’شوہر پہلی بیوی کو ساتھ رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا‘
12 اکتوبر 2022جسٹس سوریہ پرکاش کیسروانی اور جسٹس راجندر کمار پر مشتمل الہ آباد ہائی کورٹ کی بنچ نے یہ حکم نچلی عدالت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی پر دیا۔ فیملی کورٹ نے ایک مسلمان عرضی گزار کی یہ درخواست مسترد کردی تھی کہ دوسری شادی کرنے کے باوجود اسے بھارتی قانون کے تحت پہلی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کا حق ہے۔
ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عرضی گزار نے اپنی پہلی بیوی کی اجازت اور مرضی کے بغیر دوسری عورت سے شادی کی جو پہلی بیوی کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر ایک مسلمان شوہر اپنی بیوی اوربچوں کی کفالت اور ان کے ساتھ ''عدل" نہیں کرسکتا تو قرآن کے حکم کے مطابق اسے دوسری شادی نہیں کرنی چاہئے۔
عدالت نے اس سلسلے میں باضابطہ قرآن کے سورہ النساء (سورہ نمبر 4) کی آیت نمبر 3 کا حوالہ دیا۔
اس آیت میں کہا گیا ہے: "اگر تم یتیموں کے ساتھ بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلو۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو، یا ان عورتوں کو زوجیت میں لاو جو تمہارے قبضے میں آئی ہیں۔ بے انصافی سے بچنے کے لیے یہ زیادہ قرین ِ صواب ہے۔"
کیا تھا معاملہ؟
الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ حکم عزیزالرحمان اور حمیدالنسا کے کیس میں سنایا۔ دونوں کی مئی 1999میں شادی ہوئی تھی اور ان کے چار بچے ہیں۔ عزیزالرحمان نے بعد میں ایک دوسری خاتون سے بھی شادی کرلی اور ان سے بھی کئی بچے ہیں۔
بھارتی مسلم خواتین کی ’نیلامی‘ اور بھارت کی سبکی
کلب ہاؤس: بھارت میں مسلم خواتین کو نشانہ بنانے کا ایک نیا انداز
عدالت کے فیصلے کے مطابق عزیزالرحمان نے دوسری بیوی اور بچوں کے بات پہلی بیوی سے چھپائے رکھی اور بعد میں جب راز کھلا تو دوسری شادی کے بارے میں کوئی وضاحت کرنے میں ناکام رہے۔ حمیدالنساء اس کے بعد ان کا گھر چھوڑ کر چلی گئیں اور اپنے 93 سالہ والد کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
عزیزالرحمان نے سن 2015 میں اترپردیش کی ایک فیملی کورٹ سے رجوع کیا اور اپنے ازدواجی تعلقات کو بحال کرانے کے لیے حکم دینے کی درخواست کی۔ وہ چاہتے تھے کہ عدالت ان کی پہلی بیوی کو ان کے ساتھ رہنے کا حکم دے۔
عدالت نے رواں برس اگست میں عزیزالرحمان کی درخواست مسترد کردی جس کے بعد انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
تمام خواتین کو اسقاط حمل کا حق حاصل ہے، بھارتی سپریم کورٹ
بھارت: حجاب کی حمایت اور مخالفت کی بحث مزید گرم
الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ گوکہ ایک مسلم شوہر کو پہلی بیوی کے رہتے ہوئے دوسری شادی کرنے کا قانونی حق حاصل ہے تاہم وہ اس صورت میں پہلی بیوی کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے کے لیے مجبور نہیں کرسکتی کیونکہ عدالت کے خیال میں "اس عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنا غیرمنصفانہ اور غیرمساوی ہوگا۔"
'یہ بنیادی حقوق کے بھی خلاف ہے'
ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ عرضی گذار نے پہلی بیوی سے حقائق کو چھپا کر دوسری شادی کی جوکہ پہلی بیوی کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔
'بھارت کی مسلمان خواتین کے لیے بڑی کامیابی‘
ججوں نے اپنے فیصلے میں کہا، "ایسی صورت میں اگر پہلی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ہے تو اسے ایسا کرنے اور شوہر کے ساتھ ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔"
عدالت کا کہنا تھا،"اگر ازدواجی تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے شوہر کے حق میں فیصلہ دیا جاتا ہے تو یہ بیوی کے نقطہ نظر سے بھارتی آئین کے تحت اسے حاصل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔"