طالبان کے یرغمالی سوئس جوڑے کی کہانی
7 مئی 2012سوئٹزرلینڈ سے تعلق رکھنے والا 32 سالہ اولیویئر ڈیوڈ اوخ اور اُس کی 29 سالہ شریک حیات ڈینئیلا وڈمر گزشتہ سال پاکستان کے جنوبی صوبے بلوچستان میں تعطیلات گزار رہے تھے، جب یکم جولائی کو اُنہیں اغوا کر لیا گیا۔
یہ سوئس جوڑا دراصل بھارت میں تعطیلات گزارنے کے بعد سڑک کے راستے واپس لوٹ رہا تھا اور اغوا کے خطرے سے متعلق سوئس حکومت کے انتباہ کے باوجود پاکستان پہنچ گیا تھا، جہاں مسلح افراد نے اُنہیں یرغمال بنا لیا۔
اتوار کو ایک اخباری انٹرویو میں اس جوڑے نے تفصیل کے ساتھ بتایا ہے کہ طالبان کی قید میں اُن کے آٹھ مہینے کیسے گزرے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اُن کے پہرے پر مامور محافظ کئی کئی گھنٹوں تک خود کُش حملوں کے ویڈیوز دیکھتے رہتے تھے اور اس موضوع پر تبادلہء خیال کرتے رہتے تھے کہ کیسے وہ کسی امریکی ڈرون حملے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ کے روزنامے Le Matin کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وڈمر نے بتایا کہ اُنہوں نے اپنی قید کے آٹھ مہینے شمالی وزیرستان میں میرانشاہ کے بازار کے قریب ’ایک طرح کی جیل‘ میں گزارے:’’کئی مہینوں تک ہم نے صرف چار گارڈ ہی دیکھے، ہمیں کوئی خاتون یا بچہ نظر نہیں آیا۔ وہ درحقیقت بیمار ذہنیت کے حامل نظر آتے تھے، جیسے اندر سے مردہ ہو چکے ہوں، وہ ہر وقت خود کُش جیکٹیں پہنے رکھتے تھے۔‘‘
سوئٹزرلینڈ کے دارالحکومت بیرن سے تعلق رکھنے والے پولیس افسر اوخ نے بتایا کہ سات نومبر کی رات کو پاکستانی فوج نے طالبان کے ٹھکانوں پر توپخانے سے گولے برسائے اور قریبی مکانوں پر ہیلی کاپٹروں سے بھی حملے کیے۔ ان حملوں سے یرغمال کنندگان بوکھلا گئے اور وہ اوخ اور وڈمر کو برقعے پہنا کر لالہ نامی ایک طالبان رکن کے فارم پر لے گئے۔ اپنی قید کا باقی عرصہ اس سوئس جوڑے نے لالہ کے فارم پر ہی گزارا۔
وڈمر نے بتایا:’’ہمیں ہر وقت ڈرون طیاروں کی آوازیں سنائی دیتی رہتی تھیں۔ دن کے وقت وہ بلندی پر پرواز کرتے تھے اور تب اُن کی آواز گھاس کاٹنے والی مشین کی طرح ہوتی تھی۔ رات کے وقت وہ نیچی پرواز کرتے تھے اور تب اُن کے انجن کی گڑگڑاہٹ تک سنائی دیتی تھی۔‘‘
اِس فارم پر حالات قدرے بہتر تھے اور گارڈ بھی اتنے چوکنا اور خبردار نہیں تھے۔ اس جوڑے نے اپنا وقت لالہ کے کنبے کے ساتھ گزارا، جس میں لالہ کی بیوی کے ساتھ ساتھ اُس کی ایک سوتیلی بیٹی اور چھ بچے بھی تھے:’’ہم اُس کنبے کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے تھے، چپاتی کے ساتھ نمک اور تیل والے پانچ چھ آلو۔‘‘ قید کے دوران اوخ کا وزن بائیس کلوگرام کم ہو گیا۔
ہر دو ہفتے بعد لالہ کا باس ان دونوں یرغمالیوں کو ملنے آتا تھا اور اُنہی کے کمرے میں لالہ کے ساتھ سوتا تھا۔ طالبان کے اسی سینئر رکن نے اُنہیں یہ بھی بتایا تھا کہ اُن کی رہائی کے لیے بات چیت چل رہی ہے اور یہ کہ اُن کی رہائی کے بدلے پچاس ملین ڈالر کی رقم طلب کی گئی ہے۔ اوخ نے اخبار کو بتایا:’’ہم جانتے تھے کہ اتنی رقم کوئی بھی ادا نہیں کرے گا۔‘‘ اور یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے اِس قید سے فرار کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے دو گرینیڈز چرائے اور رات کے وقت بھاگ نکلے:’’ہم نے سوچا کہ لڑ کر مرنا بہتر ہے۔ اگر وہ ہمارا پیچھا کرتے تو ہم وہ گرینیڈز ضرور استعمال کرتے۔‘‘
دونوں یرغمالی کئی گھنٹوں تک چلتے رہے، یہ جانے یوجھے بغیر کہ وہ کہاں ہیں۔ بالآخر وہ ایک پاکستانی فوجی چوکی پر پہنچ گئے۔ تاہم اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا ابتلا وہیں ختم نہیں ہوا بلکہ اُنہیں ایسے ’تکلیف دہ‘ حالات سے گزرنا پڑا، جن پر وہ اب بات نہیں کرنا چاہتے۔
یہ سوئس جوڑا اس سال مارچ کے وسط میں طالبان کی قید سے فرار ہوا تھا اور دو روز بعد ہی واپس اپنے وطن سوئٹزرلینڈ پہنچ گیا تھا۔ اِس دوران یہ قیاس آرائیاں بھی ہوتی رہی ہیں کہ سوئس حکومت نے اُن کی رہائی کے بدلے زرِ تاوان ادا کیا ہے تاہم سوئس حکومت ایسی رپورٹوں کو رَد کرتی ہے۔
aa/ab (afp)