شام میں دروز اور بدو قبائل کے درمیان جھڑپیں، 360 افراد ہلاک
وقت اشاعت 17 جولائی 2025آخری اپ ڈیٹ 17 جولائی 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- غزہ پٹی: اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 22 فلسطینی ہلاک
- برطانیہ اور جرمنی کے مابین دفاعی تعاون اور انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف تاریخی معاہدہ
- شام میں دروز اور بدو قبائل کے درمیان جھڑپیں، 360 افراد ہلاک
- فرانس نے سینیگال میں اپنے آخری فوجی اڈے بھی خالی کر دیے
- ایرانی صدر کا اسرائیل کے خلاف جنگ میں سکیورٹی ناکامیوں کا اعتراف
- یوکرینی کابینہ میں رد و بدل: یولیا سویریدینکو نئی وزیر اعظم مقرر
- غزہ میں کیتھولک چرچ پر حملہ: دو خواتین ہلاک، متعدد زخمی
- امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ستمبر میں پاکستان کا ممکنہ دورہ: مقامی میڈیا
- پاکستان میں مون سون کے سیزن میں ہلاکتوں کی تعداد اب 180
غزہ پٹی: اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 22 فلسطینی ہلاک
جمعرات کو غزہ پٹی میں اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 22 افراد ہلاک ہو گئے، جن میں سے دو افراد ایک ایسے چرچ میں مارے گئے، جس سے متوفی پوپ فرانسس کا قریبی رابطہ رہا کرتا تھا۔
فلسطینی طبی حکام کے مطابق شمالی غزہ میں واقع جبالیہ میں ایک حملے میں پانچ بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے سات افراد مارے گئے۔
ایک دوسرے حملے میں امدادی ٹرکوں کے تحفظ پر مامور آٹھ افراد مارے گئے جبکہ وسطی غزہ پٹی میں تین افراد اور مشرقی غزہ پٹی کے علاقے زیتون میں بھی چار افراد مارے گئے۔
جمعرات کو حملوں میں نشانہ بننے والوں میں وہ افراد بھی شامل ہیں، جو غزہ کے واحد کیتھولک مسیحی چرچ ’’ہولی فیملی چرچ‘‘ میں موجود تھے۔ اس چرچ کے ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے پادری گابریئل رومانیلی، جو ماضی میں پوپ فرانسس کو اسرائیلی فلسطینی تنازعے پر باقاعدگی سے بریفنگ دیا کرتے تھے، اس حملے میں زخمی ہو گئے۔
ٹی وی فوٹیج میں انہیں الاہلی ہسپتال میں زخمی حالت میں دیکھا گیا، جہاں ان کی دائیں ٹانگ پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔
ویٹیکن سٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا کہ پوپ لیو ان ہلاکتوں پر ’’انتہائی غمزدہ‘‘ ہیں اور انہوں نے فوری جنگ بندی کی اپیل دوہرائی ہے۔ اسرائیلی ڈیفنس فورسز نے کہا ہے کہ وہ ان ہلاکتوں سے متعلق رپورٹوں سے آگاہ ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔
ان حملوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ میں جاری جنگ میں نہ صرف شہری بلکہ مذہبی مقامات اور امدادی کاموں سے جڑے افراد بھی محفوظ نہیں رہے۔ عالمی برادری کی جانب سے جنگ بندی کی اپیلیں مسلسل شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں، تاہم میدان جنگ میں تاحال ان کا کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا۔
برطانیہ اور جرمنی کے مابین دفاعی تعاون اور انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف تاریخی معاہدہ
برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر اور جرمن چانسلر فریڈرش میرس نے آج بروز جمعرات ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کر دیے، جس کا مقصد دوطرفہ دفاعی تعلقات کو مضبوط بنانا اور انسانوں کی اسمگلنگ کے لیے انگلش چینل استعمال کرنے والے گروہوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے درمیان تعاون بڑھانا ہے۔
مئی میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پہلی بار برطانیہ کا دورہ کرنے والے جرمن چانسلر میرس کا کہنا تھا، ’’یہ جرمن برطانوی تعلقات کے لیے ایک تاریخی دن ہے۔ ہم یورپی یونین سے برطانیہ کی رخصتی کے بعد ایک دوسرے کے ساتھ قریبی تعاون چاہتے ہیں۔ یہ معاہدہ دیر سے ہی سہی، مگر بہت ضروری تھا۔‘‘
اس معاہدے پر لندن کے معروف وی اینڈ اے میوزیم میں دستخط کیے گئے، جو ملکہ وکٹوریہ اور ان کے جرمن نژاد شوہر پرنس البرٹ کے نام سے منسوب ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم اسٹارمر نے کہا، ’’یہ معاہدہ ہمارے ارادے اور اس عزم کی علامت ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مزید قریبی تعاون چاہتے ہیں۔‘‘
انسانوں کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کیے گئے اس معاہدے کے تحت دونوں ممالک آپس میں انٹیلیجنس شیئرنگ، مشترکہ آپریشنز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے باہمی تبادلے جیسے اقدامات میں تعاون کریں گے تاکہ ہیومن ٹریفکنگ کرنے والے جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی کی جا سکے۔‘‘
یہ معاہدہ نہ صرف دفاعی شعبے میں یورپ اور برطانیہ کے تعلقات کی بحالی کی علامت سمجھا جا رہا ہے بلکہ یہ بریگزٹ کے بعد ایک نئی شراکت داری کی طرف قدم بھی ہے۔
شام میں دروز اور بدو قبائل کے درمیان جھڑپیں، 360 افراد ہلاک
برطانیہ میں قائم اور انسانی حقوق کی نگران غیر سرکاری شامی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق شام کے جنوبی صوبے سویدہ میں حالیہ دنوں میں دروز مذہبی اقلیت اور سنی بدو قبائل کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم 360 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
سن 2006 سے شام میں حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی نگرانی کرنے والی اس تنظیم کا کہنا ہے کہ شام کی سرکاری افواج اب سویدہ شہر اور صوبے سے مکمل طور پر نکل چکی ہیں۔ ان کی جگہ مقامی دروز ملیشیا نے وہاں سکیورٹی کا انتظام سنبھال لیا ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کی جانب سے جاری کی گئی ویڈیوز میں شامی فوجیوں کو رات کے اندھیرے میں سویدہ سے نکلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ادھر ’’سویدہ 24‘‘ویب سائٹ کے ایڈیٹر انچیف ریان معروف نے بھی اے ایف پی کے ساتھ گفتگو میں تصدیق کرتے ہوئے کہا، ’’سویدہ میں اب کوئی سرکاری فوجی موجود نہیں۔‘‘
شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے بھی ٹیلی وژن پر خطاب میں کہا، ’’سویدہ کی سکیورٹی کی ذمہ داری مذہبی عمائدین اور مقامی دھڑوں کو سونپ دی گئی ہے تاکہ قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے امن قائم رکھا جا سکے۔‘‘
دوسری جانب اسرائیلی فوج کے سربراہ ایال زمیر نے کہا ہے، ’’ہم جنوبی شام کو دہشت گردی کا گڑھ نہیں بننے دیں گے۔‘‘یہ بیان ممکنہ طور پر شام کے سابق حکمران بشار الاسد اور القاعدہ کے درمیان پرانے تعلقات کے تناظر میں دیا گیا ہے۔
اسرائیل نے حالیہ دنوں میں دمشق اور جنوبی شام میں کئی فضائی حملے کیے ہیں، جن کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ دروز برادری کی حمایت میں کیے گئے۔
شام کا اسرائیل پر الزام
شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے جمعرات کو ایک ٹی وی خطاب میں اسرائیل پر الزام عائد کیا کہ وہ شام کو جان بوجھ کر جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہا ہے، ’’ہم بخوبی جانتے ہیں کہ کون ہمارے وطن کو تقسیم کرنے اور ہمیں جنگ کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’ہم انہیں وہ موقع نہیں دیں گے۔‘‘
اسرائیلی حملوں پر بین الاقوامی رد عمل
روس نے اسرائیلی حملوں کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ شام کی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ’’یہ حملے نہ صرف بین الاقوامی قانون بلکہ شام کی خود مختاری کی بھی سنگین پامالی ہیں اور ان کی سخت مذمت کی جانا چاہیے۔‘‘
چین نے بھی ایسے اقدامات سے گریز کی اپیل کی ہے، جو خطے کے پہلے سے نازک حالات کو مزید خراب کر سکتے ہیں۔
یورپی یونین کے ترجمان انور الانونی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہم اسرائیل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شام میں حملے فوری طور پر بند کرے۔ خاص طور پر دمشق میں اہم اداروں پر بمباری سے شہریوں کی جانیں خطرے میں ہیں اور شام کی عبوری حکومت کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو رہی ہیں۔‘‘
جرمن وزیر خارجہ یوہان واڈےفیہول نے کہا، ’’اسرائیلی فضائی حملوں کے بعد شام کو خطے کی جنگوں کا میدان نہیں بننے دینا چاہیے۔ تمام فریقوں کو فوری طور پر کشیدگی سے باز رہنا چاہیے تاکہ شام میں (اقتدارکی) منتقلی کا عمل جاری رہ سکے۔‘‘
یہ ساری پیش رفت ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے، جب شام سابق آمر بشار الاسد کے زوال کے بعد، سیاست اور سلامتی کے لحاظ سے ایک نئے عبوری دور میں داخل ہو رہا ہے لیکن اندرونی کشیدگی، داخلی تصادم، اسرائیلی حملے اور علاقائی دباؤ اس عبوری سفر کو مزید دشوار بناتے جا رہے ہیں۔
فرانس نے سینیگال میں اپنے آخری فوجی اڈے بھی خالی کر دیے
فرانس نے آج سترہ جولائی بروز جمعرات باضابطہ طور پر سینیگال میں موجود اپنے آخری دو فوجی اڈے سینیگالی حکام کے حوالے کر دیے، جس کے بعد مغربی اور وسطی افریقہ میں فرانس کے کوئی مستقل فوجی کیمپ باقی نہیں رہے۔
یہ اقدام سینیگال میں فرانسیسی فوج کی 65 سالہ موجودگی کے خاتمے کی علامت ہے۔ اس سے قبل بھی فرانس نے براعظم کے دیگر حصوں سے اپنی فوجیں نکال لی ہیں کیونکہ یہ سابق نوآبادیاتی ریاستیں تیزی سے پیرس سے فاصلہ اختیار کر رہی ہیں۔
فرانسیسی انخلا ایسے وقت میں ہوا ہے، جب ساحل کے خطے کو مالی، برکینا فاسو اور نائیجر میں پھیلتے ہوئے تشدد کا سامنا ہے، جو اب جنوبی خلیجِ گنی کے ممالک کو بھی متاثر کر رہا ہے۔ رواں ماہ مالی میں ہونے والے متعدد حملوں میں سے ایک سینیگال کی سرحد کے قریب ایک قصبے پر بھی ہوا۔
فرانس نے اپنا سب سے بڑا کیمپ ’’کیمپ گیئیے‘‘ اور ڈاکار ایئرپورٹ پر واقع اپنا فضائی اڈہ ایک رسمی تقریب میں واپس کیا۔ اس موقع پر سینیگالی چیف آف اسٹاف جنرل مبائے سیسے اور افریقی خطے میں فرانسیسی افواج کے سربراہ جنرل پاسکل ایانی سمیت اعلیٰ حکام شریک تھے۔
تقریباً 350 فرانسیسی فوجی، جو سینیگالی فوج کے ساتھ مشترکہ آپریشنز میں حصہ لیتے تھے، اب ملک سے روانہ ہو رہے ہیں۔ انخلا کا عمل مارچ 2025 میں شروع ہوا تھا اور اب مکمل ہو گیا ہے۔
فرانس کے اس انخلا کا مطالبہ صدر باسیرو دیومائے فائے نے کیا تھا، جو 2024 کے انتخابات میں تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے تھے۔ تاہم برکینا فاسو، مالی اور نائیجر جیسے فوجی حکومتوں والے ممالک کے برعکس، فائے نے زور دیا ہے کہ سینیگال فرانس کے ساتھ تعاون جاری رکھے گا۔
ایرانی صدر کا اسرائیل کے خلاف جنگ میں سکیورٹی ناکامیوں کا اعتراف
ایرانی صدر مسعود پزشکیان نے پہلی بار اعتراف کیا ہے کہ اسرائیل کے خلاف حالیہ جنگ میں ایران کو سکیورٹی کی سنگین ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
روزنامہ ایران کے مطابق صدر نے جمعرات کو کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، ’’جنگ کے دوران، جو سکیورٹی کی خامیاں سامنے آئیں، ان کا تجزیہ کرنا اور انہیں دُور کرنا ضروری ہے۔‘‘
ایران جیسے آمرانہ نظام میں حکومتی سطح پر اس نوعیت کی خود پر تنقید غیرمعمولی سمجھی جاتی ہے۔ گزشتہ ماہ ہونے والی 12 روزہ جنگ میں، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں کئی اعلیٰ ایرانی فوجی کمانڈر اپنے نجی گھروں میں مارے گئے۔
حملوں کا ہدف صرف فوجی اور جوہری تنصیبات ہی نہیں بلکہ کم معروف مقامات بھی بنے، جن میں تہران میں واقع ایک ہولوکاسٹ کی نفی کرنے والا ادارہ بھی شامل ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان حملوں کا اندرونی معلومات کے بغیر ممکن ہونا ناممکن تھا۔
کئی ہفتوں سے ایسی اطلاعات گردش کر رہی ہیں کہ ایرانی سکیورٹی اداروں کے بعض عناصر نے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ مبینہ طور پر تعاون کیا۔ اسی سلسلے میں اب تک متعدد افراد کو موساد کے لیے جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا جا چکا ہے۔
یوکرینی کابینہ میں رد و بدل: یولیا سویریدینکو نئی وزیر اعظم مقرر
آج بروز جمعرات یوکرین میں یولیا سویریدینکو کو نیا وزیرِ اعظم مقرر کردیا گیا ہے، جو روس کے 2022 میں یوکرین پر مکمل حملے کے بعد پہلی نئی سربراہِ حکومت بن گئی ہیں۔
سویریدینکو اس سے قبل اقتصادی امور کی وزیر تھیں اور امریکہ کے ساتھ معدنیات کے اہم معاہدے کی مرکزی مذاکرات کار بھی تھیں۔ وہ ان عہدیداروں میں بھی شامل ہیں، جنہیں صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کابینہ میں نئی ذمہ داریاں سونپی ہیں۔
اس اقدام کا مقصد ایک جنگ زدہ قوم میں تحریک پیدا کرنا اور مقامی اسلحہ سازی کی صنعت کو فروغ دینا ہے، جو روسی حملے کے چوتھے سال میں داخل ہو چکی ہے۔
تاہم ملکی سطح پر اس تبدیلی کو کوئی انقلابی قدم نہیں سمجھا جا رہا، کیونکہ زیلنسکی اب بھی ان ہی افسران پر انحصار کر رہے ہیں، جنہوں نے جنگ کے دوران اپنی قابلیت اور وفاداری ثابت کی ہے۔
زیلنسکی نے جمعرات کو کئی اعلیٰ حکومتی عہدوں پر نامزدگیاں پارلیمنٹ میں جمع کرائیں، جن میں وزیرِ اعظم ڈینس شمیہال کی تبدیلی بھی شامل ہے۔ شمیہال، جو یوکرین کی تاریخ کے طویل ترین عرصے تک خدمات انجام دینے والے وزیرِ اعظم رہے، کو اب وزیرِ دفاع بنایا جا رہا ہے۔
غزہ میں کیتھولک چرچ پر حملہ: دو خواتین ہلاک، متعدد زخمی
غزہ پٹی میں واقع واحد کیتھولک چرچ پر حملے کے نتیجے میں دو خواتین ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ یہ بات غزہ سٹی کے الاہلی ہسپتال کے ڈاکٹروں نے جمعرات کے روز بتائی۔
حملے میں ہولی فیملی چرچ کو نقصان پہنچا، جو کہ غزہ میں واقع واحد کیتھولک مسیحی عبادت گاہ ہے۔ اطالوی خبر رساں ادارے آنسا کے مطابق چھ افراد شدید زخمی ہوئے، جبکہ چرچ کے پادری فادر گایریئل رومانیلی، جو ماضی میں پوپ فرانسس کو غزہ کی جنگ کی صورتحال پر باقاعدگی سے آگاہ کرتے رہے تھے، کو ٹانگوں پر معمولی زخم آئے ہیں۔
دوسری جانب اطالوی وزیر اعظم جارجیا میلونی نے اس چرچ پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ستمبر میں پاکستان کا ممکنہ دورہ: مقامی میڈیا
دو پاکستانی نجی ٹی وی چینلز نے جمعرات کو نامعلوم ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں سال ستمبر میں پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں۔
اگر یہ دورہ پایۂ تکمیل کو پہنچتا ہے تو یہ تقریباً دو دہائیوں بعد کسی امریکی صدر کا پہلا دورۂ پاکستان ہو گا۔ اس سے قبل صدر جارج ڈبلیو بش نے 2006 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے اس متوقع دورے سے متعلق کسی بھی معلومات سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
دونوں ٹی وی چینلز کے مطابق صدر ٹرمپ اسلام آباد آمد کے بعد بھارت کا دورہ بھی کریں گے۔ یاد رہے کہ حالیہ مہینوں میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری دیکھی گئی ہے۔ گزشتہ ماہ صدر ٹرمپ نے ایک غیر معمولی اقدام کے تحت پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کو وائٹ ہاؤس میں مدعو کیا تھا، جسے دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں مون سون کے سیزن میں ہلاکتوں کی تعداد اب 180
پاکستان میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایجنسی (این ڈی ایم اے) کا کہنا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران شدید بارشوں کے باعث کم از کم 54 افراد ہلاک ہو گئے، جس کے بعد 26 جون سے جاری مون سون سیزن کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد تقریباً 180 تک پہنچ گئی ہے۔
این ڈی ایم اے کی ترجمان نے جمعرات کے روز بتایا کہ زیادہ تر ہلاکتیں پنجاب کے مختلف علاقوں سے رپورٹ ہوئی ہیں، جہاں بدھ کی صبح سے موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ تقریباً بغیر رکے جاری ہے، جس کے باعث کئی شہری علاقوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔
راولپنڈی میں نالہ لئی میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو گئی ہے، جس پر انتظامیہ نے آس پاس کے رہائشی علاقوں کے لوگوں کو فوری طور پر نقل مکانی کی ہدایت کی ہے۔
ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا، ’’گزشتہ 24 گھنٹوں میں ملک بھر میں 54 افراد ہلاک اور 227 زخمی ہوئے، زیادہ تر اموات پنجاب سے ہوئیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کے وقت کے مطابق صبح 8 بجے تک جمع کیے گئے۔” این ڈی ایم اے کے مطابق 26 جون سے شروع ہونے والے مون سون سیزن میں اب تک 70 بچوں سمیت تقریباً 180 افراد جاں بحق اور 500 سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔
راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے جمعرات کو عام تعطیل کا اعلان کرتے ہوئے شہریوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی ہے، جب کہ محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ بارشوں کا سلسلہ جمعہ تک جاری رہے گا۔حکومتی بیان میں کہا گیا، ’’حساس علاقوں کے رہائشی ہنگامی حالات کے لیے تین سے پانچ دن کا راشن، پینے کا پانی اور ضروری ادویات پر مشتمل ایمرجنسی کٹ تیار رکھیں۔‘‘
یاد رہے کہ 2022 میں پاکستان کو تباہ کن مون سون کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں ملک کا ایک تہائی حصہ زیرِ آب آ گیا تھا اور 1,700 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔