غزہ پٹی: اسرائیلی حملے میں مارے جانے والے صحافیوں کی تدفین
وقت اشاعت 11 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 11 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- غزہ میں الجزیرہ کے صحافیوں کی ہلاکت، جرمنی نے اسرائیل سے وضاحت طلب کر لی
- کولمبیا: قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے صدارتی امیدوار چل بسے
- صدر ٹرمپ کا واشنگٹن سے بے گھر افراد کے فوری انخلا کا مطالبہ
- اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے غزہ میں فوجی کارروائی میں تو سیع کا دفاع
- بھارت میں انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج، راہول گاندھی سمیت درجنوں اپوزیشن رہنما زیر حراست
- بلوچستان کے لیے ریل سروسز معطل، باجوڑ میں کرفیو کا نفاز
- ترکی میں زلزلے کے بعد دو سو سے زائد آفٹر شاکس
- دو ریاستی حل ہی مشرق وسطیٰ میں امن کی بہترین امید ہے، انتھونی البانیزی
غزہ پٹی میں اسرائیلی حملے میں مارے جانے والے صحافیوں کی تدفین
غزہ میں آج بروز پیر الجزیرہ کےپانچ صحافیوں اور ایک فری لانس رپورٹر کی نماز جنازہ ادا کی گئی، جو ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اسرائیل نے ان میں سے ایک، انس الشریف، کو حماس سے وابستہ ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا ہے۔
بمباری سے تباہ حال عمارتوں کے بیچ، الشفا ہسپتال کے صحن میں درجنوں افراد الجزیرہ کے 28 سالہ نمائندے انس الشریف اور ان کے چار ساتھیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے، جو اتوار کو مارے گئے تھے۔ ایک چھٹے صحافی، محمد الخالدی، جو فری لانس رپورٹر تھے، بھی اسی حملے میں ہلاک ہوئے۔ الشفا ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ نے اس حملے میں ان کی ہلاکت کی بھی تصدیق کر دی ہے۔
اسرائیلی کارروائی میں مرنے والے ان افراد کی لاشیں کفن میں لپیٹی گئیں تھیں تاہم ان کے چہرے ڈھکے ہوئے نہیں تھے۔
سفید کفن میں لپٹے ان کے جسد خاکی، جن کے چہرے ڈھکے ہوئے نہیں تھے۔ ان ہلاک شدگان کو تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے قبروں تک لے جایا گیا، جہاں سوگوار افراد میں صحافیوں کی نیلی جیکٹیں پہنے ہوئے لوگ بھی شامل تھے۔
اسرائیل نے تصدیق کی ہے کہ اس نے انس الشریف کو نشانہ بنایا۔اسرائیل کا الزام ہے کہ وہ صحافی کے طور پر کام کرتے ہوئے حماس کے ایک ’’دہشت گرانہ سیل‘‘ کی سربراہی کر رہے تھے اور اسرائیلی شہریوں اور فوج پر راکٹ حملوں میں ملوث تھے۔ اسرائیلی فوج نے دعویٰ کیا کہ اس کے پاس غزہ سے ملنے والی دستاویزات اور انٹیلیجنس شواہد موجود ہیں، جو الشریف کے حماس سے تعلق کو ثابت کرتے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے ایک ایسی گرافک بھی جاری کی ہے، جو اس کے مطابق شمالی غزہ میں حماس سے وابستہ افراد کی ہے اور جس میں شریف کا نام موجود ہے جب کہ ان کی تصویر پر جلی حروف سے ’’ایلیمینیٹڈ‘‘ یا ’’ختم کر دیا گیا‘‘ لکھا ہے۔ اسرائیل نے ایک فہرست بھی جاری کی ہے، جس میں نظر آتا ہے کہ زخمی ہونے پر حماس کی جانب سے شریف کو دو سو ڈالر ادا کیے گئے۔ اسرائیلی فوج نے حماس کی بٹالین کی ایک فون ڈائریکٹری بھی دکھائی ہے، جس میں بظاہر شریف کا نمبر درج ہے۔
الجزیرہ کا کہنا ہے کہ اس کے کارکنان پر حملہ غزہ سٹی کے ایک ہسپتال کے مرکزی گیٹ کے باہر صحافیوں کے لیے لگائے گئے خیمے پر کیا گیا۔ دیگر چار ہلاک شدہ پریس کارکنان میں رپورٹر محمد قریقیہ اور کیمرہ مین ابراہیم زاہر، محمد نوفل اور معمن علیوہ شامل تھے۔
انس الشریف کون تھے؟
انس الشریف غزہ سے جنگ کی زمینی کوریج کرنے والے الجزیرہ کے سب سے نمایاں چہروں میں سے ایک تھے اور 22 ماہ سے جاری جنگ کے بارے میں روزانہ رپورٹیں فائل کر رہے تھے۔
اس سے قبل وہ روئٹرز نیوز ایجنسی کی اس فوٹوگرافی ٹیم کا حصہ بھی رہ چکے تھے، جس نے اسرائیل اور حماس کی جنگ کی کوریج پر 2024 کا پولٹزر انعام برائے بریکنگ نیوز فوٹوگرافی جیتا تھا۔ الجزیرہ نے انہیں ’’غزہ کے سب سے بہادر صحافیوں میں سے ایک‘‘ اور جنگ کی رپورٹنگ میں ایک اہم آواز قرار دیا۔ ان کی رپورٹنگ میں اکثر جنگ سے متاثرہ شہریوں کے انٹرویوز اور اسرائیلی حملوں کے فوراً بعد کے مناظر شامل ہوتے تھے۔
پریس فریڈم گروپ اور اقوام متحدہ کے ایک ماہر نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ غزہ سے رپورٹنگ کی وجہ سے انس الشریف کی جان کو خطرہ تھا۔ اقوام متحدہ کی اسپیشل وقائع نگار آئرین خان نے پچھلے ماہ کہا تھا کہ اسرائیل کے ان کے خلاف الزامات بے بنیاد ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق انس الشریف نے اپنی موت کی صورت میں شائع کرنے کے لیے ایک سوشل میڈیا پیغام چھوڑا تھا، جس میں لکھا تھا:
’’میں نے کبھی بھی بلاتحریف یا مسخ کیے بغیر، سچ کو بیان کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی، اس امید کے ساتھ کہ اللہ ان لوگوں کا گواہ ہوگا جو خاموش رہے۔‘‘
غزہ میں الجزیرہ کے صحافیوں کی ہلاکت، جرمنی نے اسرائیل سے وضاحت طلب کر لی
جرمنی نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں الجزیرہ کے صحافیوں کی ہلاکت کے حوالے سے واضح اور شفاف وضاحت فراہم کرے۔ قطر میں قائم خبر رساں ادارے الجزیرہ نے قبل ازیں اعلان کیا تھا کہ اس کے سرکردہ نمائندے انس الشریف اور ان کے چار ساتھی اس وقت ہلاک ہو گئے، جب ایک اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ سٹی میں میڈیا ورکرز کے لیے لگائے گئے ایک خیمے کو نشانہ بنایا گیا۔
جرمنی کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے پیر کو برلن میں کہا کہ صحافیوں کی ہلاکت بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ’’بالکل ناقابل قبول‘‘ ہے۔
ترجمان نے کہا، ’’جب ایسی ہلاکت ہوتی ہے، جیسی کہ اب ہوئی ہے، تو ذمہ دار پارٹی کو واضح اور شفاف انداز میں یہ بتانا چاہیے کہ اسے کیوں ضروری سمجھا گیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اب تک اس قسم کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی۔
ترجمان نے کہا کہ اگر اسرائیل دعویٰ کرتا ہے کہ حملہ کسی مخصوص فرد کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا، تو اسے یہ بتانا ہوگا کہ کل پانچ افراد کی ہلاکت کیوں ہوئی؟ اسرائیلی فوج نے الشریف کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ وہ ایک صحافی کے طور پر چھپ کر حماس کے ایک ’’دہشت گرد گروپ‘‘ کی قیادت کر رہے تھے۔
جرمن وزارت خارجہ نے زور دیا کہ صحافیوں کا تحفظ لازمی ہے اور اسرائیل کو صحافیوں کے تحفظ کو ختم کرنے کی کسی بھی وجہ کو جائز ثابت کرنا ہوگا۔ ترجمان نے کہا، ’’ہماری نظر میں اسرائیل سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ سب سے زیادہ شفاف اور قابل فہم انداز میں اپنی وضاحت پیش کرے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ حکام کو یقینی بنانا چاہیے کہ غزہ میں رپورٹرز آزادانہ اور محفوظ طریقے سے اپنا کام کر سکیں۔ جرمنی کی وزارت خارجہ کے مطابق اسرائیل کے حماس کے خلاف جنگ شروع کرنے کے بعد سے اب تک غزہ میں 200 صحافی ہلاک ہو چکے ہیں، جسے جرمنی نے ’’بالکل ناقابل قبول‘‘ قرار دیا ہے۔
جرمن صحافیوں کی ملکی تنظیم (ڈی جے وی) نے بھی اس حملے کی مذمت کی ہے۔ ڈی جے وی کے چیئرمین میکا بیوسٹر نے کہا کہ اگر الشریف ایک جنگجو تھے بھی، تب بھی اس سے صحافیوں کے لیے مخصوص خیمے پر بمباری کا جواز نہیں بنتا۔
کولمبیا: قاتلانہ حملے میں زخمی ہونے والے صدارتی امیدوار چل بسے
کولمبیا کے قدامت پسند سینیٹر اور صدارتی امیدوار میگوئل اوریبے توربے پیر کو انتقال کر گئے، وہ دو ماہ سے زائد عرصہ قبل مغربی بوگوٹا میں ایک انتخابی ریلی کے دوران گولی لگنے کے بعد زخمی حالت میں زیر علاج تھے۔ ان کی اہلیہ ماریا کلاؤڈیا تارا زونا نے اس 39 سالہ سیاستدان کی موت کی تصدیق کر دی۔
اوریبے توربے کو سات جون کو انتخابی ریلی کے دوران سر اور ٹانگ میں گولیاں لگی تھیں، جس کے بعد ان کی ہنگامی سرجری کی گئی اور وہ مسلسل انتہائی نگہداشت میں زیر علاج رہے تھے۔
واقعے کے فوراً بعد ایک کم عمر مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا تھا، جبکہ بعد میں مزید افراد کو بھی حراست میں لیا گیا۔ اس حملے نے ملک میں سیاسی تشدد کے دوبارہ بڑھتے جانے پر گہری تشویش کو جنم دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ اس خبر پر بےحد رنجیدہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ، مرحوم کے اہل خانہ اور کولمبیا کے عوام کے ساتھ سوگ اور انصاف کے مطالبے میں یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہے تاکہ اس واقعے کے ذمہ دار عناصر کو کٹہرے میں لایا جا سکے۔
صدر ٹرمپ کا واشنگٹن سے بے گھر افراد کے فوری انخلا کا مطالبہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملکی دارلحکومت واشنگٹن ڈی سی سے بے گھر افراد کو فوری طور پر ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اتوار کی شب سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر جاری کردہ اپنے ایک بیان میں صدر ٹرمپ نے لکھا، ’’بے گھر افراد کو فوراً یہاں سے جانا ہوگا، ہم انہیں رہنے کے لیے جگہ فراہم کریں گے لیکن دارالحکومت سے بہت دور۔ مجرموں کو یہاں سے جانے کی ضرورت نہیں، ہم انہیں جیل میں ڈالیں گے جہاں ان کی جگہ ہے۔‘‘
اس کے ساتھ انہوں نے سڑک کنارے لگے ٹینٹوں اور کچرے کی تصاویر بھی پوسٹ کیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ پیر کو واشنگٹن میں جرائم اور صفائی سے متعلق پریس کانفرنس کی جائے گی اور شہر کو ’’ماضی سے کہیں زیادہ محفوظ اور خوبصورت‘‘ بنایا جائے گا۔
امریکی دارالحکومت واشنگٹن کا انتظام ایک مقامی میئر اور کونسل چلاتے ہیں لیکن یہ وفاقی حکومت کی نگرانی میں بھی رہتا ہے۔ ریپبلکن رہنما ٹرمپ اکثر شہر کی ڈیموکریٹ میئر موریل باؤزر کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق وفاقی حکومت واشنگٹن میں نیشنل گارڈ کے سینکڑوں اہلکار تعینات کرنے کا منصوبہ تیار کر رہی ہے تاکہ ٹرمپ کے اہداف پر عمل درآمد کیا جا سکے، تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔ صدر ٹرمپ نے بے گھر افراد کو اس شہر سے ہٹانے کے لیے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں بتایا۔ دو ہفتے قبل بھی انہوں نے وائٹ ہاؤس کے قریب بے گھر افراد کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم کی طرف سے غزہ میں فوجی کارروائی میں تو سیع کا دفاع
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ میں ایک نئے اور پہلے سے زیادہ وسیع فوجی آپریشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کے پاس ’’کام مکمل کرنے اور حماس کو مکمل طور پر شکست دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔‘‘
بائیس ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ پر اندرون اور بیرون ملک بڑھتی ہوئی تنقید کے باوجود نیتن یاہو نے بتایا کہ گزشتہ ہفتے اسرائیلی سکیورٹی کابینہ نے صرف غزہ سٹی ہی نہیں بلکہ ’’سینٹرل کیمپس‘‘ اور مواصی میں بھی حماس کے مضبوط گڑھ ختم کرنے کی ہدایت دے دی۔ ایک ایسے ذریعے نے، جو میڈیا سے بات کرنے کا مجاز نہیں تھا، تصدیق کی کہ اسرائیل دونوں علاقوں میں کارروائی کا منصوبہ رکھتا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق یہ کیمپس نصف ملین سے زائد بے گھر فلسطینیوں کی پناہ گاہیں ہیں، اور اسرائیل کے جمعے کے روز کیے گئے اعلان میں ان کا ذکر شامل نہیں تھا۔ یہ واضح نہیں کہ انہیں کیوں شامل نہیں کیا گیا، تاہم نیتن یاہو کو اپنی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کی طرف سے تنقید کا سامنا تھا کہ صرف غزہ سٹی کو ہی نشانہ بنانا کافی نہیں۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ’’محفوظ زون‘‘ قائم کیے جائیں گے، تاہم ماضی میں ایسے مخصوص علاقوں پر بھی اسرائیلی بمباری کی جاتی رہی ہے۔
بھارت میں انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج، راہول گاندھی سمیت درجنوں اپوزیشن رہنما زیر حراست
بھارت میں حکام نے آ ج بروز پیر انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے پر کانگریس کے رہنما راہول گاندھی سمیت درجنوں اپوزیشن رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں حالیہ دہائیوں میں شفافیت پر سوال شاذ و نادر ہی اٹھے ہیں، مگر مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ الزامات وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ان کے 11 سالہ دور اقتدار کے مشکل ترین مرحلے میں نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
تقریباً 300 اپوزیشن رہنما، جن میں کانگریس پارٹی کے راہول گاندھی بھی شامل تھے، پارلیمنٹ سےالیکشن کمیشن کے دفتر تک مارچ کر رہے تھے، لیکن پولیس انہیں کچھ ہی فاصلے پر روک کر بسوں میں بٹھا کر لے گئی۔ مظاہرین نے الزام لگایا کہ انتخابات ’’چرائے جا رہے ہیں‘‘ اور بی جے پی حکومت کے حق میں ووٹر لسٹوں میں ہیرا پھیری کی جا رہی ہے۔
راہول گاندھی نے کہا، ’’یہ لڑائی سیاسی نہیں، یہ آئین بچانے کی لڑائی ہے۔ ہم ایک صاف اور شفاف ووٹر لسٹ چاہتے ہیں۔‘‘ کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ جن ریاستوں میں وہ ہاری ہیں، وہاں ووٹر لسٹ سے نام غائب کر دیے گئے یا دوہرے اندراجات کر کے انتخابی نتائج کو مودی کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے حق میں موڑ دیا گیا۔
بھارتی اپوزیشن نے بہار میں آئندہ ریاستی انتخابات سے قبل ووٹر لسٹ کی ازسرنو تدوین کے فیصلے کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جسے وہ غریب ووٹروں کو محروم کرنے کی کوشش قرار دے رہی ہے۔ بی جے پی اور الیکشن کمیشن ان الزامات کو مسترد کر چکے ہیں۔
مستونگ بم دھماکے کے بعد بلوچستان کے لیے ریل سروسز معطل
پاکستان ریلوے نے اتوار کو مستونگ میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد صوبہ بلوچستان سے آنے اور جانے والی تمام ٹرین سروسز چار روز کے لیے معطل کر دی ہیں۔ اس حملے میں جعفر ایکسپریس کی چھ بوگیاں پٹڑی سے اتر گئیں تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
ریلوے کے ترجمان اکرام اللہ کے مطابق دھماکا اس وقت ہوا جب جعفر ایکسپریس کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی۔ انجینئرز تباہ شدہ ٹریک کی مرمت میں مصروف ہیں۔ کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ یہ واقعہ اسی ضلع میں پیش آیا، جہاں چند ماہ قبل بی ایل اے کی جانب سے ایک مسافر ٹرین کو قبضے میں لے کر مسافروں کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔ تب حملہ آوروں نے 21 مسافروں کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے ایک بڑا آپریشن کیا تھا، جس میں 33 حملہ آور مارے گئے تھے۔
یہ تازہ حملہ ایسے وقت پر ہوا ہے، جب پاکستان 14 اگست کو اپنی آزادی کی 78ویں سالگرہ منانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ بلوچستان طویل عرصے سے علیحدگی پسندی کی تحریک اور پاکستانی طالبان سے وابستہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔
ادھر صوبے خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے بعض علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ ضلعی منتظم شاہد خان کے مطابق افغان سرحد کے قریب شہریوں کو گھروں میں رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، جس کے باعث کئی لوگ ممکنہ آپریشن کے خدشے سے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی کر رہے ہیں۔ باجوڑ کبھی ممنوعہ تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا گڑھ رہا ہے، اور حالیہ دنوں میں وہاں اس گروہ کی سرگرمیاں دوبارہ بڑھ گئی ہیں۔ ٹی ٹی پی ایک علیحدہ تنظیم ہے لیکن افغان طالبان کی قریبی حلیف سمجھی جاتی ہے۔
ترکی میں زلزلے کے بعد دو سو سے زائد آفٹر شاکس
مغربی ترکی میں اتوار کو 6.1 شدت کے زلزلے کے بعد پیر کے روز 200 سے زائد ضمنی جھٹکے محسوس کیے گئے۔ ترکی کی قدرتی آفات سے نمٹنے کی ایجنسی ’’آفاد‘‘ کے مطابق مجموعی طور پر 237 آفٹر شاکس ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے 10 کی شدت ریکٹر اسکیل پر کم از کم 4.0 تھی۔
ترک میڈیا کے مطابق مزید زلزلوں کے خدشے کے باعث کئی مقامی رہائشی افراد نے گزشتہ رات کھلے آسمان تلے یا اپنی گاڑیوں میں گزاری۔ زلزلے کا مرکز بالک کیسر صوبے میں تھا، جہاں اتوار کے روز مرکزی جھٹکے کے نتیجے میں کم از کم ایک شخص ہلاک اور 29 زخمی ہوئے تھے۔ یہ زلزلہ سطح زمین سے نیچے 11 کلومیٹر کی گہرائی میں آیا اور اس کے جھٹکے 200 کلومیٹر دور استنبول اور ازمیر تک میں بھی محسوس کیے گئے تھے۔
ملکی وزیر داخلہ علی یرلکایا نے بتایا کہ اس زلزلے سے مجموعی طور پر 16 مکانات منہدم ہوئے۔ ریسکیو کارروائیاں مکمل کر لی گئی ہیں جبکہ چار زخمی تاحال ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔
ترکی ارضیاتی طور پر کئی فالٹ لائنز پر واقع ہونے کے باعث شدید زلزلوں کا شکار رہتا ہے۔ کروڑوں کی آبادی والا استنبول خاص طور پر خطرے کی زد میں ہے اور اپریل میں بھی وہاں 6.2 شدت کا زلزلہ آیا تھا۔ فروری 2023 میں آنے والے دوہرے زلزلوں میں ترکی میں 53 ہزار سے زائد اور پڑوسی ملک شام میں بھی ہزاروں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
آسٹریلیا کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
آسٹریلیا کے وزیر اعظم انتھونی البانیزی نے اعلان کیا ہے کہ ان کا ملک ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔ انہوں نے کہا کہ دو ریاستی حل انسانیت کے لیے بہترین امید ہے، جس سے مشرق وسطیٰ میں تشدد کا سلسلہ رک سکتا ہے اور غزہ میں جاری تنازع، تکالیف اور بھوک کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔
البانیزی نے کہا کہ جب تک اسرائیلی اور فلسطینی ریاستوں کا قیام مستقل بنیادوں پر نہیں ہوتا، تب تک امن صرف عارضی ہوگا۔ آسٹریلیا فلسطینی عوام کے ان کی اپنی ریاست کے حق کو تسلیم کرے گا اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر اس حق کو حقیقت بنانے کی کوشش کرے گا۔
یہ اعلان ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب برطانیہ، فرانس اور کینیڈا سمیت کئی مغربی ممالک نے بھی تقریباً دو برس قبل حماس کے حملوں کے بعد غزہ میں اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کی ہے۔
البانیزی نے کہا کہ آسٹریلیا کا فیصلہ فلسطینی اتھارٹی کی ان یقین دہانیوں پر مبنی ہے کہ مستقبل کی کسی فلسطینی ریاست میں حماس کے عسکریت پسندوں کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ پٹی پر کنٹرول نہیں رکھتی، جو تقریباً دو دہائیوں سے حماس کے زیر انتظام ہے۔
آسٹریلیا کے اعلان کے بعد کینبرا میں اسرائیلی سفارت خانے نے اس پر تبصرے سے انکار کر دیا۔ اس سے چند گھنٹے قبل اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی عالمی اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام امن نہیں بلکہ جنگ کو جنم دے گا۔
خیال رہے کہ اس سے قبل فرانس، برطانیہ اور پرتگال سمیت دس سے زائد ممالک ستمبر میں فلسطین کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے اعلانات کر چکے ہیں۔
ادارت: مقبول ملک، جاوید اختر