عالمی معیشت میں دوبارہ استحکام کے آثار، لاگارد
18 مارچ 2012فرانس سے تعلق رکھنے والی آئی ایم ایف کی خاتون سربراہ نے چینی دارالحکومت بیجنگ میں آج اتوار کو اپنے ایک خطاب میں کہا کہ ماضی قریب میں عالمی معیشت شدید خطرات کے دہانے تک پہنچ گئی تھی تاہم اب صورت حال کافی بہتر ہو گئی ہے۔ کرسٹین لاگارد بیجنگ میں چینی پالیسی ساز شخصیات اور عالمی کاروباری رہنماؤں کے ایک اجتماع سے خطاب کر رہی تھیں۔
کرسٹین لاگارد نے کہا کہ یورو زون اور امریکہ سے اقتصادی استحکام کے اشارے مل رہے ہیں۔ لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ ترقی یافتہ ملکوں میں ریاستی قرضوں کی اونچی شرح اور عالمی منڈیوں میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ابھی تک موجود ایسے واضح خطرات ہیں جن کا مقابلہ کیا جانا باقی ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ کے مطابق عالمی معیشت اس وقت بحالی کے راستے پر گامزن تو ہے لیکن خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے۔
قبل ازیں اتوار ہی کو آئی ایم ایف کی سربراہ نے اپنی ایک علیحدہ گفتگو میں کہا کہ چینی کرنسی یوآن مستقبل میں عالمی برادری کے لیے غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کے لیے استعمال ہونے والی ایک اہم کرنسی بن سکتی ہے۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا کہ چین کو ایک مضبوط اور زیادہ لچکدار ایکسچینج ریٹ سسٹم کے لیے ایک واضح روڈ میپ کی ضرورت ہے۔
کرسٹین لاگارد نے کہا، ‘ترقی یافتہ معیشتوں کو اپنے ہاں کیے جانے والے اقدامات جاری رکھنا ہوں گے۔ ساتھ ہی تمام ملکوں میں نوجوانوں میں بے روزگاری پر قابو پانے کی کوششوں کا جاری رکھا جانا بھی لازمی ہو گا۔ اس کے لیے تمام ملکوں کی ذمہ داری ہو گی کہ اگر ان کی کوششوں سے عالمی معیشت میں مضبوطی آتی ہے تو ان کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات میں کوئی کمی نہ آئے۔‘
بیجنگ سے ملنے والی خبر ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق آئی ایم ایف کی سربراہ نے آج چینی کرنسی یوآن کے بارے میں جو بیان دیا وہ چینی حکومت کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بیجنگ حکومت چاہتی ہے کہ دیگر بڑی عالمی کرنسیوں کی طرح یوآن بھی زر مبادلہ کے ذخائر کے لیے استعمال کی جائے۔
اس سلسلے میں کرسٹین لاگارد نے آج بیجنگ میں جو کچھ کہا وہ آئی ایم ایف کی طرف سے چینی حکومت کی خواہشات کی اب تک نظر آنے والی سب سے واضح تصدیق ہے۔
روئٹرز کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی سربراہ نے بیجنگ میں زور دے کر کہا کہ آج عالمی معیشت بہت مربوط ہے اور مختلف ملکوں کی پالیسیوں کے اثرات دیگر ریاستوں پر بھی پڑتے ہیں۔ اس لیے تمام ملکوں کو مل کر عالمی اقتصادیات کی مضبوطی اور ترقی کے لیے کوششیں کرنا ہوں گی۔
رپورٹ عصمت جبیں
ادارت عدنان اسحاق