طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت، ’مقام طے ہو گیا‘
23 مارچ 2014اسلام آباد حکومت نے شدت پسند تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات فروری میں شروع کیے تھے جن کا مقصد گزشتہ سات برس سے جاری شدت پسندی کا خاتمہ تھا۔ تاہم شدت پسندوں کی جانب سے 23 مغوی سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت پر یہ سلسلہ دو ہفتے تک معطل رہا۔ بعدازاں طالبان کی جانب سے ایک ماہ کی فائر بندی کے اعلان پر مذاکرات بحال ہوئے۔
حکومت نے مذاکرات کو اعلیٰ سطح پر لے جانے کے لیے گزشتہ ہفتے ایک نئی چار رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کا مقصد طالبان کے ساتھ براہ راست رابطہ شروع کرنا تھا۔
ابھی تک ہونے والی بات چیت ثالثوں کے ذریعے ہوئی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے بعض مبصرین کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس طریقے سے مذاکرات زیادہ مؤثر نہیں رہے۔
اب پاکستان کے حکومتی مذاکرات کار طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کے مقام پر بھی متفق ہو گئے ہیں۔ یہ بات طالبان شدت پسندوں کی مذاکراتی کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے ہفتے کو بتائی تھی۔
مولانا سمیع الحق نے بتایا کہ طالبان کے ساتھ براہ راست بات چیت کا مرحلہ دو سے تین دِن میں شروع ہو گا۔ انہوں نے یہ بات اسلام آباد میں ایک اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت میں کہی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اجلاس میں وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان بھی شریک تھے۔
سمیع الحق کا مزید کہنا تھا: ’’فریقین مذاکرات کی کامیابی کے لیے آمادگی اور لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے لیے طے شدہ مقام کو ’پیس زون‘ قرار دیا جائے گا۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس کے لیے کس مقام پر اتفاق ہوا ہے۔
مولانا سمیع الحق کی جانب سے مذاکرات کے مقام پر اتفاق رائے سے متعلق اعلان ہفتے کو سامنے آیا تھا۔ حالانکہ ہفتے کو ہی قبل ازیں طالبان کا یہ الزام بھی سامنے آیا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے قبائلی علاقے میں ان کے ٹھکانوں پر مارٹر شیل فائر کیے اور چھاپے مارے۔
تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ذرائع ابلاغ کے لیے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ سکیورٹی فورسز طالبان کے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہی ہیں۔
شاہد کا کہنا تھا: ’’یہ واقعات ہمیں جنگ کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے امن مذاکرات کے نکتے کو اپنی انتخابی مہم کا حصہ بھی بنا رکھا تھا۔ اے ایف پی کے مطابق طالبان کی جانب سے ملک بھر میں شریعت کے نفاذ اور قبائلی علاقوں سے سکیورٹی فورسز کے انخلاء کے مطالبوں کی وجہ سے تجزیہ کار اس مذاکراتی عمل سے زیادہ اُمیدیں نہیں رکھتے۔
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ اس سے پہلے بھی طالبان اور فوج کے درمیان علاقائی سطحوں پر معاہدے ہوتے رہے ہیں جو بلآخر ناکامی سے دو چار ہوئے۔
اس مرتبہ بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات اور ان کی جانب سے سیز فائر کے دِنوں میں بھی منتشر دھڑوں کی جانب سے دہشت گردی کی کارروائیاں جاری رہی ہیں۔