شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس آج سے
6 جون 2012بیجنگ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے ایجنڈے پر وسطی ایشیائی ریاستوں کی سکیورٹی کے نازک اور حساس معاملات کو خاص طور پر توجہ حاصل ہو گی۔ تنظیم کے رکن ملکوں چین اور روس کے علاوہ وسطی ایشیائی ریاستوں کو بھی بڑھتی ہوئی اسلامی انتہا پسندی کا سامنا ہے۔ دو روزہ اجلاس کے دوران رہنما سکیورٹی معاملات پر بحث کے دوران افغانستان کی مجموعی امن و سلامتی پر بھی توجہ مرکوز کریں گے۔
روسی صدر ولادی میر پوٹن نے بھی کانفرنس سے قبل افغانستان کی داخلی سلامتی کو خطے کے لیے اہم خیال کیا ہے۔ دو روزہ اجلاس کے دوران افغانستان کے صدر حامد کرزئی میزبان ملک کے صدر ہو جِن تاؤ سے بھی ملاقات کریں گے اور اس میں دونوں ملکوں کے تعلقات کے علاوہ افغانستان کی سکیورٹی صورت حال پر گفتگو یقینی ہے۔ روسی صدر پوٹن کا یہ بھی کہنا ہے کہ سمٹ کے دوران افغانستان کے درجے کو اپ گریڈ کر کے اُسے مبصر ریاست بنایا جا سکتا ہے۔
چین کے سرکاری اخبار پیپلز ڈیلی میں اس کانفرنس کی مناسبت سے یہ تحریر کیا گیا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے فریم ورک میں جہاں سیاسی روابط کو مضبوط بنانا ہے وہیں علاقے میں اقتصادیات کو بھی استحکام دینا اہم ہے۔ اسی تناظر میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن کا کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے دائرے میں اہم ریاستی اداروں کی تعمیر اور ان کے استحکام کے لیے ضروری اقدامات کو فروغ دینا بھی شامل ہے تاکہ رکن ریاستوں میں امن و استحکام کو ممکن بنایا جا سکے۔
ایران کے صدر محمود احمدی نژاد بھی بیجنگ میں تنظیم کے اجلاس میں شریک ہیں۔ وہ اپنے قیام کے دوران خاص طور پر روسی صدر ولادی میر پوٹن سے دو طرفہ روابط پر گفتگو کریں گے۔ پاکستان کے صدر آصف زرداری بھی بیجنگ میں تنظیم کے اجلاس میں اپنے ملک کی نمائندگی کریں گے۔ امکاناً وہ بھی کانفرنس میں موجود دیگر سربراہان سے ملاقاتیں کریں گے۔
اسی سمٹ کے تناظر میں چین کا بھی کہنا ہے کہ اجلاس کے دوران دہشت گردی کے خلاف کریک ڈاؤن کے جامع پلان کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔ چین کو بھی اپنے مغربی صوبے سنکیانگ میں اسلامی انتہا پسندوں کا سامنا ہے۔ سنکیانگ میں جاری تحریک مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کو پہلے ہی چینی حکومت خلاف قانون قرار دے چکی ہے۔ چینی حکومت کا خیال ہے کہ مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ کے ورکر پاکستان اور افغانستان میں روپوش ہیں۔
مبصرین کے خیال میں شنگھائی تعاون تنظیم پر چین اور روس کو خاص اثر و رسوخ حاصل ہے۔ چھ رکنی شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام سن 2001 میں عمل میں آیا تھا۔ اس وقت بعض یورپی تجزیہ کاروں نے اسے مغربی ملکوں کے دفاعی اتحاد نیٹو کے مقابلے میں محسوس کیا تھا، جو وقت کے ساتھ غلط ثابت ہوا اور اب شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد میں خاص طور پر اقتصادیات کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اس کی رکن ریاستوں میں چین اور روس کے علاوہ قزاقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ ایران اور منگولیا کو مبصر ریاستوں کا درجہ حاصل ہے۔ اس دفعہ افغانستان کو بطور مہمان ریاست مدعو کیا گیا ہے۔
ah/hk (AFP)