عشق کا شین قاف
31 اکتوبر 2020میں اب کام کے ساتھ ساتھ گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔ لوگ کہتے ہیں سردیوں کی شامیں اداسی مائل ہوتی ہیں اور میں کہتی ہوں ایسا کچھ نہیں ہے۔ سردیوں کی آمد ہم چائے باسیوں کے لیے بہت خوب صورت ہوتی ہیں۔ ایسے میں جو لطف اور سرور چائے آپ کی شاموں میں گھول دیتی ہے اس کا تو کوئی مول ہے ہی نہیں۔ مجھے چائے سے عشق ہے اور آج جو لکھنے جا رہی ہوں اسی عشق میں مبتلا ہو کر لکھ رہی ہوں۔
دنیا کے تمام جھمیلے اپنی جگہ، لیکن چائے کا میری زندگی میں اپنا الگ مقام ہے۔ امی بتایا کرتی تھیں جب میں چھوٹی سی تھی تو صبح جلدی بیدار ہو کر باورچی خانے میں ان کے پاس جا کر بیٹھ جایا کرتی تھی اور اسی طرح جیسے اوپر بیان کیا ہے گہری سانسیں بھر کر چائے کی خوشبو کو اپنے اندر اتارا کرتی تھی۔
اسی شوق کے مد نظر ابا جان نے میرے لیے لکڑی کی ایک چھوٹی سی چوکی بنا دی تھی جس پر میں آلتی پالتی ہو کر بیٹھ جاتی تھی پھرچائے اور اس کے ساتھ پاپا کھایا کرتی تھی۔ جب مہینے کا سودا آتا تو میں اس میں سے چائے کے تین ڈبے گن کر نکال لیتی اور ان کو سلیقے سے نعمت خانے میں سجا دیتی۔
جب امی چائے کا ڈبہ کھول کر پتی کو چائے کی برنی میں منتقل کرتیں تو میں کھڑے ہو کر یہ منظر بڑے شوق سے دیکھتی۔ بعد ازاں یہ خالی ڈبہ امی میرے حوالے کر دیتیں اور میں اس کو مسہری پر اپنے تکیہ کے ساتھ سجا لیتی۔ جب مسہری پر سونے لیٹتی تو ڈبے کو ناک کے قریب کر لیتی اور بس سونگھتے سونگھتے سو جاتی۔ یہ میرا بچپن کا معمول تھا۔
وقت کا یہی معمول ہے کہ وہ بس گزر جاتا ہے اور یہی ہوا کہ وقت گزر گیا۔ وقت تو گزر گیا لیکن چائے کے ساتھ میرا ناتا اور گہرا ہوگیا۔ پہلے صرف صبح ماں کے ہاتھ کی چائے کی لالچ ہوتی۔ اب دوپہر، شام، رات کو بھی لالچ رہتی۔ سونے پر سہاگہ کہ دس برس کی عمر میں خالہ سے کہہ سن کر چائے بنانا بھی سیکھ لی تھی ۔
اب اس کو بنانے اور پینے میں مشاق اور خود مختار ہو گئی تھی۔ یہ زندگی کی پہلی آزادی تھی جس کو خوب ناجائز بھی استعمال کیا۔ اتنا زیادہ کہ جب گھر میں پکا سالن پسند نہ آتا تو اس کی جگہ چائے لے لیتی۔ میں نے چائے روٹی اورچاول کے ساتھ بھی پی ہے۔
پھر وہ وقت بھی جھیلا جب گھر والوں نے چائے پر مکمل طور پر پابندی لگا دی۔ یہ زندگی کے بڑے مشکل دن تھے۔ ایسے میں مہمانوں کی آمد بڑی خوشگوار لگتی۔ چائے بڑے پتیلے میں بنتی اور ظاہر ہے خوشبو بھی خوب مہکتی اور اسی بہانے باورچی خانے میں چھپ کر پی بھی لیتی۔ پھر ایک دن یہ چوری بھی پکڑی گئی اور بس نہ پوچھیے رو رو کر کتنے تکیے بھگو دیے لیکن مجال ہے گھر والوں کے کان پر جوں بھی رینگی ہو۔ ایک طویل عرصہ چائے کے فراق میں گزارا۔
اس بیچ زبردستی دال، ترکاری اور سالن سے روٹی اور چاول کھانے کی عادت بھی ڈال لی۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ وقت بھی گزر گیا اور چائے سے میرا رشتہ اور بھی مضبوط ہو گیا۔ کیسے نہ ہوتا۔ اس عشق نے بڑے امتحان لیے تھے اور ہماری جستجو ایسی تھی کہ کڑے سے کڑا وقت بھی گزار چکی تھی۔ جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو چائے کے لیے جذبات اور شدت پکڑ گئے۔ اس کی وجہ سے بہت سے اچھےدوست بھی بنائے۔ کچھ لوگ مجھ سے خدا واسطے کا بیر بھی رکھنے لگے جس میں ہماری چائے بنانےوالی بوا سر فہرست تھیں۔
اب چائے کا کوئی وقت نہیں ہوتا بلکہ ہر وقت چائے کا ہی ہوتا ہے۔ اس میں دوپہر، شام، رات کے ساتھ تو کوئی امتیازی سلوک نہ ہوتا البتہ صبح کی چائے کا رنگ ڈھنگ، خوشبو، ذائقہ اور تیاری کا الگ مزاج ہوتا۔ اس میں کسی قسم کی کوتاہی اور بھول چوک میرے نزدیک ناقابلِ معافی جرم ہے۔ اتنے سخت قاعدے قانون ہونے کی وجہ سے صبح کی چائے بنانےکا یہ فریضہ خود انجام دیتی ہوں۔ عام اوقات میں پکی ہوئی چائے جائز ہے لیکن صبح کی پہلی چائے دم کی ہی ہونی لازم و ملزوم ہے۔ دم کی چائے کی لیے پانی ایک خاص درجہ حرارت تک مقررہ وقت تک میری مخصوص اسٹیل کی کیتلی میں ہی پکنا ضروری ہے۔
اس کے بعد کیتلی چولہے اتار کر اس میں دو چائے کے چمچے دانے دار پتی کے ڈال دیے جاتے ہیں۔ اسے پندرہ منٹ تک کیتلی پوش سے ڈھک سے دینا ہوتا ہے۔ کپ میں گرم دودھ ڈال کر کیتلی سے چائے کا پانی کپ میں انڈیل دینا ہوتا ہے۔ لیجیے صبح کی تازہ چائے تیار ہے۔اب منہ میں رکھیے مصری کی ڈلیا اور چائے نوش کیجیے۔ اس کارنگ اور مزہ ہی کچھ اور ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ چائے آپ کو دیکھ کر مسکرا رہی ہے۔
بندہ بشر ہے اور یہ مصداق مجھ پر بھی واجب ہے لیکن یقین جانیے اس فریضے میں خود سے بھی کوئی کوتاہی ہوجائے تو سزا خود کو بھی دیتی ہوں۔ معافی کسی حال نہیں۔ چائے کے بھی کئی موسم ، رنگ اور مزے ہیں۔ خوش گپیاں کرنی ہوں تو الائچی والی چائے، بدہضمی ہو تو چائے میں سونف اور ادرک، حلق کی سوزش ہو تو اس میں لونگ، بخار کی کیفیت میں دارچینی والی چائے، غرض میری ہر بیماری کا علاج بھی چائے میں ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ چائے کے لیے میرے احساسات اور جذبات بہت گہرے، پاکیزہ اور انمول ہیں۔ موقع خوشی کا ہو یا غم کا، کوئی ساتھ دے یا نہ دے لیکن چائے میرے ہر دکھ سکھ کی ساتھی ہے۔
لکھتے لکھتے دیر ہوگئی ہے۔ شام کے سائے طویل ہوتے جا رہے ہیں اور خوشبو کی اشتہا سے چائے کی طلب بھی بہت بڑھ گئی ہے۔ لیجیے پھر چائے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ مجھے اب اجازت دیجیے۔