طالبان کے ايک دھڑے کے ساتھ مذاکرات ہوئے، افغان امن کونسل
23 فروری 2014نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کی کابُل سے موصولہ رپورٹوں ميں اہلکاروں کے ذرائع سے بتايا گيا ہے کہ يہ تازہ مذاکرات افغان حکومت کی سرپرستی ميں ہونے والے پہلے مذاکرات ہيں، جِن کا مقصد رواں برس افغانستان سے بين الاقوامی افواج کے انخلاء کے بعد ملک ميں امن کا قيام ہے۔
افغان امن کونسل کی جانب سے اِس بارے ميں ہفتے کے روز جاری کردہ بيان ميں کہا گيا ہے، ''فريقين نے اتفاق کيا ہے کہ اِس طرز کی بات چيت کا عمل جاری رکھنا چاہيے اور دونوں جانب سے اُميد ظاہر کی گئی ہے کہ اِن ملاقاتوں سے کوئی مثبت پيش رفت ممکن ہو سکے گی۔ بيان کے مطابق سرکاری وفد کے ارکان جن طالبان نمائندوں سے ملے، وہ امن مذاکرات کے سلسلے ميں سنجيدہ تھے۔
اگرچہ امن کونسل نے اِس بارے ميں کوئی معلومات جاری نہيں کی ہيں کہ کونسل نے جن طالبان کے ساتھ مذاکرات کيے، وہ کون ہيں تاہم افغانستان ميں طالبان دور ميں وزير خزانہ کی ذمہ دارياں سنبھالنے والے آغا جان معتصم کے گروپ نے نيوز ايجنسی اے پی کو جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں اِن مذاکرات ميں شرکت کی تصديق کر دی ہے۔ معتصم کے بقول دبئی ميں افغان صدر حامد کرزئی کی امن کونسل کے نمائندگان کے ساتھ ہونے والی بات چيت ميں اِس بات پر اتفاق رائے قائم ہوا کہ مسلح تنازعے کے حل کے ليے افغان باشندوں پر مشتمل مذاکراتی عمل کی راہ اختيار کی جائے۔
واضح رہے کہ طالبان رہنما ملا عمر نے کرزئی انتظاميہ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کو مسترد کر ديا ہے اور طالبان کی جانب سے يہ بھی کہا گيا ہے کہ دبئی ميں جس وفد نے افغان حکومت کی امن کونسل کے ساتھ بات چيت کی، اُس کا اُن سے کوئی تعلق نہيں۔
آغا جان معتصم ايک وقت ملا عمر کے قريبی ساتھی مانے جاتے تھے اور وہ طالبان کی طاقتور سياسی کميٹی کے سربراہ بھی تھے۔ پاکستان کے جنوبی شہر کراچی ميں 2010ء ميں ان پر قاتلانہ حملہ کيا گيا تھا۔ اگرچہ کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہيں کی تھی تاہم ايسا مانا جاتا ہے کہ يہ ناکام حملہ سخت گير طالبان کی جانب سے اس ليے کيا گيا تھا کيونکہ معتصم افغانستان ميں مسلح تنازعے کے خاتمے کے ليے متعدد مرتبہ امن مذاکرات کا مطالبہ کر چکے تھے۔ معتصم کے گروپ ميں طالبان دور کے سينئر وزراء سميت کئی اہم طالبان کمانڈز اورسابق سفارت کار بھی شامل ہيں۔