طیارے کے حادثے میں ایڈز کے اہم ماہرین بھی ہلاک
19 جولائی 2014اس عالمی ایڈز کانفرنس کے ہزاروں شرکاء میں سے 100 کے قریب مشرقی یوکرائن میں ملائیشیا ائیر لائنز کے مسافر بردار طیارے کے حادثے کا شکار ہو گئے ہیں۔ جمعرات کو ایمسٹرڈم سے کوالالمپور جانے والی اس پرواز پر عالمی ایڈز کانفرنس کے تقریباً 100 شرکاء اور عملے کے ارکان سمیت تقریباً تین سو افراد سوار تھے۔
عالمی ایڈز کانفرنس کی انتظامی کمیٹی ’ انٹرنیشنل ایڈز سوسائٹی‘ نے بھی کہا ہے کہ ہوائی جہاز کے اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں میں ایڈز کانفرنس کے متعدد مندوبین شامل تھے۔ ان میں ایڈز کے مرض کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک معروف ولندیزی سائنسدان اور ایڈز سوسائٹی کے سابق صدر جوزف لانگے بھی شامل ہیں۔ دریں اثناء ایڈز سوسائٹی نے کہا ہے کہ ایڈز کے مہلک عارضے کے خلاف جنگ کرنے والے تمام سائنسدانوں کے جذبے اور لگن کے اعتراف کے طور پر پانچ روزہ عالمی ایڈز کانفرنس کا انعقاد پروگرام کے مطابق ہو گا اور اسے ملتوی نہیں کیا جائے گا۔
حادثے کے شکار سائنسدانوں کے لیے ہمدردی کا پیغام
دنیا بھر سے ایڈز پر ریسرچ کرنے والے سائنسدانوں اور سرگرم کارکنوں کی طرف سے سوشل نیٹ ورک سائٹ ٹویٹر پر ملائیشیا ایئر لائنز کے طیارے کے حادثے کا شکار ہونے والے محققین کے ساتھ اظہار ہمدردی کے پیغام کا سلسلہ جاری ہے۔
آسٹریلیا کے اخبار سڈنی مارننگ ہیرالڈ کو ایک بیان دیتے ہوئے ایک محقق کلائیو اسپن نے کہا، "ملبورن میں ہونے والی اس بار کی ایڈز کانفرنس کا ماحول نہایت افسردہ ہو گا، خاص طور سے ہم جیسے بہت سے ریسرچرز کے لیے، جو کئی سالوں سے عالمی ایڈز کانفرنس میں شرکت کرتے آئے ہیں"۔
طبی سائنس اور تحقیق کا ناقابل تلافی نقصان
اکثر افراد کا کہنا ہے کہ طیارے کے حادثے میں ایچ آئی وی ایڈز کے خلاف جنگ کرنے والے گراں قدر محققین کی ہلاکت کے باعث ایڈز کے خلاف جاری جنگ کو جو نقصان پہنچا ہے، اُس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔ آسٹریلوی نشریاتی ادارے ABC کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کینیڈا سے تعلق رکھنے والے ایک ریسرچر ٹریور اسٹریٹن کا کہنا تھا، "ممکنہ طور پر حادثے کا شکار ہونے والے طیارے میں ایڈز کا علاج موجود تھا"۔
ایڈز کی بیماری پر تحقیق کرنے والے محققین کے لیے اس عالمی ایڈر کانفرنس کے موقع پر ایک اور بڑا دھچکہ وہ خبر بنی ہے، جس کے مطابق امریکی ریاست مسیسیپی میں ایک چھوٹے بچے کے طبی معائنے کے بعد اُس کے اندر ایک بار پھر ایچ آئی وی وائرس کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے۔ اس بچے کے بارے میں گزشتہ برس یہ خبر آئی تھی کہ سائنسدانوں کی طرف سے ایجاد ہونے والے ایک نئے طریقہ علاج کے استعمال سے اس بچے میں پائے جانے والے ایچ آئی وی وائرس کے خلاف جنگ کامیاب ثابت ہوئی ہے اور اُسے علاج کے ذریعے اس موذی وائرس سے نجات دلا دی گئی ہے۔
اس صورتحال کا مطلب یہ ہوا کہ ملبورن میں اتوار سے شروع ہونے والی عالمی ایڈز کانفرنس کے شرکاء اُسی صورتحال سے دوچار ہوں گے، جس سے وہ اب سے 20 سال قبل دوچار تھے یعنی طویل عرصے سے اور وسیع پیمانے پر ہونے والی ریسرچ کے باوجود اس بیماری کا نہ تو کوئی علاج مل سکا ہے اور نہ ہی اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے کوئی ویکسین ایجاد ہو سکی ہے۔ واضح رہے کہ ایچ آئی وی وائرس جنسی اختلاط اور خون کے تبادلے کے ساتھ ساتھ ایڈز میں مبتلا اُن ماؤں سے بھی اُن کے بچوں میں منتقل ہوتا ہے، جو اُنہیں اپنا دودھ پلاتی ہیں۔
اُمید پر دنیا قائم ہے
ان حقائق کے باوجود اقوام متحدہ کا ایڈز پروگرام UNAIDS ابھی مایوس نہیں ہوا ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ امید کا دامن نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ بُدھ کے روز اس کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ، "تیئیس برسوں کے مقابلے میں گزشتہ پانچ سالوں میں کچھ کامیابیاں ہوئی ہیں"۔ اس پروگرام کے سربراہ میشل سیڈیب ایک قدم اور آگے کی بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، "ایڈز کی وباء کا خاتمہ ممکن ہے"۔ UNAIDS کی اس رپورٹ کے مطابق 2004ء اور 2005 ء میں ایڈز کی وباء کا پھیلاؤ عروج پر تھا۔ اُس وقت اس کے سبب ہونے والی سالانہ اموات 2.4 ملین ریکارڈ کی گئی تھیں۔ اُس کے بعد اس شرح میں 35 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ اس کے علاوہ 2001 ء میں ایچ آئی وی انفیکشن کا شکار ہونے والوں کی تعداد 3.4 ملین تھی جبکہ اس میں واضح کمی کے بعد گزشتہ برس یہ تعداد 2.1 ملین رہ گئی تھی۔
ملبورن میں منعقد ہونے والی عالمی ایڈز کانفرنس کے مرکزی مقررین میں میشل سیڈیب اور سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ ساتھ ایڈز کے خلاف مہم کے ایک سرگرم کارکن اور معروف گلوکار باب گلڈوف بھی شامل ہیں۔