غزہ سٹی میں اسرائیلی پیش قدمی جاری
وقت اشاعت 4 ستمبر 2025آخری اپ ڈیٹ 4 ستمبر 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- غزہ سٹی میں اسرائیلی پیش قدمی، مزید ہلاکتیں اور نقل مکانی
- غزہ میں ’نسل کشی‘ یورپی یونین کی ناکامی، اعلیٰ یورپی عہدیدار
- پوپ لیو چہار دہم اور اسرائیلی صدر کی ملاقات، غزہ کی جنگ موضوع گفتگو
- پیرس سمٹ: یورپی رہنماؤں کا یوکرین کے لیے سکیورٹی ضمانتوں پر غور
- شمالی بھارت میں مون سون کی شدید بارشیں: 90 ہلاکتیں، لاکھوں شہری بے گھر
- جرمنی کی ایک مشرقی ریاست میں اے ایف ڈی سب سے آگے
- ایتھوپیا کا ڈیم خطے کے استحکام کے لیے خطرہ، مصر اور سوڈان
غزہ سٹی میں اسرائیلی پیش قدمی، مزید ہلاکتیں اور نقل مکانی
جمعرات کو غزہ سٹی میں اسرائیلی فوج کی پیش قدمی اور بمباری کی وجہ سے مزید سینکڑوں فلسطینی نقل مکانی پر مجبور ہو گئے جبکہ ہزارہا افراد انخلا کے اسرائیلی احکامات کے باوجود کھنڈرات میں رہنے پر مصر ہیں۔
غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق جمعرات کواسرائیلی حملوں میں مزید کم از کم 28 فلسطینی ہلاک ہو گئے، جن میں سے زیادہ تر غزہ سٹی کے رہائشی تھے۔ اسرائیلی افواج شہر کے نواحی علاقوں سے آگے بڑھتے ہوئے مرکز سے چند کلومیٹر کے فاصلے تک پہنچ گئی ہیں۔
یہ نئی عسکری مہم 10 اگست کو شروع ہوئی تھی، جسے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے ’’حماس کو ہمیشہ کے لیے شکست دینے‘‘ کا منصوبہ قرار دیا تھا۔ تاہم ممکنہ شدید انسانی بحران کے باعث اس اسرائیلی کارروائی پر عالمی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے جبکہ خود اسرائیل میں بھی عسکری حکمت عملی پر اختلافات سامنے آ رہے ہیں۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوجنے زیتون اور شجاعیہ کے علاقوں کو نشانہ بنایا جبکہ ٹینک شیخ رضوان نامی علاقے کے مشرقی حصے تک پہنچ گئے، جس سے مکانات تباہ ہو گئے اور خیمہ بستیوں میں آگ لگ گئی۔
غزہ سٹی، جو جنگ سے پہلے دس لاکھ کی آبادی پر مشتمل تھا، اب کھنڈرات میں بدل چکا ہے۔ اسرائیل نے مقامی باشندوں کو دوبارہ انخلا کے احکامات دیے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ 70 ہزار لوگ جنوب کی طرف جا چکے ہیں، لیکن فلسطینی حکام کے مطابق یہ تعداد اس کے نصف سے بھی کم ہے اور اب بھی ہزاروں لوگ اسرائیلی پیش قدمی کے راستے میں ہیں۔
غزہ میں ’نسل کشی‘ یورپی یونین کی ناکامی، اعلیٰ یورپی عہدیدار
یورپی یونین کی اعلیٰ عہدیدار اور یورپی کمیشن کی نائب صدر ٹیریسا ریبیرا نے غزہ پٹی کی جنگ کو ’’نسل کشی‘‘ قرار دیتے ہوئے اسرائیل پر کڑی تنقید کی ہے۔ پیرس میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’غزہ میں نسل کشی یورپ کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ مؤثر اقدام نہیں کر سکا اور نہ ہی ایک آواز میں بول سکا۔‘‘
انہوں نے 27 رکنی یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ فوری اور مشترکہ موقف اختیار کرے تاکہ خونریزی کو روکا جا سکے۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ پٹی میں قحط کا باقاعدہ اعلان تو کیا گیا ہے اور یہ عالمی ادارہ اسرائیل پر جنگ بندی پر زور بھی دیتا رہا ہے، تاہم اب تک غزہ میں جاری لڑائی کے لیے ’’نسل کشی‘‘ کی اصطلاح باقاعدہ طور پر استعمال نہیں کی گئی۔
یورپی یونین بھی حالیہ کچھ عرصے میں اسرائیل پر دباؤ میں اضافہ کر رہی ہے، تاہم یہاں بھی غزہ پٹی میں جاری اسرائیلی کارروائیوں کو باقاعدہ طور پر ’’نسل کشی‘‘ قرار نہیں دیا گیا۔
عالمی عدالت برائے انصاف اس جنگ کی بابت جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے کی سماعت کر رہی ہے، جس میں جنوبی افریقہ نے غزہ پٹی میں اسرائیلی کارروائیوں کو ’’نسل کشی‘‘ قرار دینے کی استدعا کی ہے۔
جرمنی کی ایک مشرقی ریاست میں اے ایف ڈی سب سے آگے
ایک تازہ سروے کے مطابق جرمنی کی مشرقی ریاست سیکسنی انہالٹ میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی یا اے ایف ڈی واضح برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ انفراٹیسٹ پولنگ انسٹیٹیوٹ کے ایک تازہ عوامی جائزے کے مطابق اس صوبے کے 39 فیصد عوام اے ایف ڈی کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ کرسچن ڈیموکریٹس کی جماعت CDU کو 27 فیصد عوام کی حمایت حاصل ہے۔
وہاں ریاستی پارلیمان کے انتخابات ستمبر 2026 میں ہوں گے۔ اس صوبے میں موجودہ حکومت CDU، سوشل ڈیموکریٹس یا SPD اور فری ڈیموکریٹس یا FDP پر مشتمل ہے، تاہم CDU کے موجودہ وزیر اعلیٰ رائنر ہازےلوف اعلان کر چکے ہیں کہ وہ دوبارہ اس عہدے کے لیے امیدوار نہیں ہوں گے۔ اس سے بھی اے ایف ڈی کو مزید جگہ بنانے کا موقع مل سکتا ہے۔
اے ایف ڈی نے 2021 کے انتخابات میں 21 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے، مگر اب اس کی مقبولیت تیزی سے بڑھی ہے، حالانکہ اس ریاست میں اس جماعت کو جرمن انٹیلیجنس سروسز ’’دائیں بازو کی انتہا پسند‘‘ تنظیم قرار دے چکی ہیں۔
گزشتہ سال پڑوسی وفاقی ریاست تھیورنگیا میں اے ایف ڈی نے پہلی مرتبہ انتخابات جیتے تھے، لیکن وہ اب تک کسی بھی صوبائی حکومت کا حصہ نہیں بن سکی کیونکہ دیگر جماعتیں اس کے ساتھ اتحاد سے انکار کرتی رہی ہیں۔
اے ایف ڈی کی رہنما ایلس وائیڈل کا کہنا ہے کہ اب سیکسنی انہالٹ ہی نہیں بلکہ جرمنی کے دیگر حصوں میں بھی ’’اے ایف ڈی کے بغیر حکومت بنانا ممکن نہیں رہے گا۔‘‘
قومی سطح پر اے ایف ڈی جرمنی کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ہے، جس نے فروری 2025 کے وفاقی پارلیمانی انتخابات میں 20 فیصد سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے۔
ایتھوپیا کا ڈیم خطے کے استحکام کے لیے خطرہ، مصر اور سوڈان
مصر اور سوڈان نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ایتھوپیا کا دریائے نیل پر متنازعہ میگا ڈیم خطے کے استحکام کے لیے مسلسل خطرہ ہے۔ دونوں ممالک کے مطابق یہ ڈیم بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے اور اس کے سنگین نتائج مصر اور سوڈان پر پڑ سکتے ہیں۔
بیان کے مطابق خطرات کی بنیادی وجہ ایتھوپیا کے یک طرفہ اقدامات ہیں، جن میں ڈیم کو بھرنے اور چلانے کا فیصلہ شامل ہے، جبکہ ڈیم کی حفاظت، اضافی پانی کے اخراج اور خشک سالی کے دوران پانی کے انتظام پر بھی خدشات ظاہر کیے گئے ہیں۔
مصر اور سوڈان نے زور دیا کہ ان کی واٹر سکیورٹی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے، اور وہ مشرقی نیل میں کسی بھی یک طرفہ اقدام کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔
یہ ڈیم 2011 میں تعمیر کے آغاز سے ہی تنازعے کی وجہ بنا ہوا ہے۔ ایتھوپیا اسے اپنی ترقی کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ یہ منصوبہ لاکھوں شہریوں کو بجلی فراہم کرے گا۔ ایتھوپیا نے 2020 سے 2024 تک پانچ مراحل میں اس ڈیم کو بھر لیا اور اب 9 ستمبر کو اس کا افتتاح کرنے جا رہا ہے۔
دوسری جانب مصر اسے اپنے وجود کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے اور خدشہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ڈیم دریائے نیل کے پانی میں اس کے حصے کو محدود کر دے گا۔
پوپ لیو چہار دہم اور اسرائیلی صدر کی ملاقات، غزہ کی جنگ موضوع گفتگو
ویٹیکن میں پوپ لیو چہار دہم اور اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ کی ملاقات ہوئی، جس میں غزہ سٹی پر اسرائیل کے مجوزہ فوجی حملے، یرغمالیوں کی رہائی اور مشرق وسطیٰ میں مسیحی برادریوں کے تحفظ پر گفتگو کی گئی۔
صدر ہرزوگ کے دفتر کی جانب سے ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ ملاقات پوپ کی دعوت پر ہوئی لیکن ویٹیکن نے وضاحت کی کہ ملاقات دراصل اسرائیلی صدر کی درخواست پر طے پائی تھی۔ اسرائیلی صدر کا منصب زیادہ تر علامتی نوعیت کا ہے، تاہم وہ اتحاد اور مصالحت کی اپیل کرتے رہے ہیں۔
حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں اپنے حملے کے دوران 1200 سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ 251 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا، جن میں سے بیشتر رہائی پا چکے ہیں۔ تقریباً 50 یرغمالی اب بھی غزہ پٹی میں موجود ہیں۔
ویٹیکن سٹی نے اب تک غزہ کی جنگ کے دوران غیر جانب دار رہنے کی پالیسی اپنائی ہے، مگر ماضی میں پوپ فرانسس اور ان کے موجودہ جانشین لیو چہار دہم دونوں اسرائیلی حملوں کو ’’غیر اخلاقی‘‘ اور ’’اجتماعی سزا‘‘ قرار دیتے رہے ہیں۔ پوپ لیو نے حال ہی میں مستقل جنگ بندی، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی اور بین الاقوامی انسانی قوانین کے احترام کا مطالبہ کیا۔
اسرائیل نسل کشی کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ وہ صرف عسکری اہداف کو نشانہ بناتا ہے اور شہری ہلاکتوں کی ذمہ داری حماس پر عائد ہوتی ہے۔
پیرس سمٹ: یورپی رہنماؤں کا یوکرین کے لیے سکیورٹی ضمانتوں پر غور
پیرس میں جمعرات کو یورپی رہنماؤں اور یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کی ملاقات ہوئی، جس میں روس کے ساتھ ممکنہ امن معاہدے کی صورت میں کییف کو سکیورٹی ضمانتیں دینے پر غور کیا گیا۔ ان ضمانتوں کی تفصیلات ابھی پوشیدہ ہیں، مگر ان میں ممکنہ طور پر یوکرینی فوج کی تربیت میں اضافہ اور بعض یورپی ممالک کی جانب سے یوکرین میں فوج تعینات کرنے کے امکانات شامل ہیں۔ اس پر روس کی جانب سے شدید برہمی ظاہر کی گئی ہے۔
یہ اقدام فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی قیادت میں کیا جا رہا ہے تاکہ یورپ یہ دکھا سکے کہ وہ واشنگٹن کے اثر سے آزاد ہو کر فیصلے کر سکتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت ماکروں اور برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر نے کی جبکہ امریکا کی نمائندگی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کر رہے ہیں۔
جرمنی نے واضح کیا ہے کہ یوکرین میں جرمن فوجی نہیں بھیجے جائیں گے، البتہ فضائی دفاع اور زمینی افواج کی تیاری میں مدد دی جائے گی۔ صدر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے تاحال جنگ ختم کرنے کے کوئی اشارے نہیں ملے۔
دوسری جانب روسی صدر پوٹن نے عندیہ دیا ہے کہ اگر معاہدہ نہ ہوا، تو روس اپنے اہداف فوجی طاقت سے حاصل کرے گا۔
نیٹو کے سربراہ مارک رُٹے نے روسی موقف پر ردعمل میں کہا کہ یورپ کیا کرے گا، اس کا فیصلہ روس نہیں کر سکتا۔
شمالی بھارت میں مون سون کی شدید بارشیں: 90 ہلاکتیں، لاکھوں شہری بے گھر
بھارت کے شمالی حصے مون سون کی شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی لپیٹ میں ہیں، جہاں حکام کے مطابق گزشتہ چند ہفتوں میں کم از کم 90 افراد ہلاک اور لاکھوں شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔
ہمالیائی خطے کی ریاستیں اتراکھنڈ، ہماچل پردیش، جموں و کشمیر اور پنجاب مون سون بارشوں کے رواں سیزن میں زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔ دہلی اور اس کے گرد و نواح میں بھی دریائے جمنا کے کنارے پانی خطرناک سطح سے اوپر چلا گیا ہے اور ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔
بھارتی صوبہ پنجاب ملک کا اہم زرعی خطہ ہے اور وہاں بھی سیلاب اور شدید بارشوں سے کھڑی فصلیں اور مویشی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ ریاستی حکام کے مطابق شدید بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے کم از کم 30 افراد ہلاک اور تین لاکھ متاثر ہو چکے ہیں۔ کسانوں کا کہنا ہے کہ کروڑوں روپے مالیت کی فصلیں پانی میں ڈوب گئی ہیں، جبکہ حکومتی امداد ناکافی ہے۔
ماہرین کے مطابق موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مون سون کا موسم غیر متوقع اور زیادہ خطرناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے اور آنے والے ہفتوں میں شدید بارشیں جاری رہنے کا خدشہ ہے۔ جنوبی ایشیا، جو دنیا کے گنجان آباد ترین خطوں میں سے ہے، ایسے ماحولیاتی خطرات کے حوالے سے سب سے زیادہ حساس ہے۔
پاکستان میں بھی حالیہ مہینوں میں ساڑھے چوبیس لاکھ افراد مون سون کے دوران سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور 10 لاکھ سے زائد محفوظ مقامات پر منتقل کیے گئے ہیں۔