شنگھائی تعاون تنظیم کی سمٹ: امریکی قیادت کو ممکنہ چیلنج
1 ستمبر 2025روس، چین، پاکستان اور بھارت سمیت 10 ممالک پر مشتمل شنگھائی تعاون تنظیم کے شمالی چین کے بندرگاہی شہر تیانجن میں کل اتوار کو شروع ہونے والے دو روزہ امسالہ سربراہی اجلاس کے بارے میں مختلف خبر رساں اداروں نے لکھا ہے کہ یہ تنظیم عالمی سطح پر امریکہ کی قائدانہ حیثیت کے لیے ایک ابھرتا ہوا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم یا ایس سی او کا قیام 24 برس قبل عمل میں آیا تھا مگر تب سے اب تک اس تنظیم کی جسامت اور اثر و رسوخ میں مسلسل اضافہ ہی ہوا ہے۔ نتیجہ یہ کہ اب اس کے رکن 10 ممالک میں چین اور روس جیسی عالمی طاقتیں بھی شامل ہیں اور جنوبی ایشیا کے ایٹمی طاقت کے حامل دونوں حریف ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت بھی۔ اس تنظیم کے باقی چھ باقاعدہ رکن ممالک بیلاروس، ایران، قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان ہیں۔
ایس سی او اور بڑے عالمی چیلنج
کئی سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کا شمار ان سرکردہ علاقائی تنظیموں میں ہوتا ہے، جن میں چین کا کردار شریک بانی کا رہا ہے۔ امریکہ کی شکاگو یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ڈالی یانگ کے مطابق ایس سی او چینی قیادت کی کثیر القطبی دنیا کی سوچ کی عکاس تنظیم ہے۔
ڈالی یانگ کے مطابق، ''چینی قیادت کی طرف سے بہت زیادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر موجودہ تعلقات کو زیادہ سے زیادہ حد تک برقرار رکھا جانا چاہیے، حالانکہ شنگھائی تعاون کی تنظیم اب تک بڑے عالمی چیلنجز کا حل نکالنے میں معاون کے طور پر کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کر سکی۔
اسی طرح امریکہ کی یونیورسٹی آف میامی کی چینی سیاسی امور کی ماہر جون ٹوئفل ڈرائر کے بقول، ''ایس سی او بظاہر اب محض ایک مکالماتی فورم سے ہٹ کر خود کو باہمی تعاون کے ایک ایسے جامع پلیٹ فارم میں بدل لینا چاہتی ہے، جو ٹھوس نتائج کا ضامن ہو اور جس سے رکن ممالک کے عام شہریوں کو بھی فائدہ پہنچے۔ لیکن سب سے بڑا سوال اب بھی یہی ہے کہ یہ تنظیم کس طرح کیا مقصد حاصل کر سکے گی؟‘‘
ابتدائی مقصد اور توسیع کے نتائج
قریب ڈھائی عشرے قبل جب ایس سی او کا قیام عمل میں آیا تھا، تو اس کا مقصد زیادہ تر وسطی ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ کا راستہ روکنا تھا۔ اس میں کئی ممالک ایسے بھی ہیں، جو واضح طور پر امریکہ کے مسلمہ مخالف یا حریف ہیں، مثلاﹰ ایران، چین، روس اور ماسکو کا قریبی اتحادی ملک بیلاروس۔
2017ء میں اس تنظیم میں مکمل رکن ممالک کے طور پر پاکستان اور بھارت کو بھی شامل کر لیا گیا تھا، جس کے بعد 2023ء میں اس میں ایران اور پھر 2024ء میں بیلاروس بھی شامل ہو گئے تھے۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے 2001ء میں قیام کے بعد سے اب تک اس پر چین کا غلبہ رہا ہے۔ یہی بات اس کے نام سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ روس کے اس تنظیم سے وابستہ مفادات میں دیگر رکن ممالک کے ساتھ قربت تو شامل ہے ہی، لیکن ساتھ ہی ماسکو یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ ایس سی او کے ذریعے سابق سوویت یونین کی وسطی ایشیائی جمہوریاؤں قزاقستان، ازبکستان، تاجکستان اور کرغزستان پر اپنا اثر و رسوخ بھی قائم رکھے۔
تیانجن میں صدر پوٹن اور وزیر اعظم مودی کی ملاقات
تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کی امسالہ سمٹ کے حاشیے پر روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی آج پیر ہی کے روز ایک ملاقات بھی ہوئی، جس کے بعد بھارتی سربراہ حکومت نے کہا کہ بھارت اور روس ''مشکل حالات میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘‘
نریندر مودی کے اس بیان سے قبل روسی صدر پوٹن نے بھارتی وزیر اعظم مودی کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں اپنا ''پیارا دوست‘‘ قرار دیا تھا اور پھر روسی صدر نے بھارتی وزیر اعظم کو اپنی بکتر بند لیموزین گاڑی میں ''لفٹ‘‘ بھی دی تھی۔
تیانجن میں پوٹن اور مودی کی اس ملاقات کے بعد یہ بھی دیکھا گیا کہ نریندر مودی صدر پوٹن کا ہاتھ پکڑے ہوئے چینی صدر شی جن پنگ کی طرف پیدل چل رہے تھے، جس کے بعد تینوں رہنما مترجموں کے ہجوم میں ایک دوسرے سے گفتگو کرتے اور مسکراتے دکھائی دیے۔
بھارتی وزیر اعظم مودی نے روسی صدر کے ساتھ ملاقات کے بعد ولادیمیر پوٹن کی لیموزین میں سفر کرتے ہوئے اس گاڑی کے اندر ہی دونوں کی ایک ایسی تصویر بھی بنائی، جو بعد میں مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کی۔
ادارت: عاطف بلوچ