غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، ایک دن میں 50 سے زائد ہلاکتیں
وقت اشاعت 10 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 10 جولائی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- ’جنگ بندی معاہدے کے قریب، لیکن کچھ چیلنجز باقی‘
- اسرائیلی فوج کی موجودگی سے مشروط جنگ بندی ڈیل قبول نہیں، حماس
- سعودی عرب میں رواں برس اب تک 100 سے زائد افراد کے سر قلم
- اقوام متحدہ کی فلسطینی حقوق کی ماہر پر عائد کردہ امریکی پابندیوں کی مذمت
- یورپی یونین اور اسرائیل کے مابین غزہ میں امداد کی ترسیل بڑھانے پر اتفاق
- اسرائیلی حملوں میں کم از کم 12 صحافی اور میڈیا کارکن ہلاک ہوئے، ایران
- بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملے کے شکار بحری جہاز کے عملے کی تلاش جاری
- غزہ میں قحط سے بچاؤ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، جرمن وزیر خارجہ
- حوثی باغیوں کا میزائل حملہ ناکام بنا دیا، اسرائیل
مقبوضہ مغربی کنارے میں فائرنگ اور چاقو حملے: ایک اسرائیلی ہلاک، دو فلسطینی حملہ آور مارے گئے
اسرائیلی فوج اور ہنگامی اداروں کا کہنا ہے کہ آج بروز جمعرات مقبوضہ مغربی کنارے میں کیے گئے ایک حملے میں ایک اسرائیلی شہری ہلاک ہو گیا جبکہ دو فلسطینی حملہ آوروں کو موقع پر ہی فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا۔
ایمرجنسی سروسز کے مطابق جنوبی یروشلم کے قریب گوش عتصیون کے ایک شاپنگ سینٹر کی پارکنگ میں فائرنگ کے واقعے کی اطلاع ملی۔ اسرائیل کی میگن ڈیوڈ آدوم ایمبولینس سروس نے ایک بیان میں کہا، ’’پیرامیڈکس نے جائے وقوعہ پر ایک 22 سالہ نوجوان کو گولیوں کے زخموں کے باعث مردہ قرار دے دیا۔‘‘
بیان کے مطابق، ’’دو دہشت گردوں کو آئی ڈی ایف (اسرائیلی فوج) اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں نے موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔‘‘
ایک مقامی عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہلاک ہونے والا شخص اسرائیلی شہری تھا۔ اسرائیلی فوج نے ایک علیحدہ بیان میں کہا کہ اس کے اہلکاروں نے ’’دو دہشت گردوں‘‘ کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جنہوں نے گوش عتصیون میں ’’فائرنگ اور چاقو سے حملہ کیا تھا۔‘‘
فوج نے مزید بتایا کہ حملے کے بعد فلسطینی قصبے حلحول کا محاصرہ کیا جا رہا ہے اور علاقے میں چیک پوسٹیں قائم کی جا رہی ہیں۔ اسرائیلی پولیس کے بیان کے مطابق، دونوں حملہ آور حلحول کے رہائشی تھے، جو کہ الخلیل (عبرون) کے قریب واقع ہے۔
’جنگ بندی معاہدے کے قریب، لیکن کچھ چیلنجز باقی‘
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے کہا ہے کہ وہ غزہ پٹی میں جنگ بندی کے امکانات کے حوالے سے ’پُرامید‘ ہیں اور مذاکرات کا موجودہ دور ’’ماضی کی نسبت معاہدے کے زیادہ قریب‘‘ دکھائی دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ فریقین اصولی شرائط پر متفق ہو چکے ہیں لیکن ان شرائط پر عمل درآمد کے حوالے سے بات چیت ابھی جاری ہے۔
روبیو نے یہ بیان جمعرات کے روز ملائشیا میں جنوب مشرقی ایشیائی ممالک (آسیان) کے اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم پُرامید ہیں، بظاہر ایسا لگتا ہے کہ عمومی طور پر شرائط پر اتفاق ہو چکا ہے، لیکن اب ان شرائط پر عمل درآمد کا معاملہ باقی ہے۔‘‘
انہوں نے اعتراف کیا کہ اس سے قبل بھی مذاکرات اسی مرحلے پر ناکام ہوتے رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا، ’’بنیادی رکاوٹوں میں سے ایک حماس کا ہتھیار ڈالنے سے انکار ہے، جو اگر ہو جائے تو یہ تنازعہ فوری طور پر ختم ہو سکتا ہے۔‘‘
روبیو کا مزید کہنا تھا، ’’اسرائیلیوں نے کچھ حد تک لچک دکھائی ہے۔‘‘ قطر، امریکہ اور مصر کی ثالثی میں ہونے والے ان بالواسطہ مذاکرات کا موجودہ دور جمعرات کو دوحہ میں پانچویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔
اگرچہ نومبر 2023 میں ایک ہفتے کی جنگ بندی اور جنوری 2025 میں دو ماہ کی عارضی سیزفائر ہو چکی ہے، لیکن دوحہ اور قاہرہ میں ہونے والے ان مذاکرات کے نتیجے میں تاحال کوئی پائیدار امن قائم نہیں ہو سکا۔
غزہ میں اسرائیلی حملے جاری، ایک دن میں 50 سے زائد ہلاکتیں
غزہ پٹی میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں جمعرات 10 جولائی کو بھی درجنوں ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ غزہ پٹی میں شہری دفاع کی ایجنسی کے مطابق اسرائیلی فضائی حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں 52 فلسطینی مارے گئے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آزادانہ طور پر ان ہلاکتوں کی تصدیق ممکن نہیں ہو سکی، کیونکہ اس جنگ زدہ ساحلی پٹی میں اسرائیل کی جانب سے میڈیا پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔
وسطی غزہ پٹی کے شہر دیر البلح میں یوسف العیدی نے بتایا کہ غذائی امداد کے لیے قطار میں لگے افراد کو ایک ڈرون کی آواز سنائی دی، اور پھر دھماکہ ہوا۔ انہوں نے کہا، ’’زمین ہمارے قدموں کے نیچے لرزنے لگی اور ہر طرف خون، چیخ و پکار اور دھواں چھا گیا۔‘‘
اس سے قبل جمعرات کو سول ڈیفنس ایجنسی کے اہلکار محمد المغیر نے بتایا تھا کہ دیر البلح میں کیے گئے حملے میں 12 افراد مارے گئے۔ ان میں آٹھ بچے اور دو خواتین بھی شامل تھیں۔
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023ء کو جنگ کے آغاز کے بعد سے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 57,680 فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
دوسری جانب اسرائیلی معلومات کی بنیاد پر اے ایف پی کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق سات اکتوبر 2023ء کو حماس کے حملوں میں اسرائیل میں 1,219 افراد ہلاک ہوئے۔
انہی حملوں کے دوران حماس نے مجموعی طور پر 251 افراد کو یرغمال بھی بنایا، جن میں سے 49 اب بھی غزہ میں ہیں، ان میں سے 27 کو اسرائیلی فوج مردہ قرار دے چکی ہے۔
اسرائیلی فوج کی موجودگی سے مشروط جنگ بندی ڈیل قبول نہیں، حماس
فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے کہا ہے کہ وہ کسی ایسی جنگ بندی ڈیل کو قبول نہیں کرے گی، جس میں غزہ پٹی میں اسرائیلی فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی شامل ہو۔ اس تنظیم کی جانب سے یہ بیان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب حماس نے غزہ پٹی میں موجود کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کی پیشکش کی ہے۔
اس سے قبل حماس نے بدھ کی رات کہا تھا کہ وہ سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر اپنے حملے کے دوران یرغمال بنائے گئے افراد میں سے 10 کو رہا کرنے پر رضامند ہے۔
قطر میں اتوار سے دونوں فریقوں کے درمیان بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں تاکہ ایک عارضی جنگ بندی پر اتفاق ہو سکے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اسے امید ہے کہ آئندہ چند دنوں میں 60 روزہ سیزفائر ممکن ہو سکے گی۔
تاہم حماس کا کہنا ہے کہ غزہ پٹی میں امداد کی آزادانہ رسائی اور اسرائیلی فوج کے انخلا پر اختلافات برقرار ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ پائیدار امن کے لیے ’’حقیقی ضمانتوں‘‘ کا مطالبہ بھی کر رہی ہے۔
حماس کے سینیئر رہنما باسم نعیم نے جمعرات کے روز خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئےکہا، ’’ہم اپنی سرزمین پر قبضے کے تسلسل اور اپنے لوگوں کو قابض فوج کے زیر انتظام الگ تھلگ علاقوں میں چھوڑے جانے کو قبول نہیں کر سکتے۔ یہی وہ موقف ہے جو مذاکراتی وفد اس وقت دوحہ میں جاری مذاکرات کے دوران اسرائیل کو پیش کر رہا ہے۔‘‘
نعیم نے مزید کہا کہ حماس کو خاص طور پر مصر کی سرحد پر واقع رفح اور جنوبی شہر خان یونس کے درمیان بنائے گئے ’مورگ کاریڈور‘ پر اسرائیلی کنٹرول پر بھی اعتراض ہے۔
اسرائیل نے رواں برس اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ پٹی میں کئی علاقوں کو اپنی فوجی تحویل میں لے رہا ہے اور وہاں سے آبادی کو نکال کر بفر زون بنا رہا ہے تاکہ حماس پر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔
نعیم نے یہ بھی کہا کہ ان کی تنظیم امداد کی ترسیل کے موجودہ امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ نظام کا بھی خاتمہ چاہتی ہے کیونکہ اس نظام کے تحت مدد کے متلاشی درجنوں فلسطینی شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
حماس نے تاحال یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کوئی ٹائم لائن نہیں دی اور نہ ہی ان نو افراد کی لاشوں کی واپسی سے متعلق کچھ کہا ہے جن کی ماضی میں ہلاکت کی اطلاع اسرائیل نے دی تھی۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے واشنگٹن کا اپنا دورہ مکمل کر لیا ہے، جہاں انہوں نے امریکی، اسرائیلی اور قطری نمائندوں کے درمیان ایک اہم ملاقات میں شرکت بھی کی۔
سعودی عرب میں رواں برس اب تک 100 سے زائد افراد کے سر قلم
سعودی عرب نے آج بروز جمعرات منشیات سے جڑے جرائم کے الزامات میں دو ایتھوپیائی شہریوں کو سزائے موت دے دی، جس کے بعد رواں سال اس خلیجی مملکت میں سزائے موت پانے والے غیر ملکیوں کی تعداد 101 ہو گئی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس اضافے کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
سعودی وزارت داخلہ کے مطابق دونوں ایتھوپیائی باشندوں کو منشیات کے الزامات میں موت کی سزا دی گئی۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2025 میں اس عرب بادشاہت میں اب تک مجموعی طور پر 189 افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے، جن میں سے 88 سعودی شہری تھے۔
2024ء میں غیر ملکیوں کو سزائے موت دیے جانے کے واقعات کی تعداد نومبر میں 100 سے تجاوز کر گئی تھی، جبکہ 2025 میں یہ حد جولائی میں ہی عبور کر لی گئی۔ سعودی عرب میں گزشتہ برس مجموعی طور پر 338 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی، جو 2023 میں 170 اور 2022 میں 196 کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے سزائے موت دیے جانے کے ان واقعات کی رواں ہفتے بھی شدید مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ یہ اقدام ’’غیر شفاف عدالتی عمل کے بعد سزائے موت کے وحشیانہ اور بے رحمانہ استعمال‘‘ کی عکاسی کرتا ہے۔
سعودی عرب نے تین سالہ غیر اعلانیہ پابندی کے بعد منشیات سے جڑے جرائم پر سزائے موت دینے کا دوبارہ آغاز 2022 ءکے آخر میں کیا تھا۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ سزائے موت عوامی نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے اور اس پر عمل درآمد صرف تمام اپیلیں خارج ہونے کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کی فلسطینی حقوق کی ماہر پر عائد کردہ امریکی پابندیوں کی مذمت
انسانی حقوق کے عالمی کارکنوں نے اقوام متحدہ کی اعلیٰ ماہر برائے فلسطینی حقوق فرانچیسکا البانیز کے حق میں آوازیں بلند کی ہیں، جن پر امریکا نے اسرائیل پر ’’غیر منصفانہ تنقید‘‘ کے الزام میں پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
اطالوی وکیل فرانچیسکا البانیز مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کی خصوصی وقائع نگار کے طور پر خدمات انجام دے رہی ہیں۔ وہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے ان درجنوں ماہرین میں شامل ہیں، جنہیں عالمی مسائل پر رپورٹنگ کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔
البانیز طویل عرصے سے فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیلی سلوک پر تنقید کرتی رہی ہیں اور رواں ماہ انہوں نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں 60 سے زائد کمپنیوں، بشمول چند امریکی اداروں، پر مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاری اور غزہ میں فوجی کارروائیوں کی حمایت کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بدھ کے روز اعلان کیا تھا کہ البانیز کو امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ان کے بقول ان کا کام ان ’’غیر قانونی کارروائیوں‘‘ کا سبب بن رہا ہے، جو بین الاقوامی فوجداری عدالت (آئی سی سی) میں اسرائیلیوں کے خلاف کی جا رہی ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق فولکر ترک نے واشنگٹن سے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کرنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا، ’’شدید اختلافات کی صورت میں بھی، اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو تعمیری اور بامقصد مکالمے کو ترجیح دینا چاہیے، نہ کہ انتقامی اقدامات کو۔‘‘
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے موجودہ صدر اور سوئٹزرلینڈ کے مستقل مندوب ژؤرگ لاؤبر نے بھی ان پابندیوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تمام ریاستوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے ماہرین کے خلاف ’’ڈرانے دھمکانے یا انتقامی اقدامات‘‘سے گریز کریں۔
یورپی یونین اور اسرائیل کے مابین غزہ میں امداد کی ترسیل بڑھانے پر اتفاق
یورپی یونین نے اسرائیل کے ساتھ غزہ پٹی میں انسانی صورتحال بہتر بنانے کے لیے ایک معاہدہ کر لیا ہے، جس میں امدادی ٹرکوں کی تعداد میں اضافہ، سرحدی راستوں اور مخصوص امدادی راہداریوں کو کھولنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ یہ بات یورپی یونین کی اعلیٰ ترین سفارت کار کایا کالاس نے آج جمعرات 10 جولائی کو اپنے ایک بیان میں کہی۔
کایا کالاس نے اس بیان میں کہا، ’’ان اقدامات پر ابھی یا آنے والے دنوں میں عمل درآمد کیا جائے گا، اس مشترکہ تفہیم کے ساتھ کہ بڑے پیمانے پر امداد براہ راست غزہ کی آبادی تک پہنچائی جانا چاہیے اور یہ یقینی بنانے کے لیے اقدامات جاری رہیں گے کہ یہ امداد حماس تک نہ پہنچے۔‘‘
اسرائیلی حملوں میں کم از کم 12 صحافی اور میڈیا کارکن ہلاک ہوئے، ایران
ایران نے جمعرات کے روز دعویٰ کیا کہ حالیہ ایران-اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 12 ایرانی صحافی اور میڈیا کارکن ہلاک ہوئے۔ یہ دعویٰ ایرانی سرکاری خبر رساں ادارے اِرنا نے کیا ہے۔
ایران کے پاسداران انقلاب کی ذیلی تنظیم ’’بسیج‘‘ کے میڈیا ونگ کے مطابق دو مزید میڈیا کارکنوں کی شناخت کے بعد ان ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 12 ہو گئی ہے۔ اس تنظیم نے اسرائیل پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر میڈیا انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا تاکہ ’’سچ کی آواز کو خاموش‘‘ کیا جا سکے اور ’’محاذ مزاحمت کے میڈیا‘‘ کو کچلا جا سکے، جو ایران اور اسرائیل مخالف اتحادی گروپوں پر مشتمل ہے۔
یہ اعلان ایک ایسے وقت پر سامنے آیا ہے جب حالیہ 12 روزہ جنگ کے ختم ہو چکے ہونے کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اس جنگ کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ جنگ 13 جون کو اسرائیل کے ایران پر اچانک حملے سے شروع ہوئی تھی، جس میں ایرانی فوجی تنصیبات، جوہری مراکز اور رہائشی علاقوں کو شدید بمباری کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
اسرائیل نے اس دوران شمالی تہران میں ایران کے ریاستی نشریاتی ادارے کو بھی نشانہ بنایا تھا۔ ایرانی حکام کے مطابق اسرائیلی عسکری کارروائیوں میں اعلیٰ فوجی کمانڈروں، جوہری سائنسدانوں اور سینکڑوں شہریوں سمیت مجموعی طور پر 1,060 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
جوابی حملوں میں ایران کی جانب سے داغے گئے ڈرونز اور میزائل حملوں میں اسرائیل میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہوئے، اور ان ہلاکتوں کی تصدیق اسرائیلی حکام نے بھی کر دی تھی۔
بحیرہ احمر میں حوثیوں کے حملے کے شکار بحری جہاز کے عملے کی تلاش جاری
یمن کے حوثی باغیوں کے ہاتھوں بحیرہ احمر میں ایک تجارتی بحری جہاز کے ڈوب جانے کے بعد جمعرات کے روز امدادی ٹیمیں عملے کے 13 سے زائد لاپتہ ارکان کی تلاش میں مصروف ہیں جبکہ امریکہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ باغیوں نے ممکنہ طور پر ان افراد کو اغوا کر لیا ہے۔ حوثی باغیوں کے گروپ نے لائبیریا کے پرچم بردار اور یونانی ملکیت والے جہاز ’’ایٹرنیٹی سی‘‘ کو نشانہ بنانے کی ویڈیو بھی جاری کی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاز پر کئی گھنٹوں تک گولہ باری اور دھماکہ خیز ڈرون حملے کیے گئے۔ ان حملوں میں جہاز کے عملے کے کم از کم تین ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔
اتوار کے روز حوثیوں کے ایک اور حملے میں ’’میجک سیز‘‘ نامی تجارتی جہاز کو بھی ڈبو دیا گیا تھا۔ دونوں واقعات حوثیوں کی جانب سے حملوں میں ایک نیا اور خطرناک رخ ظاہر کرتے ہیں۔ امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ حوثی ممکنہ طور پر ’’ایٹرنیٹی سی‘‘ کے عملے کے کچھ ارکان کو اغوا کر چکے ہیں۔ یورپی یونین کے بحیرہ احمر میں بحری مشن کے مطابق ایٹرنیٹی سی کے عملے میں 22 افراد شامل تھے، جن میں سے 21 فلپائنی تھے اور ایک روسی ملاح، جب کہ تین رکنی سکیورٹی ٹیم بھی اس بحری جہاز پر موجود تھی۔ بدھ کے روز امدادی کارکنوں نے پانچ فلپائنی ملاحوں اور ایک بھارتی محافظ کو سمندر سے بحفاظت نکال لیا تھا۔
خطے میں یہ کشیدگی ایک ایسے وقت پر بڑھ رہی ہے جب غزہ پٹی میں ممکنہ جنگ بندی اور ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق امریکہ اور تہران کے درمیان بات چیت کا مستقبل بھی غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔
غزہ میں قحط سے بچاؤ کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، جرمن وزیر خارجہ
وفاقی جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہول نے ویانا میں اپنے اسرائیلی ہم منصب گیدون سعار اور آسٹریا کی وزیر خارجہ بیاٹے مائنل رائزنگر سے ملاقات سے قبل اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ پٹی میں قحط کو روکنے کے لیے فوری اقدامات کرے اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
واڈےفیہول نے کہا کہ غزہ پٹی کے فلسطینیوں کو بھوک سے بچانا اسرائیل کی اخلاقی اور قانونی ذمہ داری ہے، اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پرکام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیموں کو فوری اور بلارکاوٹ رسائی دی جانا چاہیے تاکہ وہ ضرورت مندوں تک مدد پہنچا سکیں۔
جرمن وزیر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ پائیدار امن صرف اسی وقت ممکن ہے جب فلسطینیوں کو غزہ پٹی، مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ایک باعزت مستقبل کی ضمانت دی جائے، لیکن ان کے بقول ایسا حماس جیسے عسکریت پسند گروہوں کو شامل کیے بغیر کیا جانا چاہیے۔
واڈےفیہول نے کہا کہ حماس کو ہتھیار ڈال دینا چاہییں اور تمام یرغمالیوں کو رہا کر دینا چاہیے، جن میں کچھ جرمن شہری بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جرمنی غزہ پٹی میں جنگ بندی کی منزل کے حصول کے لیے اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھے گا۔
حوثی باغیوں کا میزائل حملہ ناکام بنا دیا، اسرائیل
یمن کے ایران نواز حوثی باغیوں نے جمعرات کو اسرائیل کے بین گورین ایئر پورٹ پر بیلسٹک میزائل حملے کی ذمہ داری قبول کر لی، جسے اسرائیلی فوج نے ناکام بنا دینے کا دعویٰ کیا ہے۔
حوثی باغیوں کے عسکری ترجمان یحییٰ سریع نے ایک ویڈیو بیان میں کہا، ’’حوثی فورسز نے ایک فوجی آپریشن کے تحت اسرائیل کے اہم ہوائی اڈے پر بیلسٹک میزائل داغا۔‘‘ دوسری جانب اسرائیلی فوج نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بتایا، ’’یمن سے داغا گیا ایک میزائل کامیابی سے تباہ کر دیا گیا۔‘‘
یاد رہے کہ اکتوبر 2023 میں غزہ کی جنگ کے آغاز کے بعد سے حوثی باغی اسرائیل اور بحیرہ احمر و خلیج عدن میں بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، جس کے جواب میں اسرائیل نے یمن کے مختلف علاقوں پر، بشمول بندرگاہی شہر الحدیدہ، کئی فضائی حملے بھی کیے۔ اسی ہفتے حوثیوں نے دو تجارتی بحری جہاز ڈبونے کی ذمہ داری بھی قبول کر لی۔ ان باغیوں کے تازہ حملوں نے امریکہ کے ساتھ مئی میں ہونے والی جنگ بندی کو خطرے میں ڈال دیا ہے، جو یمن میں حوثی اہداف پر حملوں کے کئی ہفتے بعد عمل میں آئی تھی۔
غزہ پٹی میں تازہ اسرائیلی حملوں میں مزید 23 فلسطینی ہلاک
غزہ پٹی میں حماس کے زیر انتظام سول ڈیفنس ایجنسی کے مطابق بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب دیر گئے کیے گئے اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 23 فلسطینی مارے گئے، جن میں آٹھ بچے بھی شامل ہیں۔ یہ حملے ایسے وقت پر کیے گئے، جب فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس نے قطر میں جاری بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات کے دوران 10 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔
سول ڈیفنس ایجنسی کے اہلکار محمد المغیر نے بتایا کہ تازہ بمباری وسطی اور جنوبی غزہ پٹی میں کی گئی اور یہ کہ سب سے ہلاکت خیز حملہ دیر البلح میں ہوا، جس میں 12 افراد مارے گئے۔ ان میں آٹھ بچے اور دو خواتین بھی شامل تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی طیاروں نے ایک طبی مرکز کے سامنے شہریوں کے اجتماع کو نشانہ بنایا۔
نصیرات مہاجر کیمپ پر ایک علیحدہ حملے میں دو، جب کہ بریج کیمپ پر حملے میں چار افراد ہلاک ہوئے۔ خان یونس کے علاقے المواصی میں خیموں میں رہنے والے پانچ افراد بھی اسرائیلی حملوں میں مارے گئے۔ اسرائیلی فوج نے فوری طور پر ان حملوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اے ایف پی کے مطابق میڈیا پر عائد پابندیوں کے باعث آزاد ذرائع سے اس جانی نقصان کی تصدیق ممکن نہ ہو سکی۔
ادارت: افسر اعوان، مقبول ملک