پوٹن - ٹرمپ ملاقات آئندہ چند دنوں میں، کریملن کی تصدیق
وقت اشاعت 7 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 7 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- غزہ پٹی: رواں سال غذائی قلت سے 99 افراد ہلاک، بچوں کی تعداد سب سے زیادہ، ڈبلیو ایچ او
- تھائی لینڈ اور کمبوڈیا سرحدی جنگ بندی میں توسیع پر متفق
- غزہ پٹی میں مزید 29 فلسطینی ہلاک، اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کا اجلاس آج متوقع
- جاسوس سافٹ ویئر صرف سنگین جرائم کی تحیققات میں استعمال ہو سکتا ہے، جرمن عدالت کا فیصلہ
- برطانیہ کا فرانس کے ساتھ ’ون اِن، ون آؤٹ‘ معاہدے کا نفاذ، تارکین وطن کی گرفتاریاں شروع
- صدر ولادیمیر پوٹن اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات آئندہ چند دنوں میں ہو گی، کریملن کی تصدیق
غزہ پٹی: رواں سال غذائی قلت سے 99 افراد ہلاک، بچوں کی تعداد سب سے زیادہ، ڈبلیو ایچ او
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ رواں سال غزہ پٹی میں کم از کم 99 افراد غذائی قلت کے باعث موت کے منہ میں جا چکے ہیں، جن میں پانچ سال سے کم عمر کے 29 بچے بھی شامل ہیں۔ اس ادارے کے مطابق یہ تعداد حقیقت میں اس سےکہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
غزہ پٹی میں شدید انسانی بحران پر عالمی برادری میں غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے، جبکہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں پہلے ہی قحط کے شدید خطرے سے خبردار کر چکی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس اڈہانوم گیبریئسس نے اقوام متحدہ سے رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی تنظیم (ACANU) سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’غزہ پٹی کے عوام کو بنیادی سہولیات تک محدود رسائی حاصل ہے، وہ بار بار نقل مکانی پر مجبور ہوئے، اور اب خوراک کی ترسیل کی ناکہ بندی کا سامنا کر رہے ہیں۔‘‘
ٹیڈروس نے مطالبہ کیا کہ تمام ممکنہ راستوں سے بلا رکاوٹ، وسیع پیمانے پر اور مسلسل امداد کی اجازت دی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ صرف جولائی میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 12,000 فلسطینی بچے شدید غذائی قلت کا شکار پائے گئے، یہ اب تک کی ایسی سب سے زیادہ ماہانہ تعداد ہے۔
ٹیڈروس کے مطابق سال کے آغاز سے اب تک غزہ پٹی میں غذائی قلت سے 99 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے 29 بچے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ اعداد و شمار بھی ممکنہ طور پر اصل تعداد سے کم ہیں۔
اس وقت اسرائیلی حکومت کو بین الاقوامی اور داخلی دونوں سطحوں پر جنگ ختم کرنے کے لیے شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
اسرائیل نے غزہ پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد سے متعلق معاہدے کی مکمل پاسداری نہیں کی، یورپی یونین
یورپی یونین کے سفارتی ادارے نے کہا ہے کہ اسرائیل نے غزہ پٹی میں شہری آبادی کے لیے امدادی سامان بڑھانے کے معاہدے پر مکمل طور پر عمل نہیں کیا۔
یورپی ایکسٹرنل ایکشن سروس (EEAS) کی جانب سے یونین کے رکن ممالک کو آج جمعرات سات اگست کو بھیجی گئی ایک دستاویز میں کہا گیا ہے کہ 29 جولائی سے چار اگست کے درمیان غزہ پٹی میں داخل ہونے والے امدادی ٹرکوں کی تعداد اس سطح سے کم رہی، جس پر جولائی کے وسط میں یورپی یونین کے ساتھ اتفاق کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ ماہ اسرائیل نے یورپی دباؤ پر امداد بڑھانے کا وعدہ کیا تھا تاہم اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں کے مطابق اسرائیل تاحال انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں میں رکاوٹ ڈال رہا ہے۔
EEAS کے مطابق، ’’اقوام متحدہ اور امدادی اداروں کے فراہم کردہ اعداد و شمار اور اسرائیلی حکومت کے دعووں میں تضاد پایا جاتا ہے۔‘‘
اس دستاویز میں تسلیم کیا گیا ہے کہ کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے، جس میں 130 روز بعد ایندھن کی سپلائی بحال ہونا، مصر، اردن اور شمالی غزہ کی زیکیم بارڈر کراسنگ سے امدادی راستے کھلنا، اور بعض اہم انفراسٹرکچرز کی مرمت شامل ہیں۔
تاہم اس رپورٹ میں غزہ پٹی کے 20 لاکھ فلسطینیوں کے لیے قحط کے خطرے کو بدستور سنگین قرار دیا گیا ہے۔
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا سرحدی جنگ بندی میں توسیع پر متفق
تھائی لینڈ اور کمبوڈیا نے گزشتہ ماہ سرحدی جھڑپوں کے بعد طے پانے والے جنگ بندی معاہدے میں توسیع پر اتفاق کر لیا ہے۔ ان پانچ روزہ پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم 43 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ تصادم سرحدی مندروں پر دیرینہ تنازعے کے نتیجے میں شروع ہوا تھا، اور گزشتہ منگل کو اس وقت ختم ہوا، جب ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم کے ساتھ ساتھ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی ثالثوں کے دباؤ پر ایک جنگ بندی طے پائی۔ انور ابراہیم علاقائی تنظیم آسیان کے چیئرمین بھی ہیں۔
معاہدے کے تحت پہلے دونوں ممالک کے علاقائی فوجی کمانڈروں کی ملاقات ہوئی، جس کے بعد کوالا لمپور میں تین روزہ مذاکرات کے اختتام پر جمعرات کو ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔
اعلامیہ میں کہا گیا، ’’دونوں فریق ہر قسم کے ہتھیاروں کے استعمال، شہریوں، شہری املاک اور فوجی اہداف پر حملوں سے مکمل جنگ بندی پر متفق ہیں۔ یہ معاہدہ کسی بھی صورت میں پامال نہیں کیا جائے گا۔‘‘
تھائی نائب وزیر دفاع نتافون نارکفانٹ اور کمبوڈین وزیر دفاع ٹی سیہا کے دستخطوں سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے، ’’سرحدی علاقوں میں فوجی نقل و حرکت اور گشت پر پابندی برقرار رہے گی۔ فریقین جھوٹے یا اشتعال انگیز بیانات سے گریز کریں گے تاکہ کشیدگی میں کمی آئے۔‘‘
اس حوالے سے دونوں فریقین کے مایبن ایک اور ملاقات اگلے ماہ طے کی گئی ہے تاکہ معاہدے پر عملدرآمد کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔
یہ جھڑپیں خطے میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران سب سے مہلک تصادم ثابت ہوئیں، جس کے باعث دونوں جانب سے تین لاکھ سے زائد افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
غزہ پٹی میں مزید 29 فلسطینی ہلاک، اسرائیلی سکیورٹی کابینہ کا اجلاس آج متوقع
اسرائیلی سکیورٹی کابینہ آج جمعرات کی شام ایک اہم اجلاس میں غزہ پٹی میں جاری فوجی کارروائی کو وسعت دینے پر غور کرے گی حالانکہ اس اقدام کی اسرائیل کے اندر بھی سخت مخالفت کی جا رہی ہے، خاص طور پر ان خاندانوں کی جانب سے جن کے ارکان ابھی تک بطور یرغمالی حماس کی قید میں ہیں۔
یہ اجلاس ایک ایسے دن ہو رہا ہے، جب جنوبی غزہ پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں اور فائرنگ کے نتیجے میں مزید کم از کم 29 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔ خان یونس کے ناصر ہسپتال کے مطابق ان میں سے 12 افراد اس وقت مارے گئے، جب وہ ایک امدادی مرکز کے قریب راشن لینے پہنچے تھے۔ یہ مرکز ایک امریکی اور اسرائیلی حمایت یافتہ نجی ادارے کے زیر انتظام چلایا جا رہا ہے۔
ہسپتال کے مطابق فائرنگ اور دھماکوں میں کم از کم 50 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اسرائیلی فوج اور متعلقہ امدادی ادارے نے فوری طور پر ان ہلاکتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ حماس شہری آبادی والے علاقوں میں سرگرم ہے، جو حملوں کی ایک بڑی وجہ بنتی ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اس ہفتے اپنے مشیروں اور سکیورٹی حکام سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ غزہ میں اسرائیل کے مقاصد کے حصول کے لیے آئندہ کی حکمت عملی طے کی جا سکے، خاص طور پر جب گزشتہ ماہ دوحہ میں بالواسطہ جنگ بندی مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔
ایک اسرائیلی عہدیدار کے مطابق سکیورٹی کابینہ کے اجلاس میں غزہ پٹی کے ان علاقوں پر دوبارہ قبضے کے لیے ایک مرحلہ وار فوجی منصوبہ منظور کیے جانے کا امکان ہے، جو اب بھی اسرائیلی کنٹرول سے باہر ہیں۔
یہ حکمت عملی حماس پر دباؤ بڑھانے کے لیے بتدریج نافذ کی جائے گی۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت پر ہو رہا ہے، جب خطے میں کشیدگی عروج پر ہے اور انسانی ہلاکتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، جبکہ جنگ بندی کی کوئی واضح صورت نظر نہیں آ رہی۔
جاسوس سافٹ ویئر صرف سنگین جرائم کی تحیققات میں استعمال ہو سکتا ہے، جرمن عدالت کا فیصلہ
جرمنی کی آئینی عدالت نے آج بروز جمعرات اپنے ایک فیصلے میں کہا ہےکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف سنگین نوعیت کے جرائم کی تحقیقات کے دوران ہی خفیہ طور پر فونز اور کمپیوٹرز کی نگرانی کے لیے جاسوسی سافٹ ویئر استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ فیصلہ ڈیجیٹل حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ’’ڈیجیٹلکرج‘‘کی ایک درخواست پر دیا گیا، جس نے 2017 کے ایک متنازعہ قانون پر اعتراض کیا تھا۔ اس قانون کے تحت پولیس کو مخصوص حالات میں خفیہ سافٹ ویئر کے ذریعے وٹس ایپ جیسے اینکرپٹڈ میسجنگ پلیٹ فارمز کی نگرانی کی اجازت دی گئی تھی تاہم تنظیم کا مؤقف تھا کہ اس سے ایسے افراد بھی متاثر ہو سکتے ہیں جو کسی جرم میں ملوث نہ ہوں۔
عدالت نے کہا کہ 2017 کی قانون سازی میں نگرانی کے دائرے کی وضاحت مبہم رکھی گئی تھی، جس سے شہری آزادیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ عدالت کے مطابق ایسی نگرانی ’’بنیادی حقوق میں سنجیدہ مداخلت‘‘ ہے اور صرف انتہائی سنگین جرائم، جیسے دہشتگردی، قتل یا ریاست کے خلاف سازش کی صورت میں ہی کی جا سکتی ہے۔
عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ایسے جرائم جن کی زیادہ سے زیادہ سزا تین سال ہے، ان میں پولیس ٹیلی کمیونیکیشن کی نگرانی نہیں کر سکتی کیونکہ وہ کافی سنگین شمار نہیں ہوتے۔
مزید برآں، عدالت نے یہ بھی کہا کہ مشتبہ افراد کے اسمارٹ فونز اور کمپیوٹرز کی خفیہ تلاشی کا اختیار جرمنی کے آئینی قانون (Basic Law) سے جزوی طور پر متصادم ہے، تاہم یہ شقیں اس وقت تک نافذالعمل رہیں گی، جب تک نئی اور واضح قانون سازی عمل میں نہیں آتی۔
یہ فیصلہ جرمنی میں شہری آزادیوں اور ڈیجیٹل نگرانی کے توازن کے حوالے سے ایک اہم قانونی سنگِ میل سمجھا جا رہا ہے۔
برطانیہ کا فرانس کے ساتھ ’ون اِن، ون آؤٹ‘ معاہدے کا نفاذ، تارکین وطن کی گرفتاریاں شروع
برطانیہ نے جمعرات کو تصدیق کی ہے کہ فرانس کے ساتھ ایک نئے ’’ون اِن، ون آؤٹ‘‘ معاہدے کے تحت اُن غیرقانونی تارکین وطن کو حراست میں لینا شروع کر دیا گیا ہے، جو چھوٹی کشتیوں کے ذریعے برطانیہ پہنچے۔ اس معاہدے کا مقصد ریکارڈ سطح پر ہونے والی غیرقانونی ’چینل کراسنگز‘ کو روکنا ہے، جو حالیہ برسوں میں برطانوی سیاست اور عوامی رائے میں سخت ناراضی کا باعث بنی ہیں۔
برطانوی وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق، ’’بدھ کے روز دوپہر کے وقت چھوٹی کشتی کے ذریعے آنے والے افراد کو حراست میں لیا گیا ہے اور انہیں امیگریشن اخراج مراکز میں رکھا جا رہا ہے۔‘‘
ان افراد کو آئندہ چند ہفتوں میں فرانس واپس بھیج دیا جائے گا۔ معاہدے کے تحت اگر کوئی شخص کسی ’’محفوظ ملک‘‘ سے ہوتے ہوئے برطانیہ آیا ہو اور پناہ کے لیے اہل نہ ہو، تو اسے واپس بھیج دیا جائے گا۔
معاہدے کی شرائط کیا ہیں؟
یہ معاہدہ فی الحال ایک پائلٹ اسکیم کے طور پر جون 2026 تک نافذ رہے گا۔ اس کے تحت، انگلش چینل کو پار کر کے جو افراد غیر قانونی طور پر برطانیہ میں داخل ہوں گے اور پناہ کے لیے اہل نہ ہوں، انہیں فرانس واپس بھیجا جائے گا۔ اس کے بدلے میں برطانیہ فرانس سے اتنی ہی تعداد میں تارکین وطن کو قبول کرے گا، جو آن لائن پلیٹ فارم کے ذریعے ویزے کے لیے درخواست دیں گے۔
ان افراد کو ترجیح دی جائے گی جن کے اہل خانہ پہلے سے برطانیہ میں موجود ہیں۔ ویزا ملنے کے بعد انہیں تین ماہ کے اندر برطانیہ آنے اور پناہ کی درخواست دینے کی اجازت ہو گی۔
برطانوی وزیر اعظم کئیر اسٹارمر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ’’نہ کوئی دکھاوا، صرف نتائج۔ اگر آپ غیرقانونی طریقے سے اس ملک میں داخل ہوں گے تو واپس بھیجے جائیں گے۔ جب میں کہتا ہوں کہ سرحدوں کی حفاظت کے لیے کچھ بھی کروں گا، تو اس کا مطلب یہی ہے۔‘‘
یہ اقدام اس وقت سامنے آیا ہے جب برطانیہ میں ’’ریفارم یوکے‘‘ جیسی دائیں بازو کی جماعتیں امیگریشن کے معاملے پر حکومت پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔ یہ نئی پالیسی سخت گیر ووٹرز کو مطمئن کرنے اور غیرقانونی امیگریشن پر قابو پانے کی حکومتی کوششوں کے حصے کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
صدر ولادیمیر پوٹن اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات آئندہ چند دنوں میں ہو گی، کریملن کی تصدیق
کریملن نے تصدیق کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کی ملاقات طے پا گئی ہے۔ آئندہ چند دنوں میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس کی تیاریاں جاری ہیں۔
روسی حکام نے آج سات اگست بروز جمعرات کہا ہے کہ امریکی اور روسی صدور کے درمیان دوطرفہ سربراہی اجلاس آئندہ ہفتے کے اوائل میں ممکن ہے، جو ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار سنبھالنے کے بعد دونوں عالمی رہنماؤں کے درمیان پہلی براہِ راست ملاقات ہو گی۔
کریملن کے خارجہ امور کے مشیر یوری اوشاکوف نے روسی سرکاری خبر رساں اداروں کو بتایا، ’’امریکی فریق کی تجویز پر اصولی طور پر ایک دوطرفہ سربراہی اجلاس کے انعقاد پر اتفاق ہو گیا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’اب ہم اپنے امریکی ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس کی تفصیلات طے کر رہے ہیں۔ اگلے ہفتے کو ہدف کے طور پر رکھا گیا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ملاقات کا مقام بھی ’’اصولی طور پر طے پا چکا ہے‘‘ لیکن فی الحال اس کی تفصیل ظاہر نہیں کی گئی۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب امریکی خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے بدھ کے روز ماسکو میں صدر پوٹن سے ملاقات کی۔ وٹکوف نے یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کو بھی شامل کرتے ہوئے ایک سہ فریقی اجلاس کی تجویز دی لیکن اوشاکوف کے مطابق روس نے اس تجویز پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
یہ ممکنہ سربراہی اجلاس 2021 کے بعد پہلا موقع ہو گا جب کسی برسرِ اقتدار امریکی صدر اور روسی صدر کے درمیان براہِ راست ملاقات ہو گی۔ اس سے قبل جنیوا میں صدر جو بائیڈن اور پوٹن کی ملاقات ہوئی تھی۔ موجودہ حالات میں صدر ٹرمپ یوکرین پر روسی حملے کے خاتمے کے لیے سفارتی کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر یہ ملاقات ہوتی ہے تو یہ روس- یوکرین جنگ میں کسی ممکنہ امن منصوبے کے لیے ایک بڑی پیش رفت سمجھی جائے گی۔