 12 روزہ جنگ کے دوران ایک فضائی حملے میں بال بال بچ گئے۔ یہ انکشاف ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس نے اپنی ایک رپورٹ میں کیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے 16 جون کو تہران میں واقع قومی سلامتی کونسل کے ایک کمپلیکس کو نشانہ بنایا، یہ حملہ جنگ کے آغاز کے تین روز بعد کیا گیا تھا۔ حملے کے بعد عمارت میں بجلی منقطع ہو گئی اور بحران سے متعلق ایک ہنگامی اجلاس کے شرکاء کو بمشکل محفوظ مقام تک پہنچایا گیا۔
تاہم فارس کے مطابق، کچھ افراد زخمی ہوئے جن میں صدر پزشکیان بھی شامل ہیں، جنہیں ٹانگوں پر چوٹیں آئیں۔
ایرانی صدر نے گزشتہ ہفتے امریکی میزبان ٹکر کارلسن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں اس حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے اسے ممکنہ ’’انٹیلی جنس لیک‘‘ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔ فارس نے مزید کہا ہے کہ حملے کے پیچھے کسی ایجنٹ کی دراندازی کے امکانات پر بھی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔
ادھر ایرانی میڈیا میں ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے، جس میں تہران کے مغرب میں پہاڑی علاقے پر بمباری کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔
واضح رہے کہ اسرائیل نے 13 جون کو ایران بھر میں حملے شروع کیے، جن میں جوہری تنصیبات، سینیئر سائنسدانوں اور فوجی کمانڈروں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ جواباً ایران کی مسلح افواج نے بھی میزائل حملے کیے۔ دونوں ممالک میں جانی نقصان ہوا۔
جنگ شروع ہونے کے ایک ہفتے بعد، امریکہ نے مداخلت کرتے ہوئے ایران کی تین اہم ترین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس کے بعد 12 دنوں کی شدید جھڑپوں کے بعد غیر متوقع طور پر جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔
تاہم ایران میں اب بھی مستقبل میں ممکنہ حملوں کے خدشات اور سکیورٹی کے حوالے سے تشویش پائی جاتی ہے۔
اسرائیل کا نیا مواصلاتی سیٹلائٹ اسپیس ایکس کے ذریعے خلا میں روانہ
اسرائیل نے اتوار کے روز امریکہ سے اسپیس ایکس کے راکٹ کے ذریعے اپنا نیا قومی مواصلاتی سیٹلائٹ "درور ون" خلا میں بھیج دیا، جس کی تصدیق اسرائیل ایرو اسپیس انڈسٹریز (IAI) اور وزارت خارجہ نے کی ہے۔
یہ سیٹلائٹ فلوریڈا کے کیپ کینیورل سے فالکن 9 راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجا گیا۔ وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ’’یہ 20 کروڑ ڈالر مالیت کا 'خلائی اسمارٹ فون' آئندہ 15 سال تک اسرائیل کی اسٹریٹجک اور سول مواصلاتی ضروریات پوری کرے گا۔‘‘
اس پوسٹ کے ساتھ جاری کردہ ویڈیو میں دو مرحلوں پر مشتمل قابلِ واپسی راکٹ کو رات کے وقت آسمان کی جانب بلند ہوتے دیکھا جا سکتا ہے۔ IAI نے اسے ’’اسرائیلی خلائی ٹیکنالوجی کے لیے ایک تاریخی اقدام‘‘ قرار دیا اور بتایا کہ ’’درور ون‘‘ اسرائیل میں تیار کردہ اب تک کا سب سے جدید مواصلاتی سیٹلائٹ ہے۔
یاد رہے کہ ستمبر 2016 میں فلوریڈا میں فالکن 9 راکٹ ایک آزمائشی مرحلے کے دوران دھماکے سے تباہ ہو گیا تھا، جس کے نتیجے میں اسرائیل کا 20 سے 30 کروڑ ڈالر مالیت کا ’’ایموس-6‘‘سیٹلائٹ بھی ضائع ہو گیا تھا۔
ایران کی جوہری مذاکرات کی بحالی کے لیے امریکی حملوں کے خاتمے کی شرط
ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کہا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر مذاکرات کی بحالی قبول کر لے گا، اگر اس بات کی یقین دہانی کرائی جائے کہ اس پر مزید حملے نہیں کیے جائیں گے۔
ایرانی سرکاری میڈیا کے مطابق عراقچی نے تہران میں ہفتے کے روز غیر ملکی سفارت کاروں سے خطاب میں کہا کہ ایران ہمیشہ سے اپنے نیوکلیئر پروگرام کے حوالے سے مذاکرات کے لیے تیار رہا ہے اور آئندہ بھی تیار رہے گا، لیکن ’’یہ یقین دہانی ہونا ضروری ہے کہ مذاکرات کی بحالی کا عمل جنگ کی طرف نہ لے جائے۔‘‘
انہوں نے اسرائیل کے 12 روزہ حملوں اور 22 جون کو امریکہ کی جانب سے کیے گئے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ اور دیگر ممالک ایران کے ساتھ مذاکرات دوبارہ شروع کرنا چاہتے ہیں تو ’’سب سے پہلے اس بات کی سخت گارنٹی ہونی چاہیے کہ ایسے حملے دوبارہ نہیں ہوں گے۔ ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں نے مذاکرات کی بنیاد پر حل تلاش کرنا اور بھی زیادہ پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ ان حملوں کے بعد ایران نے اقوام متحدہ کے نیوکلیئر نگرانی ادارے آئی اے ای اے کے ساتھ تعاون معطل کر دیا تھا، جس کے باعث اس ایجنسی کے معائنہ کار تہران سے چلے گئے تھے۔
اسرائیلی فضائی حملوں میں کم ازکم ستائیس فلسطینی ہلاک
غزہ میں حماس کے زیر انتظام سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق اتوار کو اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 27 فلسطینی ہلاک ہوئے، جن میں سے چھ افراد ایک پانی کی تقسیم کے ایک مرکز کے قریب مارے گئے۔
سول ڈیفنس کے ترجمان محمود باسل نے اے ایف پی کو بتایا کہ غزہ سٹی پر رات بھر اور صبح کے اوائل میں متعدد فضائی حملے کیے گئے، جن میں بچوں اور خواتین سمیت آٹھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔
ترجمان کے مطابق غزہ سٹی کے جنوب میں واقع نصیرات مہاجر کیمپ کے قریب ایک گھر پر بمباری کے نتیجے میں ’’10 افراد شہید اور متعدد زخمی‘‘ہوئے۔
ایک اور حملہ ’’نصیرات کیمپ کے مغرب میں بے گھر افراد کے لیے قائم علاقے میں پینے کے پانی کی تقسیم کے مقام‘‘ کو نشانہ بناتے ہوئے کیا گیا، جہاں ’’چھ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔‘‘
جنوبی علاقے الساحلی المواصی میں بھی ایک خیمے پر اسرائیلی فضائی حملے میں تین افراد ہلاک ہوئے، جہاں بے گھر فلسطینی پناہ لیے ہوئے تھے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری طور پر ان حملوں پر کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا، تاہم فوج نے حالیہ دنوں میں غزہ بھر میں اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ یہ جنگ اکتوبر 2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملے بعد شروع ہوئی تھی اور اب اکیسویں ماہ میں داخل ہو چکی ہے۔
غزہ کی 20 لاکھ سے زائد آبادی کا بڑا حصہ اس جنگ کے دوران کئی بار بے گھر ہو چکا ہے، جس سے علاقے میں شدید انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے۔