شریعت کا نفاذ ورنہ امن نہیں، پاکستانی طالبان کی دھمکی
23 فروری 2014خبر رساں ادارے روئٹرز نے اسلام آباد سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستانی طالبان نے کہا ہے کہ ملکی فوج کی کارروائیوں کے باوجود بھی پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات بحال ہونے کے امکانات ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ملک میں کئی برسوں سے جاری پر تشدد واقعات کی روک تھام چاہتی ہے تاہم حالیہ دنوں میں متعدد حملوں کی وجہ سے یہ امن مذاکرات بظاہر ناکام ہو چکے ہیں۔
روئٹرز نے ہفتے کے دن بتایا ہے کہ صحافیوں کے ایک وفد نے جمعے کو وزیرستان میں ایک نامعلوم مقام کے دورے کے دوران طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد سے ملاقات کی۔ افغان سرحد سے ملحقہ اس قبائلی علاقے میں شاہد اللہ شاہد نے صحافیوں کو بتایا، ’’مذاکرات کے دوران شمالی وزیرستان میں حالیہ بمباری اور سکيورٹی فورسزکے ہاتھوں ہمارے 74 ساتھیوں کی ہلاکت کے باوجود ہم ابھی تک اس مذاکراتی عمل میں سنجیدہ ہیں۔‘‘
شاہد اللہ شاہد کا کہنا تھا، ’’اگر مذاکرات کرنے ہیں تو یہ اسلامی قوانین کے تحت ہوں گے۔ ہم نے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کو واضح کر دیا ہے کہ ہم شریعت کے نفاذ کی خاطر لڑ رہے ہیں اور ہم مذاکرات بھی اسی مقصد کے لیے کر رہے ہیں۔‘‘
یہ امر اہم ہے کہ نواز شریف نے گزشتہ برس وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ ملک میں 2007ء سے جاری عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ انہوں نے طالبان کے حملوں کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئے کالعدم شدت پسند تحریک طالبان پاکستان کو ایک سیاسی پارٹی کا روپ اختیار کرنے کی تجویز بھی پیش کی تھی۔ قبل ازیں 1990ء میں اپنے پہلے دور اقتدار میں انہوں نے پاکستان میں شریعت کے نفاذ کی کوشش شروع کی تھی تاہم اس کوشش کے دوران ہی ملکی فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
پاکستانی طالبان کا یہ نیا بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب فوج نے بالخصوص قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر نئے حملوں کا آغاز کیا ہے۔ ہفتے کے دن بھی فوجی ہیلی کاپٹروں نے ہنگو میں کارروائی کرتے ہوئے 9 شدت پسندوں کو ہلاک کر دیا۔
وزیرستان کا دورہ کرنے والے صحافیوں کو طالبان نے کہا ہے کہ وہ اُس مقام کا نام مخفی رکھیں، جہاں کا انہیں دورہ کرایا گیا ہے۔ ان صحافیوں نے البتہ بتایا ہے کہ وہاں ملکی فوج کی طرف سے کی گئی حالیہ شیلنگ اور بمباری کی وجہ سے متعدد مکانات منہدم یا ٹوٹ چکے تھے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہاں خوف کی ایک فضا قائم تھی اور مقامی لوگ اُن سے گفتگو کرنے سے کترا رہے تھے۔