طالبان کا مذاکرات سے مسلسل انکار، حکومتی تشویش
18 دسمبر 2013پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے بھی ایک روز قبل دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کو پہلی ترجیح دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ملکی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت پر مشتمل اس کمیٹی نے ملک میں امن کے قیام کے لیے دیگر طریقوں کو آخری حربے کے طور پر استعمال کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔
تاہم اب طالبان کی جانب سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کیے جانے کے بعد کی صورتحال نے حکومت اور مذاکرات کی حامی جماعتوں کے لیے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سابق وزیر خارجہ اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات یا دیگر طریقے استعمال کرنے سےمتعلق حکمت عملی پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔
بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت کی مبہم پالیسی نے طالبان میں بھی بد اعتمادی پیدا کر دی ہے۔
انہوں نے کہا، ’’وہ (طالبان) شک کر رہے ہیں کہ حکومت کی درحقیقت منصوبہ بندی کچھ اور ہے وہ آپریشن کا ارادہ رکھتی ہے اور مذاکرات کو بطور ڈھال استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اس بارے میں سنجیدگی دکھانی چاہیے اور ان کو کہنا چاہیے کہ ہم سنجیدہ ہیں۔‘‘
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین شیخ کا کہنا ہے کہ اگر طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکاری ہیں تو حکومت کو مزید تاخیر کیے بغیر اپنی آئندہ کی حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے خاصی تاخیر کی جس کا منفی نتیجہ نکلا۔
انہوں نے کہا،’’حکومت کے لیے لمحہء فکریہ ہے، اس کے لیے کوئی ایسا لائحہء عمل تیار ہو جس میں تمام جماعتوں کو دوبارہ سے آن بورڈ لیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ اب کیا کرنا ہے ؟ کیونکہ اگر مذاکرات سے انکار ہے تو اس کے بعد ہمیں جو حکمت عملی بنانا ہو گی اس کا بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔‘‘
خیال رہے کہ حکومتی وزرا ء خصوصا وزیرِ داخلہ چوہدری نثار طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا الزام امریکی ڈرون حملوں پر لگاتے ہیں۔ ان حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر ڈرون حملے نہ ہوتے تو اب تک مذاکرات میں خاصی پیش رفت ہو چکی ہوتی۔
مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی چوہدری محمود بشیر ورک کا کہنا ہے کہ حکومت ملک میں خون خرابہ نہیں چاہتی امید ہے کہ ہم طالبان کو مذاکرات پر منا لیں گے۔
حکومت کی جانب سے مذاکرات پر اصرار اور طالبان کی جانب سے انکار کے نتیجے میں حکومتی کمزوری کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے چوہدری محمود بشیر ورک نے کہا،
’’ان (طالبان)کو بات کرنا پڑے گی اور ہم ان کو یہ موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق چلیں ورنہ پاکستان کی ریاست کوئی کمزور نہیں ہے۔ حکومت کو اس بات کا احساس ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کا بھی یہی رویہ ہے۔‘‘
دوسری جانب دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت مذاکرات سے انکار کر کے حکومت پر امریکی ڈرون حملے بند کرانے کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) اسد منیر کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ڈرون حملے بند کرنے پر آمادہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا اور اگر اس امریکہ کو منا بھی لیا جائے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ طالبان اپنی شرائط منوانے کے لیےمزید مطالبات نہیں کریں گے۔