غزہ: امداد کے منتظر فلسطینیوں پر فائرنگ، 16 ہلاک
وقت اشاعت 26 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 26 جولائی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- برطانیہ کا اردن کے ساتھ مل کر غزہ میں فضائی امداد اور بیمار بچوں کے انخلا کا منصوبہ
- سالزبرگ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں فلسطین کے حق میں مظاہرہ
- غزہ پر اسرائیلی حملوں میں مزید 11 فلسطینی ہلاک
- شامی شہر سویدا میں خاموش سڑکیں، جلی عمارتیں اور بکھری لاشیں
- ایرانی صوبے سیستان-بلوچستان میں عدالت پر حملے میں چھ افراد ہلاک
- غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں، نیتن یاہو
غزہ: امداد کے منتظر فلسطینیوں پر فائرنگ، 16 ہلاک
غزہ پٹی میں واقع شفا ہسپتال کے ڈاکٹروں کے مطابق اسرائیلی فوج نے ہفتے کے روز امدادی سامان کے منتظر شہریوں پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں 16 فلسطینی ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہو گئے۔
یہ واقعہ غزہ پٹی کے شمالی علاقے میں زیکم سرحدی گزرگاہ کے قریب پیش آیا، جہاں فلسطینی شہری امدادی ٹرکوں کے منتظر تھے۔ اسرائیلی فوج نے اس واقعے پر تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا اور ابتدائی طور پر ان اطلاعات کی آزادانہ تصدیق ممکن نہیں ہو سکی۔
ماضی میں بھی غزہ میں امداد کی تقسیم کے دوران یا سرحدی گزرگاہوں کے قریب انتظار کرنے والے شہریوں پر فائرنگ کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔
حال ہی میں اسرائیل اور اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ ایک متوازی امدادی تنظیم ’’غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ (جی ایچ ایف) نے امدادی سرگرمیاں شروع کی ہیں لیکن فلسطینی میڈیا میں بارہا ان مراکز پر اسرائیلی حملوں کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ ان مراکز کی نگرانی امریکی نجی سکیورٹی کمپنیوں کے سپرد ہے۔
اسرائیلی فوج کا مؤقف ہے کہ وہ صرف اُن افراد پر گولی چلاتی ہے، جو بغیر اجازت فوجی چوکیوں کے قریب آتے ہیں یا ممنوعہ علاقوں میں داخل ہوتے ہیں۔ تاہم اقوام متحدہ کے مطابق مئی کے آخر سے اب تک جی ایچ ایف کے مراکز پر ہونے والے واقعات میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
جی ایچ ایف کی تشکیل اسرائیل نے اس دلیل کے تحت کی تھی کہ اقوام متحدہ کے سابقہ 400 امدادی مراکز سے حماس امداد کا رخ اپنی جانب موڑ رہی تھی۔ اب یہ مراکز تقریباً غیر فعال ہیں کیونکہ اسرائیل نے ان کے لیے رسد کی فراہمی تقریباً بند کر رکھی ہے۔
بین الاقوامی امدادی تنظیمیں غزہ کی صورت حال کو’’تباہ کن‘‘ قرار دے رہی ہیں۔ خوراک کی شدید قلت کے باعث زیادہ تر آبادی بھوک کا شکار ہے۔ مقامی محکمہ صحت کے مطابق اب تک غذائی قلت سے 100 سے زائد اموات ہو چکی ہیں، جن میں 80 فیصد بچے ہیں۔
اسرائیل غزہ میں قحط کی موجودگی سے انکار کرتا ہے اور اقوام متحدہ پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ امدادی سامان کی مؤثر تقسیم میں ناکام ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج امدادی قافلوں کو محفوظ نقل و حرکت کی اجازت نہیں دیتی.
برطانیہ کا اردن کے ساتھ مل کر غزہ میں فضائی امداد اور بیمار بچوں کے انخلا کا منصوبہ
برطانوی وزیرِاعظم کیئر سٹارمر نے تصدیق کی ہے کہ برطانیہ، اردن کے ساتھ مل کر غزہ میں امدادی سامان کی فضائی ترسیل اور طبی امداد کے منتظر بچوں کے انخلا کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
یہ اعلان ہفتے کو فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور جرمن چانسلر فریڈرش مَیرس کے ساتھ سٹارمر کی ہنگامی گفتگو کے بعد سامنے آیا، جو غزہ میں قحط کا شکار آبادی کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی غم و غصے کے تناظر میں کی گئی۔
برطانوی حکومت کی جانب سے جاری کردہ گفتگو کے خلاصے میں کہا گیا ہے کہ رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کیا ، ’’فوری طور پر درکار جنگ بندی کو پائیدار امن میں بدلنے کے لیے مضبوط منصوبہ بندی نہایت اہم ہو گی۔‘‘
بیان کے مطابق وزیرِاعظم سٹارمر نے بتایا، ’’برطانیہ اردن جیسے شراکت داروں کے ساتھ مل کر امداد کی فضائی ترسیل اور طبی امداد کے منتظر بچوں کے انخلا کے منصوبوں کو عملی شکل دینے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔‘‘
سالزبرگ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب میں فلسطین کے حق میں مظاہرہ
آسٹریا میں 2025 کے سالزبرگ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب ہفتے کو اُس وقت تعطل کا شکار ہو گئی، جب فلسطین کے حامی مظاہرین نے تقریب کے دوران احتجاج کیا۔
مظاہرین نے’’تمہارے ہاتھوں پر خون ہے‘‘ جیسے نعرے لگائے اور ’’نسل کشی بند کرو‘‘ کے بینرز لہرائے۔ اس دوران آسٹریا کے نائب چانسلر آندریاس بیبلر، جو ثقافت کے نگران بھی ہیں، نے اپنی تقریر روک دی۔ سکیورٹی اہلکاروں نے مظاہرین کو ہال سے باہر نکالا، تاہم بیبلر نے انہیں ’’کھلے مکالمے‘‘کی پیشکش بھی کی۔
تقریب میں آسٹریا کے صدر الیگزینڈر فان ڈیر بیلین بھی شریک تھے۔ افتتاحی خطاب امریکی پولش مؤرخ این ایپل بام نے کیا، جنہوں نے غزہ میں قحط زدہ بچوں کی تصاویر پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی قوانین کا احترام کرے۔
یہ مظاہرہ یورپ بھر میں ہونے والے ان درجنوں احتجاجی مظاہروں میں سے ایک تھا، جو غزہ کی ابتر صورت حال اور انسانی امداد تک رسائی میں مشکلات پر آواز بلند کر رہے ہیں۔ ان مظاہروں کی بازگشت یورپی میڈیا میں بھی نمایاں ہے۔
غزہ پر اسرائیلی حملوں میں مزید 11 فلسطینی ہلاک
غزہ میں حماس کے زیر انتظام شہری دفاع کی ایجنسی نے بتایا ہے کہ اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں ہفتے کے روز مزید 11 فلسطینی ہلاک ہو گئے جبکہ جنوبی شہر رفح کے قریب اسرائیلی بمباری میں ہلاک ہونے والے 12 افراد کی لاشیں بھی نکال لی گئی ہیں۔
شہری دفاع کے ترجمان محمود باسل نے اے ایف پی کو بتایا کہ غزہ شہر کے شمالی علاقے الرِمال میں ایک فضائی حملے میں چار افراد مارے گئے جبکہ غزہ شہر کے شمال مغرب میں امدادی سامان کے منتظر افراد پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا۔
عینی شاہدین کے مطابق ہزاروں لوگ امداد کے لیے اس علاقے میں جمع تھے، جب اسرائیلی فوج نے زیکیم کے قریب ایک فوجی چیک پوسٹ کے نزدیک فائرنگ کر دی۔ شہری دفاع کے مطابق ایک اور شخص جنوبی شہر خان یونس کے قریب ڈرون حملے میں اور ایک وسطی غزہ کے البریج کیمپ میں توپ خانے کی گولہ باری سے مارا گیا۔
جب اے ایف پی نے اس حوالے سے اسرائیلی فوج سے سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ تاہم، ایک علیحدہ بیان میں فوج نے کہا کہ وہ غزہ میں اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے اور ’’ایک دہشت گرد سیل‘‘ کے افراد کو ہلاک کیا گیا ہے، جس پر اسرائیلی فوجیوں کے خلاف دھماکا خیز مواد نصب کرنے کا الزام ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں میں فضائیہ نے غزہ بھر میں 100 سے زائد ’’دہشت گرد اہداف‘‘ کو نشانہ بنایا ہے۔
محمود باسل نے اے ایف پی کو مزید بتایا کہ اقوام متحدہ کے انسانی امور کے دفتر (اوچا) کے تعاون سے شہری دفاع کی ٹیموں نے رفح کے شمال میں مورَگ کاریڈور کے علاقے سے 12 افراد کی لاشیں نکالیں، جنہیں بعد ازاں خان یونس کے ناصر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔
غزہ میں میڈیا پر پابندیوں اور متعدد علاقوں تک رسائی کی مشکلات کے باعث اے ایف پی ان معلومات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکی۔
شامی شہر سویدا میں خاموش سڑکیں، جلی عمارتیں اور بکھری لاشیں
شام کے جنوبی صوبے سویدا کے دارالحکومت کی فضا سڑتی ہوئی لاشوں کی بدبو سے اٹی پڑی ہے۔ جہاں کبھی چہل پہل تھی، اب وہاں سناٹا ہے۔ سڑکیں سنسان ہیں، چند افراد ہی دبے قدموں وہاں سے گزر رہے ہیں۔ کئی علاقوں میں تباہی اس قدر شدید ہے کہ عمارتیں اور گاڑیاں مکمل طور پر جَل کر سیاہ ہو چکی ہیں۔
ایک بینک کی شاخ میں شیشے ٹوٹ کر فرش پر بکھرے ہیں اور الارم مسلسل بج رہا ہے۔ دیواروں پر مخالف گروہوں کے نعرے اور گرافٹی واضح طور پر حالیہ تصادم کی یاد دلاتے ہیں۔
یہ وہ مناظر ہیں، جن کی خبر امریکی خبر رساں دارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے جمعے کو پہلی بار سویدا شہر میں داخل ہونے والے ایک صحافی نے دی۔ 13 جولائی کو شروع ہونے والی جھڑپوں کے بعد اس شہر میں جزوی طور پر جنگ بندی نافذ ہے۔
اے پی سے وابستہ اس صحافی کے مطابق شہر میں داخل ہوتے ہی تباہی کے مناظر قدم قدم پر ملتے ہیں۔ گھروں اور دکانوں میں خاموشی طاری ہے، اور رہائشی اپنی زندگیوں کو دوبارہ جوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یہ تباہی دو ہفتے قبل اُس وقت شروع ہوئی جب مسلح بدو قبائل اور دروز مذہبی اقلیت کے جنگجوؤں کے درمیان ایک دوسرے کو اغوا کرنے کی کارروائیوں کے بعد جھڑپیں شروع ہوئیں۔ اس خونریز تصادم میں سینکڑوں افراد مارے گئے اور شام کے جنگ کے بعد کے نازک حالات مزید بکھرنے لگے۔
شامی سرکاری افواج نے بظاہر امن قائم کرنے کے لیے مداخلت کی لیکن عملی طور پر وہ بدو قبائل کے ساتھ کھڑی دکھائی دیں۔ مقامی اطلاعات کے مطابق کچھ حکومتی اہلکاروں نے دروز شہریوں کو لوٹا اور بعض کو قتل بھی کیا۔
سویدا، جو دروز برادری کا گڑھ ہے، طویل عرصے سے جنگ سے نسبتاﹰ محفوظ رہا تھا۔ تاہم حالیہ جھڑپوں نے مقامی آبادی کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے۔ دروز کمیونٹی کے افراد شامی حکومت پر جانبداری اور عدم تحفظ کا الزام لگا رہے ہیں۔
اگرچہ جنگ بندی قائم ہے، لیکن فریقین کے درمیان کشیدگی اب بھی برقرار ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شامی حکومت غیر جانب دار کردار ادا نہ کر سکی تو یہ علاقہ مزید بدامنی کا شکار ہو سکتا ہے۔ شہری تحفظ اور مصالحتی اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں، ورنہ شام میں جاری بدامنی ایک اور محاذ کھول سکتی ہے۔
غزہ میں جنگ بندی مذاکرات کے متبادل راستے تلاش کر رہے ہیں، نیتن یاہو
اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کی حکومت حماس کے ساتھ جنگ بندی مذاکرات کے متبادل راستے تلاش کر رہی ہے۔ ان کا یہ بیان جمعے کے روز ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے، جب اسرائیل اور امریکہ نے قطر میں جاری مذاکرات سے اپنے وفود واپس بلا لیے ہیں، جس کی وجہ سے مذاکرات کے مستقبل پر مزید غیر یقینی کے سائے منڈلانے لگے ہیں۔
حماس کا کہنا ہے کہ مذاکرات آئندہ ہفتے دوبارہ شروع ہونے کی توقع ہے اور اس نے اسرائیلی اور امریکی وفود کی واپسی کو محض دباؤ ڈالنے کی حکمت عملی قرار دیا ہے۔ مصر اور قطر، جو امریکہ کے ساتھ مل کر ثالثی کا کردار ادا کر رہے ہیں، نے بھی کہا ہے کہ یہ تعطل عارضی ہے اور مذاکرات دوبارہ ہوں گے تاہم اس کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی گئی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے جمعرات کو قطر میں موجود امریکی وفد کے انخلا کے بعد کہا کہ حماس کے تازہ ردعمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جنگ بندی میں سنجیدہ نہیں۔ ان کے بقول امریکہ اب ’’متبادل راستوں‘‘ پر غور کر رہا ہے، تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی۔
اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے بیان میں وٹکوف کی بات کو دہراتے ہوئے کہا، ’’حماس یرغمالیوں کی رہائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہم اپنے امریکی اتحادیوں کے ساتھ مل کر اب ایسے متبادل طریقے تلاش کر رہے ہیں، جن سے یرغمالیوں کو واپس لایا جا سکے، حماس کی دہشت گردی کا خاتمہ ہو، اور اسرائیل و خطے میں دیرپا امن قائم کیا جا سکے۔‘‘
خطے کے ماہرین اس ڈیڈ لاک کو انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں، کیونکہ مذاکراتی عمل کے مکمل طور پر ختم کی صورت میں ایک نئی اور بڑی جنگ چھڑنے کا خدشہ ہے، جس کے اثرات اسرائیل، فلسطین کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ممالک تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔
اسرائیلی حکومت نے فوری طور پر یہ واضح نہیں کیا کہ آیا مذاکرات آئندہ ہفتے واقعی دوبارہ شروع ہوں گے یا نہیں۔ یہ تعطل ایسے وقت پر آیا ہے، جب غزہ میں انسانی بحران سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اسرائیلی محاصرے اور خوراک کی شدید قلت کے باعث علاقے کو قحط جیسے حالات کا سامنا ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے یا تو خوراک مکمل طور پر بند ہے یا انتہائی محدود مقدار میں داخل ہونے دی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے مطابق یہ حکمت عملی حماس کو پہنچنے والی امداد کو روکنے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد مغربی ممالک حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں۔
رواں ماہ غذائی قلت کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ رپورٹ ہوا ہے، جس سے عالمی اداروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر انسانی حقوق کی تنظیمیں بارہا اسرائیل سے مطالبہ کر چکی ہیں کہ وہ انسانی امداد کی فراہمی یقینی بنائے، مگر حالات بدستور ابتر ہو رہے ہیں۔
ایرانی صوبے سیستان-بلوچستان میں عدالت پر حملے میں چھ افراد ہلاک
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق جنوب مشرقی صوبے سیستان-بلوچستان میں نامعلوم مسلح افراد نے ہفتے کے روز ایک عدالت کی عمارت پر فائرنگ اور دستی بموں سے حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں ایک بچے سمیت چھ افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے۔
سرکاری نشریاتی ادارے کے مطابق سکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے تین حملہ آوروں کو موقع پر ہی ہلاک کر دیا۔ یہ حملہ صوبائی دارالحکومت زاہدان میں کیا گیا ، جو تہران سے 1,130 کلومیٹر (700 میل) جنوب مشرق میں واقع ہے۔ پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں نے جائے وقوعہ کو فوری طور پر گھیرے میں لے لیا۔
ایرانی سکیورٹی اداروں کے قریب سمجھی جانے والی نیم سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم نے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کے پیچھے شدت پسند گروہ ’’جیش العدل‘‘ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ یہ گروہ ایران کے مشرقی علاقے سیستان اور پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک چلا رہا ہے۔
سیستان بلوچستان افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں سے متصل ہے اور یہ خطہ طویل عرصے سے بدامنی، منشیات کی اسمگلنگ اور مسلح گروہوں کی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے۔ اکتوبر 2024 میں اسی صوبے میں ایرانی پولیس قافلے پر حملے میں کم از کم 10 اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
یہ علاقہ ایران کے پسماندہ ترین حصوں میں شمار ہوتا ہے، جہاں سنی مسلم آبادی اکثریت میں ہے، جبکہ ایران کی حکومت شیعہ مسلک پر مبنی ملائیت پر قائم ہے۔ اس فرقہ وارانہ تناؤ نے ماضی میں بھی کئی مواقع پر خونریز جھڑپوں کو جنم دیا ہے۔
پس منظر
جیش العدل ماضی میں بھی ایران کے سکیورٹی اداروں کو نشانہ بناتی رہی ہے اور اس پر الزام ہے کہ وہ بیرونی حمایت یافتہ ہے۔ ایران اس گروہ کو دہشت گرد قرار دیتا ہے۔ سکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے کی پیچیدہ جغرافیائی، نسلی اور فرقہ وارانہ صورتحال ان حملوں کے محرکات میں شامل ہے۔
ترقی کے فقدان اور سکیورٹی چیلنجز کے درمیان یہ حملہ ایران کے لیے ایک اور خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتا ہے، خصوصاً ایسے وقت میں جب خطے میں سیاسی اورسلامتی کے امور سے متعلق جاری کشیدگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔