غزہ میں اسرائیلی حملے، چوبیس گھنٹوں میں 112 فلسطینی ہلاک
وقت اشاعت 1 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 1 جولائی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- نیتن یاہو نے اگلے ہفتے دورہ واشنگٹن کی تصدیق کر دی
- بین الاقوامی امدادی تنظیموں کا ’غزہ ہیومینیٹیرین فنڈ‘ کی بندش کا مطالبہ
- غزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں میں بیس فلسطینی ہلاک
- غزہ میں جنگ بندی پر مذاکرات کے لیے اسرائیلی وفد کی امریکی حکام سے ملاقاتیں
- تباہ شدہ شہروں کی تعمیر نو اولین ترجیح ہے، ایرانی حکومت
- اسرائیلی فوج کی مقبوضہ مغربی کنارے میں کارروائیاں، دو فلسطینی ہلاک
- غزہ میں کیفے پر حملے کا جائزہ لے رہے ہیں، اسرائیلی فوج
- غزہ پر اسرائیلی بمباری میں مزید 74 فلسطینی ہلاک
غزہ میں اسرائیلی حملوں میں، چوبیس گھنٹوں کے دوران 112 فلسطینی ہلاک
اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے منگل کے روز غزہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں شدید حملے کیے، جن کے نتیجے میں درجنوں مکانات تباہ ہو گئے۔
مقامی رہائشیوں کے مطابق اسرائیل کی جانب سے نئے انخلا کے احکامات جاری ہونے کے بعد ہزاروں فلسطینی ایک بار پھر نقل مکانی پر مجبور ہو گئے، جبکہ اسرائیلی ٹینک غزہ سٹی کے مشرقی علاقوں، خان یونس اور رفح میں پیش قدمی کر رہے ہیں۔
غزہ میں حماس کے زیر انتظام محکمہ صحت کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فائرنگ اور فضائی حملوں میں کم از کم 112 افراد ہلاک اور 400 سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ غزہ سٹی کے علاقوں شجاعیہ اور زیتون کے ساتھ ساتھ، خان یونس کے مشرق اور رفح میں متعدد رہائشی عمارتوں کے مکمل طور پر تباہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے ان حملوں پر فی الحال کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
نیتن یاہو نے اگلے ہفتے دورہ واشنگٹن کی تصدیق کر دی
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے منگل کے روز تصدیق کی ہے کہ وہ آئندہ ہفتے واشنگٹن کا دورہ کریں گے، جہاں وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر کے مطابق کابینہ اجلاس کے آغاز پر نیتن یاہو نے بتایا کہ ان کی ملاقاتیں صدر ٹرمپ، نائب صدر جے ڈی وینس، وزیر خارجہ مارکو روبیو، وزیر دفاع پیٹ ہیگسیتھ اور امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف سے طے ہیں۔
نیتن یاہو نے بات چیت کے ایجنڈے کی تفصیل نہیں بتائی، تاہم 24 جون کو ایران اور اسرائیل کے درمیان 12 روزہ جنگ کے خاتمے کے بعد صدر ٹرمپ غزہ میں 20 ماہ سے جاری اسرائیل-حماس جنگ کو ختم کرانے کی کوششیں تیز کر چکے ہیں۔
صدر ٹرمپ نے جمعے کے روز کہا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ’’اگلے ہفتے کے اندر‘‘ ممکن ہو سکے گا۔
اسرائیلی میڈیا پہلے ہی نیتن یاہو کے متوقع دورے کی خبر دے چکا ہے۔ نیتن یاہو جنوری میں اپنی دوسری مدت کے آغاز کے بعد سے اب تک دو بار امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں۔
بین الاقوامی امدادی تنظیموں کا ’غزہ ہیومینیٹیرین فنڈ‘ کی بندش کا مطالبہ
165 سے زائد بین الاقوامی فلاحی تنظیموں اور غیر سرکاری اداروں نے منگل کے روز اسرائیل اور امریکا کی حمایت یافتہ امدادی تنظیم’’غزہ ہیومینیٹیرین فنڈ‘‘ (جی ایچ ایف) کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اوکسفیم، سیو دی چلڈرن اور ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت دیگر تنظیموں کا کہنا ہے کہ جی ایچ ایف امدادی مراکز کی طرف جانے والے فلسطینیوں کو بارہا جان لیوا تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی بحران مزید سنگین ہو رہا ہے۔
یہ مطالبہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب پیر کی شب سے لے کر منگل کی صبح تک جنوبی اور وسطی غزہ میں کم از کم سات فلسطینی اس وقت ہلاک ہوئے جب وہ امداد حاصل کرنے کے لیے جا رہے تھے۔ اس سے قبل عینی شاہدین اور حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے حکام نے بتایا تھا کہ صرف پیر کے روز اسرائیلی حملوں میں مارے جانے والے 74 فلسطینیوں میں سے 23 افراد اس وقت گولیوں کا نشانہ بنے جب وہ خوراک کے حصول کی کوشش کر رہے تھے۔
ان امدادی تنظیموں کی جانب سے جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’غزہ کے فلسطینیوں کے پاس اب صرف دو ہی راستے رہ گئے ہیں: یا تو فاقہ کشی کریں یا گولی کا سامنا کرتے ہوئے خوراک تک پہنچنے کی کوشش کریں۔‘‘
جی ایچ ایف، جو ایک خفیہ نوعیت کا امدادی منصوبہ ہے اور امریکی و اسرائیلی سرپرستی میں چلایا جا رہا ہے، ایک ایوینجلیکل مسیحی رہنما کی سربراہی میں کام کر رہا ہے، جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی ساتھی مانے جاتے ہیں۔ یہ منصوبہ 26 مئی کو امداد کی تقسیم کے لیے شروع کیا گیا تھا، جو اسرائیل کی جانب سے غزہ کی تقریباً تین ماہ طویل ناکہ بندی کے بعد سامنے آیا۔
جی ایچ ایف کی جانب سے جاری کردہ بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پانچ ہفتوں کے دوران 5 کروڑ 20 لاکھ سے زائد کھانے کے پیکٹ تقسیم کیے جا چکے ہیں۔ بیان میں کہا گیا، ’’تنقید کرنے یا دور سے الزامات لگانے کی بجائے، ہم دیگر انسانی تنظیموں کو خوش آمدید کہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ مل کر غزہ کے عوام کو خوراک فراہم کریں۔ ہم ہر قسم کے تعاون کے لیے تیار ہیں۔‘‘
گزشتہ ماہ جی ایچ ایف نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے امدادی مراکز کے اندر یا آس پاس کسی قسم کے تشدد کا واقع پیش نہیں آیا اور ان کے عملے نے کبھی فائرنگ نہیں کی۔
غزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں میں بیس فلسطینی ہلاک
اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے منگل کے روز غزہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں شدید بمباری کی، جس کے نتیجے میں درجنوں رہائشی مکانات تباہ ہوگئے۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے قریبی ساتھی واشنگٹن میں ممکنہ جنگ بندی سے متعلق بات چیت کے لیے موجود ہیں۔
غزہ کے مقامی شہریوں کے مطابق اسرائیلی فوج کی جانب سے نئی انخلا کی ہدایات کے بعد ہزاروں افراد ایک بار پھر نقل مکانی پر مجبور ہیں جبکہ اسرائیلی ٹینک غزہ سٹی کے مشرقی علاقوں، خان یونس اور رفح میں داخل ہو چکے ہیں۔
حماس کے زیر انتظام محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ منگل کے روز تازہ حملوں میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ غزہ سٹی میں واقع شجاعیہ اور زیتون کے علاقوں کے ساتھ ساتھ خان یونس کے مشرق اور رفح میں متعدد مکانات کی مکمل تباہی کی اطلاعات ہیں۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے تاحال ان حملوں پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
غزہ سٹی کے علاقے شیخ رضوان کے رہائشی اسماعیل نے روئٹرز کو ایک پیغام میں بتایا کہ شمال اور مشرقی علاقوں سے نکلنے والے بے گھر افراد سڑکوں پر خیمے لگا کر رہائش اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’ہمیں ٹینکوں اور طیاروں کی بمباری سے نیند نہیں آتی۔اسرائیلی قابض افواج ہمارے آس پاس کے علاقوں جیسے جبالیہ اور مشرقی غزہ میں گھروں کو تباہ کر رہی ہیں۔‘‘
سکیورٹی خدشات کے پیش نظر اسماعیل نے اپنا پورا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔
غزہ میں جنگ بندی پر مذاکرات کے لیے اسرائیلی وفد کی امریکی حکام سے ملاقاتیں
اسرائیلی وزیر برائے اسٹریٹیجک امور اور وزیر اعظم نیتن یاہو کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے رون ڈرمر اس ہفتے واشنگٹن میں امریکی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجمان کیرولین لیوٹ نے پیر کو ایک پریس بریفنگ میں بتایا کہ ڈرمر ممکنہ علاقائی سفارتی معاہدوں اور غزہ میں جنگ کے خاتمے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔
اسرائیلی حکام کے مطابق نیتن یاہو اگلے ہفتے واشنگٹن کا دورہ کریں گے جہاں وہ سات جولائی کو صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ متوقع ہے کہ ملاقات میں ایران، غزہ، شام اور دیگر علاقائی امور پر بات چیت ہو گی۔
حماس کے سینئر رہنما سمیع ابو زہری نے کہا ہے کہ جنگ بندی کی کوششوں میں پیش رفت کے لیے امریکہ کی جانب سے اسرائیل پر دباؤ ڈالنا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم امریکی انتظامیہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے خلاف اپنی پالیسی کی تلافی کرتے ہوئے جنگ کے خاتمے کا اعلان کرے۔‘‘
رواں سال کے آغاز پر غزہ میں چھ ہفتوں کی جنگ بندی کے بعد سے سیز فائر کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ فلسطینی اور مصری ذرائع کا کہنا ہے کہ قطر اور مصر نے دونوں فریقین سے رابطے تیز کر دیے ہیں، تاہم جنگ بندی سے متعلق نئے مذاکرات کے لیے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی۔
حماس کا مؤقف ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کو صرف اس شرط پر رہا کرے گی کہ جنگ مکمل طور پر ختم کی جائے، جبکہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی ضروری ہے اور جنگ کا اختتام صرف اسی وقت ممکن ہے، جب حماس کو غیر مسلح کر دیا جائے اور اس کی غزہ پر حکمرانی ختم ہو۔
تباہ شدہ شہروں کی تعمیر نو اولین ترجیح ہے، ایرانی حکومت
ایرانی حکام نے ایک ہفتہ قبل اسرائیل کے ساتھ جنگ بندی کے بعد تباہ شدہ شہروں کی تعمیر نو کو اپنی اولین ترجیح قرار دیا ہے۔ شاہراہوں اور شہری ترقی کی وزیر فرزانہ صادق نے منگل کے روز سرکاری ریڈیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بحالی کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے، ان کی وزارت کے کرائسس یونٹ میں جنگ کے دوران نقصانات کا تخمینہ لگانے والی ایک کمیٹی کام کر رہی ہے اور ایک قومی بحالی منصوبہ ترتیب دیا جا چکا ہے۔
ایک حکومتی بیان کے مطابق ایرانی نائب صدر محمد رضا عارف نے بھی ریاستی سرمایہ کاری کمپنی کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی تاکہ تعمیر نو کے لیے مالی وسائل پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ایک تقریر میں عارف نے 1980ء کی دہائی میں عراق کے ساتھ پہلی خلیجی جنگ کے بعد ایران کی بحالی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’’ہمیں فوری طور پر یہ ثابت کرنا ہوگا کہ جنگ کے بعد ہر محاذ پر دوبارہ تعمیر کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
اسرائیل اور ایران کے مابین تنازع 13 جون کو اس وقت شروع ہوا تھا، جب اسرائیل نے ایران کے مختلف علاقوں پر فضائی حملے کیے، جن کی وجہ تہران کے جوہری پروگرام پر خدشات بتائے گئے۔ایران نے میزائل اور ڈرون حملوں سے جواب دیا جبکہ امریکہ نے تین اہم ایرانی جوہری تنصیبات پر بمباری کر کے تنازع میں شمولیت اختیار کی۔ اس کے بعد 24 جون کو جنگ بندی نافذ العمل ہوئی۔
اسرائیلی فوج کی مقبوضہ مغربی کنارے میں کارروائیاں، دو فلسطینی ہلاک
اسرائیلی فوج کی جانب سے آج منگل کی صبح مقبوضہ مغربی کنارے میں کارروائی کے دوران وسطی شہر رملہ میں ایک کم عمر فلسطینی لڑکا گولی لگنے سے ہلاک ہو گیا۔ فلسطینی خبررساں ایجنسی وفا کے مطابق لڑکے کی عمر 16 برس تھی، جبکہ فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ وہ 15 سال کا تھا۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے اس شہر میں پیش آئے واقعے کی مزید تفصیلات فوری طور پر دستیاب نہیں ہو سکیں۔
منگل ہی کے روز ایک علیحدہ واقعے میں اسرائیلی فوجیوں نے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی حصے میں اسرائیل کی سرحدی باڑ کے قریب ایک فلسطینی نوجوان کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ وزارت صحت نے مقتول کی عمر 24 سال بتائی ہے۔ اس واقعے کے بارے میں بھی مزید معلومات فوری طور پر جاری نہیں کی گئیں۔ اسرائیلی فوج نے دونوں رپورٹوں پر تبصرے کے لیے کہے جانے پر بتایا کہ وہ ان واقعات کا جائزہ لے رہی ہے۔
مغربی کنارے میں کشیدگی سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملوں اور اس کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق مغربی کنارے میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں، مسلح جھڑپوں اور اسرائیلی انتہا پسندوں کے حملوں میں اب تک 940 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
اسی عرصے کے دوران شدت پسند اسرائیلی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینی شہریوں پر تشدد کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
غزہ میں کیفے پر حملے کا جائزہ لے رہے ہیں، اسرائیلی فوج
اسرائیلی فوج نے آج یکم جولائی بروز منگل کہا ہے کہ وہ غزہ کے ساحلی کیفے پر ہونے والے اس فضائی حملے کا جائزہ لے رہی ہے، جس کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ اس حملے کا ہدف عسکریت پسند تھے۔ غزہ میں طبی عملے کے مطابق اس حملے میں تیس افراد مارے گئے تھے۔ فوج نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان میں کہا کہ اس نے ’’شمالی غزہ میں کئی حماس جنگجوؤں کو نشانہ بنایا۔‘‘ فوجی ترجمان نے کہا، ’’حملے سے قبل شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے فضائی نگرانی کے ذریعے احتیاطی اقدامات کیے گئے تھے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا،’’یہ واقعہ فی الحال زیرِ جائزہ ہے۔‘‘
یہ کیفے اور ریستوراں ، جو اب تک 20 ماہ طویل جنگ اور شدید بمباری کے باوجود قائم رہا تھا، ان لوگوں کی پناہ گاہ بن چکا تھا جو جنگ کے باعث بے گھر ہوئے۔
اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملوں میں کم از کم 74 افراد ہلاک
اسرائیلی فوج کے غزہ پر حملوں میں کم از کم 74 افراد ہلاک ہو گئے، ان میں 30 افراد ایک ساحلی کیفے پر فضائی حملے میں مارے گئے جبکہ 23 افراد اس وقت جان سے گئے جب وہ غذائی امداد حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ عینی شاہدین اور حماس کے زیر انتظام محکمہ صحت کے حکام کے مطابق پیر کے روز غزہ سٹی میں واقع ’’البقاء کیفے‘‘کو اس وقت فضائی حملے کا نشانہ بنایا گیا، جب وہ خواتین اور بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ حملے کے وقت اس کیفے کے اندر موجود غزہ کے ایک رہائشی علی ابو عتیلہ نے بتایا، ’’کسی وارننگ کے بغیر، اچانک ایک جنگی طیارے نے کیفے کو نشانہ بنایا، اور پوری عمارت زلزلے کی طرح ہل گئی۔‘‘
اس کیفے پر حملے کے وقت قریبی ساحل پر چہل قدمی کرنے والے احمد النیراب نے بتایا،’’یہ جگہ ہمیشہ لوگوں سے بھری ہوتی ہے۔ یہاں مشروبات، خاندانوں کے بیٹھنے کی جگہ اور انٹرنیٹ کی سہولت موجود تھی۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’یہ قتلِ عام تھا۔ میں نے انسانی جسم کے ٹکڑے فضا میں اڑتے دیکھے، جلی ہوئی اور مسخ شدہ لاشیں ہر طرف تھیں۔ منظر ہولناک تھا، ہر کوئی چیخ رہا تھا۔‘‘
اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر کے مطابق، فلسطینی صحافی اسماعیل ابو حطب بھی اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔ اسرائیلی پابندیوں اور غزہ کے بعض علاقوں تک رسائی میں دشواریوں کے باعث اے ایف پی آزادانہ طور پر ہلاکتوں کی تعداد یا دیگر تفصیلات کی تصدیق نہیں کر سکی۔
شمالی غزہ میں وزارت صحت کی ایمرجنسی اور ایمبولینس سروس کے سربراہ فارس عواد کے مطابق اس حملے میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور درجنوں شدید زخمی ہوئے۔ غزہ سٹی کی ایک اور سڑک پر دو الگ فضائی حملوں میں مزید 15 افراد ہلاک ہوئے، جن کی لاشیں الشفاء ہسپتال لائی گئیں۔ ایک اور حملے میں زوایدہ کے قریب ایک عمارت کو نشانہ بنایا گیا، جس میں چھ افراد ہلاک ہوئے۔
البقاء کیفے، جو 20 ماہ کی جنگ کے دوران بھی کام کرنے والے چند کاروباروں میں شامل تھا، مقامی رہائشیوں کے لیے انٹرنیٹ اور موبائل چارجنگ کی سہولت فراہم کرنے کی وجہ سے ایک اہم پناہ گاہ بن چکا تھا۔ سوشل میڈیا پر گردش کرتی ویڈیوز میں خون میں لت پت لاشیں اور زخمیوں کو کمبلوں میں لپیٹ کر اٹھاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ادھر، جنوبی غزہ میں بھی اسرائیلی افواج نے خوراک کی تلاش میں نکلنے والے 11 فلسطینیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا۔
خان یونس کے ناصر ہسپتال کے مطابق یہ افراد خوراک کی تلاش میں ’’غزہ ہیومینٹیرین فنڈ‘‘ (جی ایچ ایف) کے مرکز سے واپس آ رہے تھے، جب انہیں نشانہ بنایا گیا۔ جی ایچ ایف ایک امدادی پروگرام ہے، جسے امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل ہے اور اس کے تحت امداد کی تقسیم کے دوران گزشتہ ایک ماہ میں 500 سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔ فائرنگ کا یہ واقعہ خان یونس میں جی ایچ ایف مرکز سے تقریباً تین کلومیٹر دور اُس وقت پیش آیا، جب متاثرہ افراد واحد دستیاب راستے سے واپس آ رہے تھے۔ فلسطینی اکثر دور دراز علاقوں سے امدادی مراکز تک کا طویل سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ناصر ہسپتال کے مطابق جنوبی شہر رفح میں جی ایچ ایف کے ایک اور مرکز کے قریب ایک شخص ہلاک ہوا، جبکہ ایک اور فرد نتساریم کوریڈور کے نزدیک امداد کے انتظار میں مارا گیا، جو غزہ کے شمال اور جنوب کو ایک دوسرے سے الگ کرتا ہے، جیسا کہ العودہ ہسپتال نے اطلاع دی۔
وزارت صحت کی ایمبولینس اور ایمرجنسی سروس نے بتایا کہ شمالی غزہ میں اقوام متحدہ کے ایک امدادی گودام پر حملے میں مزید 10 افراد ہلاک ہوئے۔