غزہ پٹی میں امداد کے متلاشی مزید کم از کم 23 فلسطینی ہلاک
وقت اشاعت 3 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 3 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- حماس کی جاری کردہ ویڈیو: اسرائیلی یرغمالی اپنی قبر کھودنے پر مجبور
- کئی ماہ بعد پہلی بار ایندھن سے بھرے دو ٹرک غزہ پٹی میں داخل
- اسرائیل کی طرف سے خطرہ تاحال باقی، ایرانی ملٹری چیف
- سعودی عرب میں آٹھ افراد کے سر قلم کر دیے گئے
- دو جرمن شہروں کی غزہ اور اسرائیل کے بچوں کے لیے مدد کی پیشکش
- یوکرینی ڈرون حملوں کے بعد سوچی کے نواح میں آئل ڈپو میں وسیع تر آگ
- ویٹیکن میں جوبلی آف یوتھ کا اختتام، لاکھوں کیتھولک مسیحیوں کی شرکت
- غزہ پٹی میں امداد کے متلاشی مزید کم از کم 23 فلسطینی ہلاک
غزہ پٹی میں امداد کے متلاشی مزید کم از کم 23 فلسطینی ہلاک
جنگ زدہ غزہ پٹی میں دیر البلح سے ملنے والی مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق عین شاہدین نے بتایا کہ یہ تازہ ترین فلسطینی ہلاکتیں اس وقت ہوئیں، جب بھوک اور غذائیت کی کمی کا شکار انسانوں کے ہجوم اس فلسطینی علاقے میں ان مراکز کے پاس جمع تھے، جہاں امداد تقسیم کی جاتی ہے، لیکن اس جدوجہد کے دوران انہیں فائرنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی طرف سے جنوبی اسرائیل میں ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد سات اکتوبر 2023ء کو شروع ہونے والی غزہ کی جنگ کو اب تقریباﹰ دو سال ہونے کو ہیں۔ اس دوران غزہ پٹی کے دو ملین سے زائد شہریوں کو خوراک اور امدادی سامان کی شدید قلت کا سامنا ہے اور اس تنگ ساحلی پٹی میں شدید بھوک اور قحط جیسے حالات بحرانی صورت اختیار کر چکے ہیں۔
اس پس منظر میں عام فلسطینی شہری، جن کے پاس اپنے بچوں کو کھلانے کے لیے کچھ نہیں، بڑھتی ہوئی ناامیدی کا سامنا کر رہے ہیں اور اسی لیے وہ بہت بڑی تعداد میں امداد کی تقسیم کے مراکز کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں۔
جی ایچ ایف کے امداد کی تقسیم کے مراکز
غزہ پٹی میں ہسپتالوں کے ذرائع کے مطابق آج ہونے والی 23 ہلاکتیں خان یونس، رفح اور دیگر علاقوں میں ایسے مقامات پر ہوئیں، جہاں امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ لیکن اب تک کافی متنازعہ ہو چکی امدادی تنظیم غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کی طرف سے امداد تقسیم کی جاتی ہے۔
اس تنظیم کے امداد کی تقسیم کے مراکز زیادہ تر غزہ کے ایسے حصوں میں قائم ہیں، جنہیں اسرائیلی فوج نے اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے اور جو ملٹری زون کہلاتے ہیں۔ اسی لیے ان علاقوں تک امدا دکے حصول کے لیے پہنچنے کی خاطر جب فلسطینی وہاں سے گزرتے ہیں، یا بڑی تعداد میں وہاں جمع ہوتے ہیں، تو انہیں اسرائیلی فورسز کی طرف سے فائرنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ پٹی میں اس سال 27 مئی سے لے کر 31 جولائی تک جی ایچ ایف کے امداد کی تقسیم کے مراکز پر یا ان کے قریب اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے 859 فلسطینی ہلاک ہو چکے تھے۔
سات اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل میں دہشت گردانہ حملے میں 1200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس حملے کے دوران تقریباﹰ 250 افراد کو یرغمال بھی بنا لیا گیا تھا، جن میں سے 49 اب بھی غزہ میں حماس کی قید میں ہیں، اور اسرائیلی فوج کے مطابق ان میں سے 27 ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس کے حملے کے فوری بعد شروع ہونے والی غزہ کی جنگ میں غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق اب تک 60 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں بڑی اکثریت خواتین، بچوں اور عام شہریوں کی تھی۔
ویٹیکن میں جوبلی آف یوتھ کا اختتام، لاکھوں کیتھولک مسیحیوں کی شرکت
روم میں کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ لیو چہاردہم نے اتوار تین اگست کے روز ایک ہفتے تک جاری رہنے والی کیتھولک نوجوانون کی ’جوبلی آف یوتھ‘ نامی تقریبات کے اختتامی اجتماع میں حتمی دعائیہ تقریب کی قیادت کی۔
ویٹیکن کے ذرائع کے مطابق اس اختتامی اجتماع میں دنیا بھر سے آئے ہوئے تقریباﹰ ایک ملین نوجوان مسیحی زائرین نے شرکت کی۔
ایک ہفتے تک ویٹیکن کے زیر اہتمام جاری رہنے والی ’جوبلی آف یوتھ‘ مقدس قرار دیے جانے والے ’جوبلی ہولی ایئر‘ کا نقطہ عروج تھا، جس کے لاکھوں شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے پوپ لیو چہاردہم نے حاضرین سے کہا، ’’آپ جہاں کہیں بھی ہیں، یا جہاں کہیں بھی ہوں، تقدیس کے نام پر عظیم کام کرنے کا ارادہ اور کوششیں کریں۔ اس عمل کے دوران آپ کو محض تھوڑے پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
اس کئی روزہ اجتماع کی خاص بات یہ تھی کہ اس دوران اطالوی دارالحکومت روم میں تقریباﹰ پانچ لاکھ تک کیتھولک مسیحی نوجوان مقیم تھے۔ روم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق کل ہفتے کی رات اس اجتماع میں شریک مسیحی نوجوانوں کی تعداد تقریباﹰ آٹھ لاکھ ہو گئی تھی، جو آج اتوار کو اختتامی دعائیہ تقریب کے وقت مزید اضافے کے ساتھ ایک ملین ہو گئی تھی۔
جوبلی آف یوتھ کی اختتامی دعائیہ تقریب سے قبل ان لاکھوں کیتھولک نوجوانوں کی اکثریت نے گزشتہ رات روم شہر اور ویٹیکن سٹی کے مختلف حصوں میں کھلے آسمان کے نیچے خیموں میں یا چٹائیوں پر سو کر گزاری۔
یوکرینی ڈرون حملوں کے بعد سوچی کے نواح میں آئل ڈپو میں وسیع تر آگ
یوکرین کی طرف سے روس میں بحیرہ اسود کے ساحل پر واقع سیاحتی شہر سوچی کے نواح میں ڈرونز کے ساتھ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب کیے جانے والے حملوں کے نتیجے میں تیل کے ایک بہت بڑے ڈپو میں آگ لگ گئی، جسے بجھانے کے لیے رات بھر تقریباﹰ 120 فائر فائٹرز کوششیں کرتے رہے۔
اس روسی آئل ڈپو میں لگنے والی آگ کی خود روسی حکام نے بھی تصدیق کر دی ہے، جس دوران اتوار تین اگست کے روز دونوں حریف ممالک کے حکام کی طرف سے یہ بھی کہا گیا کہ انہوں نے ایک دوسرے کے عسکری اہداف پر حملے گزشتہ رات اور آج دن کے دوران بھی جاری رکھے۔
روسی خطے کراسنودار کے گورنر نے بتایا کہ سوچی کے قریب اس آئل ڈپو کو آگ وہاں گرنے والے دو یوکرینی جنگی ڈرونز کے ملبوں کی وجہ سے لگی، جو ایک فیول ٹینک کے اوپر گرے تھے۔ اس آتش زدگی کے بعد سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصویریوں میں دیکھا جا سکتا تھا کہ کس طرح مذکوراہ آئل ڈپو کے اوپر دھوئیں کے گہرے سیاہ بادل آسمان کی طرف اٹھ رہے تھے۔
اس آئل ڈپو میں لگنے والی آگ کے باعث روس کی شہری ہوا بازی کی وزرات نے قریبی شہر سوچی کو جانے اور وہاں سے روانہ ہونے والی تمام مسافر پروازیں روک دیں۔
رات بھر ایک دوسرے پر فضائی حملے
روسی وزارت دفاع نے بتایا کہ ماسکو کی مسلح افواج اور اس کے دفاعی نظام نے بحیرہ اسود کی فضا میں ہفتے کی رات اور اتوار کی صبح مجموعی طور پر 93 یوکرینی جنگی ڈرونز فضا میں ہی تباہ کر دیے۔
ان حملوں کے جواب میں روس نے بھی یوکرین کے مختلف حصوں کو میزائلوں اور ڈرون حملوں سے نشانہ بنایا۔ ان میں سے ایک میزائل جنوبی یوکرینی شہر میکولائیف میں ایک رہائشی علاقے میں گرا، جس کے نتیجے میں مقامی ایمرجنسی سروسز کے مطابق کم از کم سات افراد زخمی ہو گئے۔
کییف میں یوکرینی فضائیہ نے بتایا کہ روسی افواج نے صرف اتوار کے روز ہی یوکرین پر 76 جنگی ڈرونز اور کم از کم سات میزائلوں کے ساتھ حملے کیے۔ ان میں سے 16 ڈرونز اور چھ میزائل یوکرین میں آٹھ مختلف مقامات پر اپنے اہداف پر گرے، جن سے کافی مادی نقصان ہوا جبکہ باقی ماندہ روسی ڈرونز اور ایک میزائل کو فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا۔
اسی دوران یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ کییف اور ماسکو کے مابین جنگی قیدیوں کا ایک نیا تبادلہ ہونے کو ہے۔ صدر زیلنسکی نے لکھا کہ اس تبادلے کے تحت دونوں جنگی حریف آپس میں کُل 1200 قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔ یوکرینی جنگ اب تک اطراف کے ہزارہا فوجیوں اور عام شہریوں کی موت کی وجہ بن چکی ہے۔
یوکرینی صدر نے کہا کہ اس تبادلے کے لیے قیدیوں کے ناموں کی فہرستوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔ ماسکو نے تاہم یوکرین کے ساتھ قیدیوں کے عنقریب کسی نئے تبادلے کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔
دو جرمن شہروں کی غزہ اور اسرائیل کے بچوں کے لیے مدد کی پیشکش
جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے دارالحکومت ڈسلڈورف کی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ وہ غزہ پٹی اور اسرائیل سے انتہائی ضرورت مند بچوں کو اپنے ہاں علاج معالجے اور دیکھ بھال کی سہولتیں فراہم کرنے کی تیاریوں میں ہے۔
یہ پیشکش خاص طور پر ایسے بچوں کے لیے ہے، جو غزہ پٹی کی جنگ اور اسرائیلی فلسطینی تنازعے کے وجہ سے خاص طور پر خطرات کا شکار ہیں یا جنہیں انتہائی حد تک ذہنی صدمے یا ٹراما کا سامنا ہے۔ جرمن شہر ڈسلڈورف کی طرف سے یہ پیشکش شمالی جرمنی کے شہر اور صوبے لوئر سیکسنی کے دارالحکومت ہینوور کی طرف سے کی جانے والی ایسی ہی ایک پیشکش کے بعد کی گئی ہے۔
ڈسلڈورف کے میئر اشٹیفان کیلر نے کہا ہے کہ ڈسلڈورف شہر کی انتظامیہ ہینوور کی طرف سے کی جانے والی پیشکش کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور وفاقی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کا دارالحکومت بھی اپنے طور پر ’’پورے عزم کے ساتھ اور انسان دوستی کے رشتے سے‘‘ غزہ پٹی اور اسرائیل کے انتہائی برے حالات کا سامنا کرنے والے بچوں کی مدد کی تیاریاں کر رہا ہے۔
شہر ڈسلڈورف کی طرف سے کیے جانے والے اعلان سے قبل جرمن شہر ہینوور کے مئیر بیلت اونے نے گزشتہ جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ اس شہر کی انتظامیہ غزہ پٹی اور اسرائیل سے آنے والے 20 بچوں کی طبی، جسمانی اور نفسیاتی دیکھ بھال کرے گی اور مستقبل قریب میں اس منصوبے میں توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔
ڈسلڈورف کی انتظامیہ اپنے اعلان کردہ منصوبے پر اس شہر کی مسلمان اور یہودی برادریوں کے تعاون سے عمل درآمد کرنا چاہتی ہے۔
سعودی عرب میں آٹھ افراد کے سر قلم کر دیے گئے
سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق خلیج کی اس قدامت پسند بادشاہت میں ایک ہی دن میں موت کی سزا پانے والے آٹھ مجرموں کے سر قلم کر دیے گئے۔
سعودی عرب میں گزشتہ چند ہفتوں کے دوران مختلف جرائم، خاص طور پر منشیات کی اسمگلنگ سے متعلقہ جرائم میں مجرموں کو سنائی جانے والی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد میں کافی تیزی آ چکی ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے سعودی پریس ایجنسی (ایس پی اے) نے اتوار تین اگست کے روز بتایا کہ ان آٹھ مجرموں کو سزائے موت ملک کے جنوبی علاقے نجران میں کل ہفتے کے روز دی گئی۔ جن مجرموں کے سر قلم کر دیے گئے، ان میں سے چار صومالیہ کے شہری تھے اور تین کا تعلق ایتھوپیا سے تھا جبکہ آٹھواں اور آخری مجرم ایک سعودی شہری تھا، جس کے خلاف اپنی والدہ کو قتل کرنے کا الزام ثابت ہو گیا تھا۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے جمع کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال رواں کے آغاز سے اب تک سعودی عرب میں 230 افراد کو سنائی گئی موت کی سزاؤں پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے۔ ان میں سے 154 افراد کو یہ سزائیں منشیات کی اسمگلنگ یا تجارت سے جڑے جرائم کی وجہ سے سنائی گئیں۔
گزشتہ برس سعودی عرب میں کُل 338 مجرموں کو سزائے موت دی گئی تھی۔ اس سال اگست کے اوائل تک ہی ایسی سزاؤں پر عمل درآمد کی تعداد اب 230 ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ سال رواں کے آخر تک یہ سالانہ تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں تقریباﹰ یقینی طور پر زیادہ ہو جائے گی۔
اسرائیل کی طرف سے خطرہ تاحال باقی، ایرانی ملٹری چیف
ایرانی مسلح افواج کے سربراہ امیر حاتمی نے کہا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے ایران کو لاحق عسکری خطرہ تاحال باقی ہے اور وہ ابھی ختم نہیں ہوا۔
ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملکی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف امیر حاتمی نے اتوار تین اگست کے روز کہا کہ ایران کو اسرائیل کی وجہ سے لاحق خطرہ اگر صرف ایک فیصد بھی ہو، تو بھی اسے 100 فیصد ہی سمجھا جانا چاہیے۔
جون میں ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روز تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران پہلے اسرائیل نے، اور پھر اس کے بعد امریکہ نے بھی ایرانی جوہری تنصیبات کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا تھا، جن کے بعد ایران نے بھی اسرائیل پر میزائلوں اور ڈرونز کے ساتھ حملوں کی صورت میں اسرائیلی اور امریکی کارروائیوں کا جواب دیا تھا۔
سرکاری نیوز ایجنسی اِرنا کے مطابق ایرانی ملٹری کے سربراہ حاتمی نے اس حوالے سے کہا، ’’(اسرائیل کی طرف سے) ایک فیصد خطرے کو بھی لازمی طور پر 100 فیصد خطرہ سمجھا جانا چاہیے اور ہم کوئی غلط اندازہ لگا کر یہ کہنے یا سوچنے کے متحمل نہیں ہو سکتے کہ ہمیں (دشمن کی طرف سے) لاحق خطرہ ٹل گیا ہے۔‘‘
ساتھ ہی امیر حاتمی نے مزید کہا کہ ایرانی میزائل اور ڈرونز پاور پوری طرح مستعد اور کسی بھی آپریشن کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے کہ جون میں ہونے والی 12 روزہ جنگ کے بعد اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے گزشتہ ماہ ایک بار پھر تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر اسرائیل کو دوبارہ کوئی خطرہ محسوس ہوا، تو وہ ایک بار پھر ایران کے خلاف مسلح کارروائی کر سکتا ہے۔
کئی ماہ بعد پہلی بار ایندھن سے بھرے دو ٹرک غزہ پٹی میں داخل
جنگ زدہ غزہ پٹی میں، جہاں لاکھوں عام فلسطینیوں کو اشیائے خوراک اور روزمرہ کی ضروریات کے لیے ناگزیر سامان کی شدید قلت کا سامنا ہے، کئی ماہ کے وقفے کے بعد پہلی مرتبہ ایندھن سے بھرے دو ٹرک اس محاصرہ شدہ فلسطینی علاقے میں داخل ہو گئے ہیں۔
مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے اتوار تین اگست کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق مصری ریاست سے وابستہ نشریاتی ادارے القاہرہ نیوز ٹی وی نے آج بتایا کہ دو ایسے آئل ٹینکر غزہ پٹی میں داخل ہو گئے ہیں، جن پر ایندھن لدا ہوا ہے۔
اسرائیل کی طرف سے غزہ پٹی کو امدادی اشیاء اور دیگر ضروریات زندگی کی ترسیل مکمل طور پر روک دیے جانے کے کئی ماہ بعد یہ پہلا موقع ہے کہ اس تنگ ساحلی پٹی میں دو ٹرک وہ ایندھن لے کر پہنچے ہیں، جس کی وہاں خاص طور پر ہسپتالوں کو اشد ضرورت ہے۔ القاہرہ نیوز ٹی وی کے مطابق ان دو ٹرکوں پر 107 ٹن ڈیزل لدا ہوا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں غزہ پٹی کی وزارت صحت کی طرف سے کئی مرتبہ کہا جا چکا ہے کہ اسے اس تباہ شدہ فلسطینی علاقے میں تاحال فعال اور چند گنے چنے ہسپتالوں کو بھی کام کے قابل رکھنے کے لیے ایندھن کی اشد ضرورت ہے۔ وزارت صحت کے مطابق ایندھن کی کمی سے غزہ پٹی کے ان بچے کھچے ہسپتالوں کی کارکردگی میں شدید مشکلات پیدا ہو رہی تھیں۔
اسرائیل کی فوج یا دیگر ذرائع سے اس بات کی آزدانہ طور پر تصدیق نہیں ہو سکی کہ طویل عرصے بعد پہلی مرتبہ دو آئل ٹینکر ایندھن لے کر غزہ پٹی میں داخل ہو گئے ہیں۔
حماس کی جاری کردہ ویڈیو: اسرائیلی یرغمالی اپنی قبر کھودنے پر مجبور
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے ایک انتہائی لاغر اسرائیلی یرغمالی کی ویڈیو جاری کی ہے، جس میں اسے بظاہر اپنی قبر کھودنے پر مجبور دکھایا گیا ہے۔ یہ اسرائیلی ان یرغمالیوں میں سے ایک ہے، جو ابھی تک حماس کی قید میں ہیں۔
تل ابیب سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کی جاری کردہ اس ویڈیو کا دورانیہ تقریباﹰ پانچ منٹ ہے اور اس میں 24 سالہ ایویاتار ڈیوڈ کو غزہ پٹی میں کسی جگہ ایک بہت تنگ زیر زمین سرنگ میں بیٹھا دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ پروپیگنڈا ویڈیو ہفتہ دو اگست کی سہ پہر جاری کی گئی اور اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ اسرائیلی شہری کس طرح حماس کی حراست میں بھوک اور غذائیت کی کمی کی وجہ سے جسمانی طور پر انتہائی لاغر اور ہڈیوں کا ڈھیر بن چکا ہے۔
ایویاتار ڈیوڈ کے خاندان کا جاری کردہ مذمتی بیان
ایویاتار ڈیوڈ ان اسرائیلی یرغمالیوں میں سے ایک ہے، جنہیں حماس اور دیگر فلسطینی تنظیموں کے سینکڑوں مسلح عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر 2023ء کے روز اسرائیل میں ایک بڑے دہشت گردانہ حملے کے دوران اغوا کر لیا تھا۔ جنوبی اسرائیل میں حماس کی قیادت میں اس حملے کے دوران 1200 سے زائد افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
مختلف خبر رساں اداروں کے مطابق کل ہفتے کے روز ایویاتار ڈیوڈ کے اہل خانہ نے بھی تصدیق کر دی کہ حماس کی اس پروپیگنڈا ویڈیو میں نظر آنے والا اسرائیلی ایویاتار ڈیوڈ ہی ہے۔ اس ویڈیو کے اجرا کے بعد اس اسرائیلی شہری کے اہل خانہ نے ایک مذمتی بیان میں کہا، ’’حماس ہمارے بیٹے کو شدید بھوک کی ایک بزدلانہ مہم کے دوران اپنے لائیو تجربات کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ اسے اس لیے مسلسل بھوکا رکھا جا رہا ہے کہ وہ حماس کے پروپیگنڈا مقاصد کو پور اکرنے میں مدد دے سکے۔‘‘
ویڈیو میں اسرائیلی یرغمالی نے کیا کہا؟
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق اس ویڈیو میں یہ اسرائیلی یرغمالی یہ بتاتا ہوا نظر آتا ہے کہ کس طرح جولائی کے مہینے میں اسے کئی دنوں تک کھانے کے لیے صرف بینز اور دالیں دی گئیں، اور ان کے علاوہ کچھ نہیں۔ ساتھ ہی ایویاتار ڈیوڈ ایک سے زائد مرتبہ یہ بھی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ کبھی کبھی تو اسے دو یا تین تین دن تک کھانے کے لیے کچھ بھی نہ دیا گیا۔
اس ویڈیو میں ایویاتار ڈیوڈ اسرائیلی وزیر اعطم بینجمن نیتن یاہو سے مخاطب ہو کر یہ کہتا ہوا بھی دکھائی دیتا ہے، ’’آپ نے مجھے بالکل تنہا اور بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے، میرے ملک کے وزیر اعظم نے، آپ نے، جنہیں میری اور دیگر تمام قیدیوں کی دیکھ بھال اور رہائی کو ممکن بنانا تھا۔‘‘ اس ویڈیو میں اس یرغمالی نے ’قیدیوں‘ کی اصطلاح اس لیے استعمال کی کہ حماس اپنے زیر قبضہ اسرائیلی یرغمالیوں کو ’قیدی‘ ہی قرار دیتی ہے۔
اس بظاہر سٹیج کردہ ویڈیو کے آخر میں یہ اسرائیلی یرغمالی اپنے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا بیلچہ پکڑے سرنگ کے اندر ہی ریتلی زمین کھودتا ہوا اور یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے، ’’یہاں، اب میں اپنی ہی قبر کھود رہا ہوں۔‘‘
اس ویڈیو کا اختتام حماس کی طرف سے اس تحریری پیغام پر ہوتا ہے: ’’صرف ایک جنگ بندی معاہدہ ہی ان (یرغمالیوں) کو واپس لا سکتا ہے۔‘‘
ادارت: شکور رحیم، عدنان اسحاق