طالبان کے دفتر کے قیام پر مذاکرات کے لیے صدرکرزئی قطر میں
31 مارچ 2013قطر پہنچنے کے فوری بعد افغان صدر نے عرب حکام اور تاجروں سے ملاقات کی ہے۔ افغان صدر کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی دوحہ پہنچا ہیں، جس میں وزیر خارجہ زلمے رسول، اعلیٰ سطحی امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی اور افغان صدر کے مشیر رنگین دادفر سپنتا بھی شامل ہیں۔ افغان صدر آج اتوار کو قطر کے امیر سے بھی ملاقات کریں گے۔
صدارتی ترجمان ایمل فیضی کا حامد کرزئی کی قطر روانگی سے قبل کہنا تھا، ’’ ہم قطر میں افغان امن عمل کے بارے میں بات چیت کریں گے اور یقیناﹰ طالبان کے دفتر کے کھولے جانے پر بھی مذاکرات کیے جائیں گے۔‘‘
رواں برس کے اوائل تک صدر کرزئی طالبان کے ملک سے باہر کسی بھی دفتر کے کھولے جانے کے مخالف تھے لیکن امریکا طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے تاکہ آئندہ دو برسوں میں فوجوں کے انخلاء میں آسانی رہے۔
ایمل فیضی کا مزید کہنا تھا، ’’اگر ہم افغانستان میں امن کے لیے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو مرکزی نمائندوں میں افغان حکومت اور اعلیٰ سطحی امن کونسل کا ہونا ضروری ہے، جو ملک کے تمام نسلی اور سیاسی گروپوں کی نمائندہ ہیں۔‘‘
فیضی کا مزید کا کہنا تھا کہ قطر میں طالبان کا دفتر کھولنے کے لیے سخت شرائط رکھی جانا بھی اہم ہے۔
اقوام متحدہ نے رواں ہفتے صدر کرزئی کے دورہ قطر کا خیر مقدم کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر آنے کی دعوت دی تھی۔ اگر طالبان کرزئی حکومت اور امن کونسل کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کرتے ہیں تو قطر میں طالبان کے دفتر کی اہمیت کم ہی رہ جائے گی۔
طالبان کا ردعمل
طالبان نے صدر کرزئی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ امریکا کی کٹھ پتلی ہیں۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ قطر میں طالبان کے دفتر کے افتتاح سے کرزئی کا کوئی لینا دینا نہیں۔ یہ معاملہ طالبان اور قطر حکومت کے درمیان ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ اگر کرزئی دورہ کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے باعث تشویش نہیں ہے۔ ہمارے قطر میں پہلے ہی سے موجود نمائندے نہ تو ان سے ملیں گے اور نہ ہی مذاکرات کریں گے۔‘‘
ia / ah (AFP, AP)