شام میں فرقہ وارانہ تشدد کا اصل ذمہ دار کون؟
24 اگست 2025حمزہ العمرین کو لاپتہ ہوئے ایک ماہ سے کچھ زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ 33 سالہ حمزہ، جو شام کی سول ڈیفنس تنظیم 'وائٹ ہیلمٹس‘ کے ایمرجنسی ریسپانس سینٹر کے سربراہ تھے۔ انہیں 16 جولائی کو ان کی گاڑی سے اُس وقت اغوا کر لیا گیا تھا جب وہ آگ بجھانے کے کام سے واپس لوٹے تھے۔
وہ السویدا علاقے میں حالیہ تشدد کے بعد اقوام متحدہ کی ٹیم کی انخلاء میں بھی مدد کر رہے تھے۔ یہ علاقہ شام کی دروز اقلیت کا مرکز ہے۔
ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اغوا کاروں کے چند فون کالز کے بعد ان کا حمزہ سے یا ان کے بارے میں کسی سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔
انہیں اس طرح کیوں اغوا کیا گیا؟
حمزہ کے اہل خانہ نے ڈی ڈبلیو کو ایک ای میل انٹرویو میں کہا،''انسانی خدمت کے کارکنان کو عام طور پر نشانہ نہیں بنایا جاتا، ان کا کسی تنازعے سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ اس لیے ہمیں دھچکا لگا کیونکہ (حمزہ) کا کسی فریق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان کا مشن خالصتاً انسانی بنیادوں پر تھا۔‘‘
حمزہ العمرین کا اغوا شام میں فرقہ وارانہ تشدد کا حصہ ہے، جس میں حالیہ دنوں میں دروز اقلیت کے ارکان کو دوسرے شامیوں سے سامنا ہوا، جن میں بدوی سنی اور نئی قومی فوج کے ارکان بھی شامل تھے۔
حمزہ العمرین کے اہل خانہ کا یقین ہے کہ حمزہ کو غالباً السویدا میں دروز ملیشیا نے قید کر رکھا ہے اور ممکن ہے صرف اس وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہو کہ وہ سنّی ہیں۔
السویدا میں وسط جولائی سے شروع ہونے والے تشدد میں لگ بھگ 1,700 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ ایسا واحد واقعہ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے رپورٹ کیا ہے کہ مارچ میں ساحلی علاقوں میں لڑائی کے دوران تقریباً 1,000 افراد مارے گئے، جو زیادہ تر علوی اقلیت کے علاقے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ شام کی عبوری حکومت کے خلاف بغاوت نما کارروائیاں دوبارہ بھڑک اٹھی ہیں۔ ہدف بنا کر قتل، اغوا اور فرقہ وارانہ زیادتی کے واقعات بھی جاری ہیں۔ لیکن ساتھ ہی جھوٹی خبریں، تعصب اور سازشی نظریات کی کثرت کی وجہ سے یہ جاننا اور بھی مشکل ہو گیا ہے کہ تشدد کا سب سے زیادہ ذمہ دار کون ہے۔
ایک شامی، جو 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے سے بہت پہلے جرمنی منتقل ہو گیا تھا، نے ''شام اِن ٹرانزیشن‘‘ ویب سائٹ کو بتایا، ''کسی کو حقائق معلوم نہیں لوگ کس کو ذمہ دار سمجھتے ہیں یہ مکمل طور پر اُن کے سیاسی نظریے پر منحصر ہے۔‘‘
تشدد کی تحقیقات
مارچ میں علوی اکثریتی علاقوں میں تشدد کے بعد، عبوری حکومت کے سربراہ اور سابق باغی ملیشیا لیڈر احمد الشرع نے وعدہ کیا کہ ذمہ داروں کا پتا لگایا جائے گا۔
جولائی میں اس انکوائری کے نتائج جاری کیے گئے۔ اس میں 298 مبینہ ملزمان کو فوجی دھڑوں (یعنی عبوری حکومت) سے جوڑا گیا، جبکہ 265 مبینہ ملزمان ان مسلح گروہوں سے وابستہ تھے جنہیں سابق آمر بشارالاسد کی حکومت کی ''باقیات‘‘ کہا جاتا ہے۔
گزشتہ ہفتے، اقوام متحدہ کے''شامی عرب جمہوریہ پر آزاد بین الاقوامی انکوائری کمیشن‘‘ نے 66 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی، جس میں مارچ کے اوائل میں ہونے والے تشدد کی تفصیلات بیان کی گئیں۔
رپورٹ کے مطابق ساحلی علاقوں میں تشدد ''کئی مقامات پر ایک منظم طرز پر‘‘ ہوا۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ کچھ دھڑوں یا افراد کے درمیان ''ایک منظم پالیسی‘‘ موجود تھی۔ لیکن تحقیق کاروں نے نتیجہ اخذ کیا کہ ''ایسے حملوں کی کوئی حکومتی پالیسی یا منصوبہ بندی کا ثبوت نہیں ملا۔‘‘
بیالیس واقعات کی دستاویزات اور 200 سے زیادہ گواہوں کے بیانات پر مشتمل رپورٹ سے صورت حال کی شدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، بعض قصبوں میں حکومت سے منسلک جنگجو شہریوں کی حفاظت کر رہے تھے جبکہ اسی قصبے میں دوسرے جنگجو جنگی جرائم اور لوٹ مار میں ملوث تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ تشدد، ماورائے عدالت قتل، فرقہ وارانہ زیادتی اور بدعنوانی ہر جانب سے ہوئیں، حتیٰ کہ کچھ عام شہریوں نے بھی اس موقع کو ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیا۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ایرن زیلن نے کہا، ''یہ بات درست لگتی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ شام کی حکومت کی پہلے کی گئی تحقیق کے مطابق ساحلی علاقوں میں ہونے والے تشدد میں کسی نہ کسی شکل میں تقریباً دو لاکھ افراد ملوث تھے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ حیات تحریر الشام، جو باغی ملیشیا ہے اور اب عبوری حکومت کی قیادت کر رہی ہے اور نئی فوج کی بنیاد ہے، کے جنگجوؤں کی تعداد 30 ہزار سے 60 ہزار کے درمیان ہی رہی ہے۔
دہائیوں کا عدم اعتماد
برطانوی ادارے ''کنفلکٹ میڈی ایشن سولیوشنز‘‘ کے محقق لارس ہاؤخ نے کہا،''شام کی جنگ اسد کے ہٹنے کے ساتھ جادوئی طور پر ختم نہیں ہو سکتی، یہ اب بھی جاری ہے اور بیرونی مداخلت اور علاقائی رقابتیں بدستور موجود ہیں۔‘‘
محققین کے مطابق اسد حکومت نے شامی عوام کے خلاف وحشیانہ طاقت استعمال کی اور تقسیم کو بڑھاوا دیا۔ اب جب آمریت ختم ہو چکی ہے تو دہائیوں پرانی دشمنیاں پھر اُبھر رہی ہیں۔ کچھ شہری سکیورٹی کے خلاء کا فائدہ اٹھا کر ان لوگوں سے بدلہ لے رہے ہیں جنہیں وہ آمریت کے دور میں اپنا نقصان رساں سمجھتے تھے۔ نتیجہ، انتشار، عدم تحفظ اور جھوٹی معلومات کا پھیلاؤ نکلا جس سے یہ جاننا مزید مشکل ہو گیا ہے کہ کس نے کس کے ساتھ کیا کیا۔
واشنگٹن انسٹی ٹیوٹ کے سینئر فیلو ایرن زیلن کے مطابق ''ملک اسلحے سے بھرا ہوا ہے۔‘‘ اُن کا کہنا ہے کہ مختلف لوگ تشدد کے ذمہ دار ہیں، یہ ایک کثیرالجہتی مسئلہ ہے۔ ''ریاست کے پاس تشدد پر اجارہ داری نہیں ہے، اس لیے یہ سلسلہ غالباً جاری رہے گا جب تک یہ صورت حال تبدیل نہیں ہوتی۔‘‘
استثنیٰ اور خوف
اگرچہ تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تمام اطراف سے زیادتیاں ہوئیں، لیکن مبصرین اور سول سوسائٹی کارکنوں کا خیال ہے کہ اب ذمہ داری عبوری حکومت پر ہے کہ وہ تشدد اور تقسیم کو مزید بڑھنے سے روکے۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق تنظیم ''دی سیریئن کیمپین‘‘ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر، رزان راشدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، اسد حکومت کے قائم کردہ اصول توڑنے ہوں گے اور اس کے لیے عبوری حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ شہریوں کو تحفظ ملے اور اپنی افواج کو جواب دہ بنایا جائے۔
انہوں نے مزید بتایا، ''انسانی خدمت کے کارکنوں کو نشانہ بنانا، محاصرے کا استعمال، صحافیوں اور سول سوسائٹی کو ڈرانا، یہ سب ملک میں بڑھتے ہوئے خوف اور بے خوفی کے کلچر کو مضبوط کریں گے۔‘‘
دوسری طرف، لاپتہ کارکن حمزہ العمرین کے اہل خانہ صرف انتظار ہی کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ عبوری حکومت ملیشیا پر دباؤ ڈالے اور اقوام متحدہ جیسے بین الاقوامی ادارے بھی ایسا کریں۔ لیکن اسی ہفتے السویدا کے قریب مزید شہری اور امدادی کارکن اغوا کر لیے گئے۔
حمزہ کے اہل خانہ چاہتے ہیں کہ یہ سب رک جائے۔ ''ہم شام میں کسی بھی صورت تقسیم کے خلاف ہیں،‘‘ انہوں نے کہا، ''ہمارے شام کے تمام مسالک کے لوگوں سے تعلقات ہیں اور ہمیں اب بھی امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے کیونکہ ہم اپنے ملک کے بہتر، محفوظ مستقبل پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ