شامی اپوزيشن کا اسلحے کی فراہمی پر زور
12 جولائی 2013خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی بيروت سے موصولہ ايک رپورٹ کے مطابق سيريئن نيشنل کوليشن نے امريکی کانگريس پر زور ديا ہے کہ وہ شامی باغيوں کو اسلحے کی فراہمی کے معاملے ميں ان کی حمايت کريں۔ اس سلسلے ميں جمعرات کی شب اپوزیشن اتحاد کی جانب سے جاری کردہ ايک بيان ميں کہا گيا ہے، ’’سيريئن نيشنل کوليشن ان رپورٹوں پر شديد تويش کا اظہار کرتی ہے، جن کے تحت امريکی انتظاميہ کی فری سيريئن آرمی کے ساتھ اضافی تعاون کے معاملے ميں کانگريس تاخير پيدا کر رہی ہے۔‘‘ اس بيان ميں اپوزيشن کے مرکزی بلاک نے يہ يقين دہانی بھی کرائی کہ کوليشن ہتھياروں کو عسکريت پسند عناصر کی پہنچ سے دور رکھے گی۔ واضح رہے کہ امريکا سميت کئی يورپی ممالک کو کافی عرصے سے يہ خدشہ ہے کہ اگر باغيوں کو اسلحہ فراہم کيا گيا، تو ممکنہ طور پر يہ اسلحہ باغيوں کے صفوں ميں موجود مسلمان عسکريت پسندوں کے ہاتھ بھی لگ سکتا ہے۔
گزشتہ روز جاری کردہ اس بيان ميں اپوزيشن نے ہتھياروں کی جلد از جلد فراہمی پر زور ديتے ہوئے يہ دعوے بھی کيے کہ صدر بشار الاسد کی حامی افواج نے پچھلے کچھ دنوں سے حمص اور حلب سميت ملک کے ديگر حصوں ميں اپوزيشن فورسز کے خلاف اپنے حملے بڑھا ديے ہيں۔ واضح رہے کہ فری سيريئن آرمی وہاں کا مرکزی باغی يونٹ ہے۔
پچھلے ايک برس کے دوران مسلح شامی تنازعے نے کافی حد تک فرقہ وارانہ صورت بھی اختيار کر لی ہے۔ باغی، جن کی اکثريت سنی مسلمانوں پر مشتمل ہے، کو غير ملکی جنگجوؤں کی حمايت حاصل ہے جبکہ رپورٹوں کے مطابق صدر اسد کی فوجوں کی مدد پڑوسی ملک لبنان کی شيعہ تنظيم حزب اللہ کرتی ہے۔
فری سيريئن آرمی کے اہم کمانڈر کی ہلاکت
دريں اثناء فری سيريئن آرمی کے ايک اعلی سطح کے کمانڈر کی مبينہ طور پر القاعدہ سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں کے ہاتھوں ہلاکت پر شامی باغی تنظيم نے سخت برہمی کا اظہار کيا ہے اور اسے شامی تنازعے ميں اسلام پسند عناصر کے خلاف اعلان جنگ کے مساوی قرار ديا ہے۔ فری سيريئن آرمی کے کمال حمامی نامی کمانڈر کو جمعرات کے روز مبينہ طور پر سخت گير اسلام پسند گروپ ’اسلامک اسٹيٹ آف عراق اينڈ دا ليوانٹ‘ کے اراکين نے صوبہ لٹاکيا ميں قتل کيا۔
باغی کمانڈروں نے جوابی کارروائی کا عندیہ دیا ہے اور اس پيش رفت سے شامی خانہ جنگی ميں مسلمان عسکريت پسند عناصر اور باغی، جنہيں مغربی ممالک کی حمايت حاصل ہے، کے درميان لڑائی کا ايک نيا باب کھل سکتا ہے۔
واضح رہے کہ شام ميں مارچ سن 2011 سے جاری حکومت مخالف تحريک ميں مختلف اندازوں کے مطابق اب تک قريب 93,000 افراد ہلاک ہو چکے ہيں۔