غزہ سٹی پر اسرائیلی قبضے کا منصوبہ، سلامتی کونسل کا اجلاس
وقت اشاعت 10 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 10 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- مقصد غزہ پر قبضہ نہیں، بلکہ اسے آزاد کرانا ہے، نیتن یاہو
- جرمن چانسلر کا اسرائیل کو اسلحے کی ترسیل روکنے کے فیصلے کا دفاع
- ٹرمپ پوٹن ملاقات: یورپ کی حمایت پر زیلینسکی شکر گزار
- جرمن اکثریت فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں، سروے
- غزہ سٹی پر اسرائیلی قبضے کا منصوبہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب
ادارت: کشور مصطفیٰ، شکور رحیم
حماس کو مکمل شکست دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، نیتن یاہو
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے پاس حماس کو مکمل طور پر شکست دینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
یروشلم میں غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے غزہ میں مجوزہ فوجی کارروائی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقصد غزہ پر قبضہ کرنا نہیں بلکہ اسے آزاد کرانا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ غزہ میں فوجی کنٹرول اور ایک غیر اسرائیلی انتظامیہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری جانب، غزہ میں امداد کے حصول کی کوشش میں آج کم از کم 26 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ طبی حکام کے مطابق، اموات غزہ کے مختلف حصوں میں امدادی قافلوں اور نجی امدادی مراکز کے قریب ہوئیں۔ غزہ کی ہیلتھ منسٹری کے مطابق، جنگ کے آغاز سے اب تک 100 بچے غذائی قلت سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ وزارت کے مطابق سات اکتوبر 2023ء کے بعد سے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائی میں اب تک 61 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں۔
ادھر اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ نے فوجی آپریشن کے خلاف احتجاج کے لیے ہڑتال کی کال دی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل میں ہزاروں افراد نے غزہ میں مزید فوجی آپریشن کے خلاف مظاہرے کیے، جس میں یرغمالیوں کے اہل خانہ نے بھی حصہ لیا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جنگ کو وسعت نہ دی جائے کیونکہ اس سے یرغمالیوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔
جرمن چانسلر کا اسرائیل کو اسلحے کی ترسیل روکنے کے فیصلے کا دفاع
جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اسرائیل کو کچھ ہتھیاروں کی ترسیل روکنے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے، جبکہ ان کے اپنے حامیوں کی جانب سے اس پر سخت تنقید کی جا رہی تھی۔
میرس نے جرمن براڈکاسٹر اے آر ڈی کو بتایا، ’’وفاقی جمہوریہ جرمنی 80 سالوں سے اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم اس ملک کو اپنا دفاع کرنے میں مدد جاری رکھیں گے۔‘‘
میرس نے جمعے کے روز کہا تھا کہ غزہ شہر پر قبضے کے اسرائیلی منصوبوں کے جواب میں جرمنی اسرائیل کو ایسی فوجی ساز و سامان کی برآمد روک دے گا جو غزہ پٹی میں استعمال ہو سکتا ہے۔
میرس کے ہتھیاروں کے اس جزوی embargo (پابندی) پر ان کی قدامت پسند سی ڈی یو پارٹی کے اراکین کی جانب سے شدید عوامی تنقید کی گئی، جس میں اس کی یوتھ آرگنائزیشن بھی شامل تھی، جس نے کہا کہ یہ اقدام جرمنی اور پارٹی کے بنیادی اصولوں سے انحراف ہے۔
چانسلر نے کہا کہ انہوں نے اتوار کو اسرائیلی صدر کو یقین دلایا ہے کہ جرمنی اپنی اسرائیل کے ساتھ روایتی دوستی کو ختم نہیں کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ’’ہمارے درمیان ایک اختلافی نکتہ ہے اور وہ غزہ پٹی میں اسرائیل کی فوجی کارروائی سے متعلق ہے۔ یہ ایسی چیز ہے جو دوستی برداشت کر سکتی ہے۔‘‘
حالیہ عرصے تک، جرمنی میں اسرائیل کو تمام سیاسی حلقوں میں وسیع حمایت حاصل رہی ہے، جرمنی ایک ایسا ملک ہے جو دوسری عالمی جنگ میں 60 لاکھ سے زائد یہودیوں کے قتل پر اب بھی تلافی کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
فرانس، برطانیہ اور کینیڈا کے برعکس، جرمنی کا ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، اس کا موقف ہے کہ فلسطینی ریاست کو صرف اسرائیلی- فلسطینی امن مذاکرات کے اختتام پر ہی تسلیم کیا جا سکتا ہے۔
لیکن غزہ میں بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال کے باعث حالیہ مہینوں میں میرس کا اسرائیل کے حوالے سے رویہ سخت ہو گیا ہے، اقوام متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ جنگ سے تباہ حال علاقے میں قحط کی صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔
انہوں نے اتوار کو اے آر ڈی کو بتایا کہ اگرچہ جرمنی اسرائیل کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ ’’ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ حکومت کا ہر فیصلہ اچھا ہے اور ہم فوجی امداد بشمول ہتھیار فراہم کرتے ہوئے اس کی حمایت کریں۔‘‘
ٹرمپ پوٹن ملاقات میں یوکرین کی شمولیت کی حمایت پر زیلنسکی یورپ کے شکر گزار
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلینسکی نے آج اتوار 10 اگست کو یورپی رہنماؤں کا شکریہ ادا کیا ہے کہ انہوں نے امریکی اور روسی سربراہی ملاقات میں یوکرین کی شرکت کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔
اس اہم اجلاس کے بارے میں کییف کو خدشہ ہے کہ امریکہ اور روس ساڑھے تین برس سے جاری یوکرین کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے اپنی شرائط طے کر سکتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپنے، جو کئی ہفتوں سے روس کے خلاف تنازعے کو روکنے میں ناکامی پر نئی پابندیوں کی دھمکی دے رہے تھے، جمعہ آٹھ اگست کو اعلان کیا کہ وہ 15 اگست کو الاسکا میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ ملاقات کریں گے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے ہفتے کے روز کہا کہ ٹرمپ زیلینسکی کی شرکت کے لیے تیار ہیں، لیکن فی الحال پوٹن کے ساتھ دوطرفہ ملاقات کی تیاریاں جاری ہیں۔
کریملن کے رہنما نے گزشتہ ہفتے زیلینسکی سے فوری ملاقات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ملاقات کی شرائط پوری ہونے کا عمل ’’بدقسمتی سے ابھی بہت دور‘‘ ہے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ایک ممکنہ معاہدے میں ’’دونوں (فریقوں) کی بہتری کے لیے کچھ علاقوں کا تبادلہ‘‘ شامل ہوگا۔ یہ ایک ایسا بیان تھا جس نے یوکرین کے اس خدشے کو بڑھا دیا کہ اسے مزید زمین حوالے کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ زیلینسکی کا کہنا ہے کہ یوکرین کے بغیر کیے گئے کوئی بھی فیصلے ’’مردہ‘‘ اور ناقابل عمل ہوں گے۔
ہفتہ نو اگست کو برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی، پولینڈ، فن لینڈ اور یورپی کمیشن کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ کسی بھی سفارتی حل کو یوکرین اور یورپ کے اہم سکیورٹی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ’’امن کا راستہ یوکرین کے بغیر طے نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ انہوں نے یوکرین کو اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرنے کی اجازت دینے کے لیے ’’مضبوط اور قابل اعتماد سکیورٹی ضمانتوں‘‘ کا مطالبہ بھی کیا۔
زیلینسکی نے آج اتوار کو کہا: ’’جنگ کا خاتمہ منصفانہ ہونا چاہیے اور میں ہر اس شخص کا شکر گزار ہوں جو آج یوکرین اور ہمارے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہے، یوکرین میں امن کی خاطر، جو ہماری یورپی اقوام کے اہم سکیورٹی مفادات کا دفاع کر رہا ہے۔‘‘
ایک یورپی عہدیدار نے کہا کہ یورپ نے ایک متبادل تجویز پیش کی ہے، لیکن تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ روسی عہدیداروں نے یورپ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ جنگ ختم کرنے کی ٹرمپ کی کوششوں کو ناکام بنانے کی کوششوں میں لگے ہیں۔
سابق روسی صدر دیمتری میدویدیف نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا، ’’یورپ کے فاتر العقل یوکرینی تنازعے کو حل کرنے میں مدد کے لیے امریکی کوششوں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
مجوزہ علاقائی تبادلے کی تفصیلات جس کا ٹرمپ نے حوالہ دیا تھا، کا سرکاری طور پر اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
جرمن اکثریت فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں، نوجوان آگے
جرمنی میں حکومت کی پالیسی کے برعکس، عوام کی اکثریت اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں ہے۔
جرمنی میں حکومت کی پالیسی کے برعکس، عوام کی اکثریت اب فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے حق میں ہے۔ یہ بات ایک نئے سروے میں سامنے آئی ہے جس نے جرمن سیاست میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
فورسا انسٹیٹیوٹ کی طرف سے کرائے جانے والے ایک تازہ سروے کے مطابق، 54 فیصد جرمن شہری چاہتے ہیں کہ جرمنی فوری طور پر فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 18 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں میں یہ حمایت سب سے زیادہ (60 فیصد) ہے۔
سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر #PalestineWillBeFree اور #GazaUnderAttack جیسے ہیش ٹیگز کے ساتھ پاکستان میں بھی اس مسئلے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آتا ہے۔
سروے کی اہم باتیں
- کل 1,001 افراد اس سروے میں شامل جو جولائی کے آخر میں کیا گیا۔
- مشرقی جرمنی میں 59 فیصد، جبکہ مغربی جرمنی میں 53 فیصد رائے دہندگان نے اس کی حمایت کی۔
- بائیں بازو کی پارٹی (ڈی لنکے) کے 85 فیصد ووٹرز، گرین پارٹی کے 66فیصد اور سوشل ڈیموکریٹس کے 52فیصد ووٹرز نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی حمایت کی۔
- حکومتی اتحادی جماعت CDU/CSU میں یہ حمایت 48 فیصد جبکہ دائیں بازو کی پارٹی AfD کے ووٹرز میں یہ حمایت 45 فیصد ریکارڈ کی گئی۔
جرمن حکومت کا موقف
جرمنی کی حکومت ابھی تک ’’دو ریاستی حل‘‘ کی حمایت کرتی ہے، جس میں اسرائیل اور فلسطین ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طریقے سے رہیں۔ تاہم، اس کا کہنا ہے کہ فلسطین کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرنا، امن مذاکرات کے آخری مرحلے کا حصہ ہونا چاہیے۔
عالمی صورتحال
اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے تقریباً 150 پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ غزہ میں اسرائیل کی جاری فوجی کارروائیوں اور ہزارہا ہلاکتوں کے بعد اب مزید ممالک بھی اس سمت میں قدم اٹھا رہے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمانویل ماکروں نے ستمبر میں اس اقدام کا اعلان کیا ہے، جبکہ کینیڈا اور برطانیہ نے بھی کچھ شرائط کے ساتھ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
یہ سروے اور عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت ظاہر کرتی ہے کہ مسئلہ فلسطین پر رائے عامہ تیزی سے بدل رہی ہے۔
غزہ سٹی پر اسرائیلی قبضے کا منصوبہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب
اسرائیل کے سکیورٹی کابینہ کی جانب سے غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے کی منظوری کے بعد عالمی سطح پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ اس سنگین صورتحال پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اتوار کو ایک ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
اسرائیل کے اس فیصلے کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرش نے اس منصوبے کو 22 ماہ سے جاری جنگ میں ایک ’’خطرناک پیشرفت‘‘ قرار دیا ہے۔
ڈنمارک، فرانس، یونان، برطانیہ اور سلووینیا سمیت سلامتی کونسل کے یورپی اراکین نے نیویارک میں فوری اجلاس بلانے کی درخواست کی تھی۔ سکیورٹی کونسل رپورٹ کے مطابق، امریکہ کے علاوہ تمام اراکین نے اس تجویز کی حمایت کی۔
اس اجلاس میں، جو صبح 10 بجے (پاکستانی وقت کے مطابق شام سات بجے) شروع ہوگا، رکن ممالک اپنے خیالات کا تبادلہ کریں گے۔ توقع ہے کہ اقوام متحدہ کے مندوبین غزہ کے مرکزی شہر پر قبضے کے ممکنہ نتائج کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دیں گے۔
اسرائیل کے اس فیصلے کے بعد، جرمنی، برطانیہ، اٹلی، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے مشترکہ طور پر اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔ ان ممالک نے اپنی اپنی وزارت خارجہ کے مشترکہ بیان میں خبردار کیا کہ یہ اقدام انسانی بحران کو مزید بگاڑ دے گا، یرغمالیوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالے گا اور اس سے بڑے پیمانے پر شہری بے گھر ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ دو ریاستی حل ہی اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔
اس صورتحال کے پیش نظر، جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اسرائیل کو ایسے فوجی ساز و سامان کی برآمد روک دی ہے جو غزہ میں استعمال ہو سکتا ہے۔